بلوچ لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) کا کہنا ہے ہفتے کے روز فیاض علی سمیت لاپتہ ہونے والے سات افراد بازیاب ہوئے ہیں
فیاض بلوچ کی اہلیہ نرگس فیاض نے شوہر کے ہفتے کی شب بازیاب ہو کر واپس اپنے گھر پہنچنے پر کہا ’ہمارے گھر کے دروازے پر بالکل ایسی دستک ہوئی، جیسی میرے شوہر کو اٹھانے کے لیے آنے والے لوگوں نے دستک دی تھی۔ ہم خوفزدہ ہوئے لیکن جب ہم نے دروزاہ کھولا تو سامنے میرے شوہر فیاض علی کھڑے تھے‘
دیگر افراد میں بلوچ شاعرہ حبیبہ پیر، فٹبالر عبدالرشید، گلوکار اشرف رضا کے علاوہ سعید محمد مری شامل تھے۔ اس کے علاوہ سات ماہ قبل لاپتہ ہونے والے ارشد بنگلزئی اور راشد بنگلزئی بھی واپس اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں
’فیاض کو دیکھ کر ہم خوشی سے آنسو ضبط نہیں کر سکے‘
نرگس فیاض نے بتایا کہ ہفتے کی شب رات کو بارہ بجے کے قریب ہمارے گھر کے مین گیٹ پر زوردار دستک ہوئی تو ہم بہت خوفزدہ ہوئے
’یہ دستک بالکل اسی نوعیت کی تھی جو 30 اگست 2021 کی شب جیل روڈ ہدہ کے علاقے فقیر آباد میں واقع ہمارے گھر پر ان لوگوں نے دی تھی جو فیاض علی کو اٹھانے آئے تھے۔‘
’میں اور میری ساس دروازہ کھولنے گئے اور جب دروازے کے پاس پہنچ کر پوچھا کہ کون تو آواز آئی فیاض علی۔ جب دروازہ کھولا تو فیاض باہر کھڑا تھا، جنھیں دیکھ کر ہم خوشی سے اپنے آنسو ضبط نہیں کر سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ فیاض کے لاپتہ ہونے کے بعد ہم چار خواتین اور میرا آٹھ ماہ کا بچہ کسی سہارے کے بغیر رہ رہے تھے
ان کا کہنا تھا کہ ’فیاض کی واپسی ہمارے لیے خوشی کا بہت بڑا لمحہ تھا۔ بس یہ دعا ہے کہ جتنے بھی لوگ لاپتہ ہیں اللہ ان کو واپس ان کے گھروں میں لوٹا دے تاکہ وہ بھی ہماری طرح خوش ہوں۔‘
تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا کہنا ہے گزشتہ ایک ماہ کے دوران خواتین کی جبری گمشدگیوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے
وی ایم بی پی کے چیئرمین نصراللہ بلوچ کا دعویٰ ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں جو واقعہ پیش آیا اس کے بعد سے دس خواتین اور بچوں کو بلوچستان کے علاوہ کراچی سے لاپتہ کیا گیا
ان کا کہنا تھا کہ ان خواتین میں سے شاعرہ حبیبہ بلوچ کو رہا کر دیا گیا جبکہ کیچ کے علاقے ہوشاپ سے لاپتہ خاتون نور جہاں بلوچ پر جعلی مقدمہ قائم کیا گیا
دوسری جانب حکومت بلوچستان کے ترجمان فرح عظیم شاہ نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کالعدم عسکریت پسند تنظیمیں پہلے جوانوں کو اور اب خواتین کو استعمال کر رہی ہیں
ان کا کہنا تھا کہ نور جہاں بلوچ نامی خاتون کو ان کے ایک ساتھی سمیت کیچ سے گرفتار کیا گیا، جن کا تعلق کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ سے ہے
فرح عظیم شاہ نے کہا کہ ان سے خود کش جیکٹ اور چھ ہینڈ گرینیڈ سمیت دیگر دھماکہ خیز مواد برآمد کیا گیا، جس کے بعد ان کے خلاف سی ٹی ڈی مکران نے باقاعدہ مقدمہ درج کیا
واضح رہے کہ 26 اپریل کو کراچی یونیورسٹی میں ایک خودکش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت کم از کم چار افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے تھے
اس حملے کی ذمہ داری بلوچ انتہا پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے قبول کی تھی اور تنظیم کی جانب سے جاری بیان کے مطابق کراچی یونیورسٹی میں خودکش حملہ آور کرنے والی خاتون شاری بلوچ عرف برمش تھیں
اس واقعے کے بعد بلوچ خواتین کو مختلف مقامات سے گرفتار کرنے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں
بلوچ خواتین کی مبینہ گمشدگی کے واقعات کے خلاف اتوار کو کوئٹہ اور گوادر کے علاوہ دیگر شہروں میں احتجاج کیا گیا جبکہ کوئٹہ میں ریڈ زون میں دھرنا رات گئے تک جاری رہا
تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر کا کہنا ہے کہ اب ہماری خواتین کو بھی ہراساں کیا جا رہا ہے
انھوں نے کہا کہ ’ہمارا مقصد بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں اور ان کو ہراساں کرنے کے واقعات کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانا ہے۔‘
بلوچ یکجہتی کیمٹی کی خاتون عہدیدار ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بتایا کہ دو دہائی سے ہمارے مردوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جا رہا تھا لیکن اب تواتر کے ساتھ ہماری خواتین کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔
اس سوال پر کہ کیا خواتین غیر قانونی اقدامات میں ملوث نہیں ہو سکتی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی پر الزام ہے تو ان کے خلاف قوانین کے تحت کارروائی کی جائے نہ کہ ان کو اغوا کر کے ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنائیں.