بیجوں کو کچھ عرصے کے لیے خلا میں بھیجنے سے سائنسدانوں کو فصلوں کی نئی اقسام کو تیار کرنے میں مدد ملتی ہے، جو ایک دوسرے ماحول میں بہت تیزی سے نشو نما پاتی ہے اور دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد دیتی ہے
پہلی نظر میں یہ پوری دنیا میں ہوا میں لہراتی ہوئی گندم کی کسی بھی دوسری فصل کی طرح لہلہاتی نظر آتی ہیں۔ لیکن شمال مشرقی چین میں فصلوں کے وسیع میدان کوئی عام پودے نہیں ہیں- یہ بیرونی خلا میں اگائے گئے تھے!
یہ گندم کی ایک قسم ہے، جسے لُویُوآن 502 (Luyuan 502) کہا جاتا ہے اور یہ چین کی دوسری سب سے زیادہ اگائی جانے والی گندم کی ایک قسم ہے۔ ان پودوں کی افزائش بیجوں سے کی گئی تھی، جو زمین کی سطح سے 340 کلومیٹر اوپر مدار میں بنائے گئے ہیں
یعنی خلا میں اس بلندی پر کم کشش ثقل کے منفرد ماحول میں اور ہمارے سیارے کی حفاظتی مقناطیسی ڈھال کے باہر۔۔۔۔
انہوں نے ڈی این اے میں باریک تبدیلیاں کیں، جس سے ان پودوں میں نئی خصوصیات پیدا ہوئیں، جس نے انھیں خشک سالی کو زیادہ برداشت کرنے اور بعض بیماریوں کے خلاف بہتر مزاحمت کرنے کے قابل بنا دیا
وہ اہم غذائی فصلوں کی نئی اقسام کی بڑھتی ہوئی تعداد کی ایک مثال ہیں، جو ہمارے سیارے کے گرد چکر لگاتے ہوئے خلائی جہازوں اور خلائی اسٹیشنوں پر اگائی جا رہی ہیں۔ یہاں وہ مائیکرو گریوٹی کے اصول کے تابع ہوتے ہیں اور اس مقام پر وہ کائناتی شعاعوں کا بے انتہا مقدار میں سامنا کرتے ہیں، جو پودوں کی نشو نما اور ان کی تبدیلی کے عمل کو زیادہ متحرک کرتی ہیں- ایک ایسا عمل، جسے خلائی تبدیلی کے نام سے جانا جاتا ہے
کچھ تغیرات پودوں کو بڑھنے کے قابل نہیں چھوڑتے ہیں، جبکہ دوسرے فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ کچھ پودے سخت اور زیادہ بڑھتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں جبکہ دوسرے ایک پودے سے زیادہ خوراک پیدا کرتے ہیں یا تیزی سے بڑھتے ہیں یا انہیں کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب انہیں زمین پر واپس لایا جاتا ہے تو، خلائی نسل کے ان پودوں کے بیجوں کو احتیاط سے جانچ پڑتال اور مزید افزائش نسل سے گزرنا پڑتا ہے تاکہ مقبول فصلوں کے قابل عمل ورژن تیار کیے جا سکیں
موسمیاتی تبدیلیوں اور کمزور سپلائی چینز کی وجہ سے زراعت پر بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا کرنے والی دنیا میں، جس نے فصلوں کو کھائی جانے والی جگہ کے قریب اگانے کی ضرورت پر زور دیا ہے، اب کچھ محققین کا خیال ہے کہ خلائی افزائش، جسے ’اسپیس میوٹیجینیسیس‘ (خلائی جینیاتی تغیرات کی پیداوار) بھی کہا جاتا ہے، ان کا فصلوں کو ان نئے چیلنجوں کے مطابق ڈھالنے میں ان کی مدد کرنے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے
بیجنگ میں چائنیز اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز کے انسٹیٹیوٹ آف کراپ سائنسز میں فصل کی بہتری کے لیے چین کے معروف خلائی تغیرات کے ماہر اور نیشنل سینٹر آف اسپیس میوٹیجینیسیس کے ڈائریکٹر لیو لکیانگ کہتے ہیں ”خلائی تغیر پذیری خوبصورت تغیّرات پیدا کرتی ہے“
مثال کے طور پر بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے مطابق، لُویُوآن 502 (Luyuan 502) کی پیداوار چین میں اگائی جانے والی معیاری گندم کی اقسام سے 11 فیصد زیادہ ہے، خشک سالی کے لیے بہتر برداشت اور گندم کے سب سے عام کیڑوں کے خلاف فصل کی نئی اقسام کی تخلیق کے لیے شعاع ریزی پر مبنی تکنیکوں کا استعمال کے ذریعے مضبوط مدافعت رکھتی ہے
لیو لکیانگ کہتے ہیں ”لُویُوآن 502 (Luyuan 502) حقیقی کامیابی کی ایک کہانی ہے۔ اس میں پیداواریت کی بہت زیادہ صلاحیت اور موافقت ہے۔ اسے مختلف حالات کے ساتھ بہت سے مختلف علاقوں میں کاشت کیا جا سکتا ہے“
یہ موافقت ہی وہ صلاحیت ہے، جو لُویُوآن 502 (Luyuan 502) کو چین کے وسیع متنوع زرعی خطّے اور متنوع آب و ہوا کے کسانوں میں مقبول بناتی ہے
لیو کے مطابق، یہ پچھلے تیس برسوں میں چین میں پیدا ہونے والی دو سو سے زیادہ خلائی تبدیلی والی فصل کی اقسام میں سے ایک ہے۔ گندم کے علاوہ چینی سائنسدانوں نے خلائی نسل کے چاول، مکئی، سویابین، الفالفا (ایک پھلی دار پودا جو مویشیوں کے چارے کے کام آتا ہے، جسے فصفصہ بھی کہا جاتا ہے)، تل، کپاس، تربوز، ٹماٹر، میٹھی مرچ اور دیگر اقسام کی سبزیاں تیار کی ہیں
چین سنہ 1987ع سے خلائی میوٹیجینیسیس کا تجربہ کر رہا ہے اور دنیا کا واحد ملک ہے جو مسلسل اس تکنیک کا استعمال کر رہا ہے۔ تب سے اس نے فصلوں کے بیجوں کو خلائی مدار میں لے جانے کے لیے درجنوں مشن کیے ہیں۔ چینی سائنسدانوں نے پہلی خلائی نسل کی فصل – میٹھی مرچ کی ایک قسم جسے ’یُوجی او 1‘ (Yujiao 1) کہا جاتا ہے – سنہ 1990 میں اُگائی تھی۔
لیو کہتے ہیں کہ چین میں اُگائی جانے والی میٹھی مرچ کی روایتی اقسام کے مقابلے ‘یُوجی او 1′ (Yujiao 1) کی فصل بہت بڑا پھل دیتی ہے اور بیماریوں کے خلاف زیادہ مزاحمت کی صلاحیت رکھتی ہے
حالیہ دہائیوں میں چین کے ایک عالمی خلائی طاقت کے طور پر ابھرنے نے اسے مدار میں ہزاروں بیج بھیجنے کے قابل بنایا ہے۔ سنہ 2006 میں چین نے اپنی اب تک کی سب سے بڑی کھیپ – 250 کلو گرام سے زیادہ بیج اور 152 انواع کے مائکروجنزموں کو – سیٹلائٹ شیجیان 8 کے ذریعے مدار میں بھیجا تھا۔ اس سال مئی میں، بارہ ہزار بیج بشمول گھاس، جو، الفالفا وغیرہ کی کئی اقسام اور پھپھوندی کو شینزو 13 مشن کے عملے کے حصے کے طور پر خلا میں بھیجا تھا جو کہ چین کے ٹیانہے (Tianhe) خلائی اسٹیشن پر چھ ماہ بسر کر کے واپس آئی
چینیوں نے نومبر سنہ 2020 میں چاند کی سطح چانگ ای 5 مشن بھیجا تھا جو چاند کی سطح پر اترا بھی تھا، اس کے ساتھ چاند کے چکر لگانے کے لیے لیبارٹری میں چاول کے بیجوں کی ایک کھیپ بھی بھیجی تھی۔ چینی اخبارات کے مطابق، چاند سے واپس آنے والے چاولوں کے بیجوں سے فصلیں بھیں اگائی گئیں
لیو کہتے ہیں کہ ’ہم چین کے مضبوط خلائی پروگرام سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہم اپنے بیجوں کو سال میں دو بار خلا میں بھیجنے اور فصلوں کی بہتری کے لیے ان خلائی سہولیات کو استعمال کرنے کے لیے قابل بازیافت سیٹلائٹس، اونچائی والے پلیٹ فارمز بلکہ انسان بردار خلائی جہاز بھی استعمال کر سکتے ہیں۔’
بیج صرف چار دن سے کئی مہینوں تک کے عرصے کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔ اس غیر معمولی ماحول میں، بیجوں اور پودوں میں بہت سی تبدیلیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ سب سے پہلے اعلٰی توانائی کی شمسی اور کائناتی تابکاری خود بیجوں میں موجود جینیاتی مواد کو نقصان پہنچا سکتی ہے، جس کے نتیجے میں میوٹیشن یا کروموسومل خرابیاں ہوتی ہیں، جو آنے والی نسلوں تک پہنچ جاتی ہیں
کم کشش ثقل کا ماحول دیگر تبدیلیوں کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ وہ پودے جو نمو پاتے ہیں اور مائیکرو گریویٹی (بہت کمزور کشش ثقل، جیسے مدارج خلائی جہاز میں) میں زیادہ بڑھتے ہیں وہ خلیوں کی شکل میں تبدیلی اور خود خلیوں کے اندر کے ڈھانچے کی تنظیم کو بھی بدلتے ہیں
زیادہ تر معاملات میں چینی سائنسدان بیجوں کو خلا میں لے جاتے ہیں اور پھر زمین پر واپس آنے کے بعد انھیں دوبارہ زمین پر اگاتے ہیں۔ اس کے بعد پودوں کو مفید خصوصیات کے لیے سکرین کیا جاتا ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کون سے پودے فصل کی زیادہ روایتی اقسام کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں
سائنسدان ان تبدیلیوں کی تلاش میں ہیں جو بڑے پھل، کم پانی کی ضروریات، بہتر غذائیت کی خصوصیات، اعلٰی اور کم درجہ حرارت کے خلاف مزاحمت یا بیماری کے خلاف موافقت پیدا کرنے کا باعث بنیں۔ بعض صورتوں میں نایاب تغیرات فصل کی پیداوار یا موافقت پیدا کرنے کی لچک میں پیش رفت کا باعث بن سکتے ہیں
جب تک کہ محققین کافی حد تک بہتر قسم کے بیج کے حصول تک پر نہ پہنچ جائیں جو کسانوں کی ضروریات کو پورا کر سکے تب تک سب سے زیادہ امید افزا پودوں کی مزید افزائش کی جاتی ہے
چین اگرچہ اس وقت خلائی تغیرات (میوٹیجینیسیس) میں تحقیقات کے میدان میں ایک رہنما ملک ہے، تاہم خلائی افزائش کے ساتھ تجربہ کرنے والا پہلا ملک نہیں تھا۔ یہ تکنیک امریکی اور سوویت سائنس دانوں کی طرف سے سوویت سیٹلائٹ ‘کاسموس 782’ (Kosmos 782) کے مدار میں بھیجے گئے گاجر کے خلیوں کا استعمال کرتے ہوئے کیے گئے کچھ ابتدائی تجربات سے متعلق تھے
نقطہ نظر انہی اصولوں پر انحصار کرتا ہے جیسے ‘نیوکلیئر میوٹیجینیسس’، جو کہ سنہ 1920 کی دہائی کے آخر سے جاری ہے۔ ‘نیوکلیئر میوٹیجینیسس’، جانداروں کے ڈی این اے میں قدرتی طور پر ہونے والے ‘میوٹیجینیسس’ کے عمل کو تابکاری کے سامنے لا کر تیز کرتا ہے
لیکن جب کہ ‘نیوکلیئر میوٹیجینیسس’ زمینی ذرائع سے گاما شعاعوں، ایکس رے اور آئن شعاعوں کا استعمال کرتا ہے، خلائی میوٹیجینیسس کائناتی شعاعوں کی فراوانی پر انحصار کرتا ہے جو ہمارے سیارے کے ارد گرد پھیلی ہوئی ہے۔ زمین پر ہم اس کے مقناطیسی میدان اور اس کے گھنے ماحول کے ذریعہ ان اعلٰی توانائی کی شعاعوں سے محفوظ رہتے ہیں، لیکن مدار میں، خلائی جہاز اور سیٹلائٹ مسلسل اس تابکاری کی زد میں رہتے ہیں، جو زیادہ تر سورج سے خارج ہوتی ہیں
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک اور عالمی ادارہ خوراک کے مشترکہ پلانٹ بریڈنگ اینڈ جینیٹکس گروپ کی قیادت کرنے والی شوبا شِوا شنکر کے مطابق، خلائی اور جوہری تغیر (سپیس اور نیوکلیئر میوٹیجینٹس) دونوں فصلوں کی نئی اقسام کے نشوونما کے اوقات کو نصف تک کم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا سے اکیس میل جنوب مشرق میںسیڈبرڈزڈورف (Seibersdorf) میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی جوہری تجربہ گاہیں ہیں، اور یہ جوہری تبدیلیوں کا عالمی مرکز اور تربیتی مرکز ہیں۔ تعاون کرنے والے ممالک جن کے پاس اپنی جوہری تنصیبات نہیں ہیں وہ شعاع ریزی کے لیے اپنے بیج، پودوں کی کٹنگ یا پودے شیو شنکر کی ٹیم کو بھیجتے ہیں
شِوا شنکر کہتی ہیں کہ ’بیجوں کو روشن کرنے میں صرف چند منٹ لگتے ہیں، لیکن اس کے لیے کافی علم اور مہارت درکار ہوتی ہے۔ ہر قسم پودے کی برداشت مختلف ہوتی ہے۔ بیجوں کو ایک خوراک دیں جو بہت زیادہ ہو، انھیں شعاع ریزی کے اندر بہت دیر تک رکھیں گے تو آپ انھیں تباہ کر دیں گے، اور وہ اگ نہیں پائیں گے۔ اگر آپ انھیں ایک مناسب حد تک ریڈی ایشنز نہیں دیں گہ تو وہ میوٹیٹ نہیں کریں گے (یعنی تغیرات پیدا نہیں کریں گے) اور ایک ایسی نسل کی طرح ختم ہو جائیں گے جیسا کہ ان کی پیشرو نسلوں کے ساتھ ہوا تھا۔‘
خوراک اور زراعت میں جوہری توانائی اور خوراک اور زراعت کے عالمی اداروں کے مشترکہ ’نیوکلیئر ایپلی کیشنز ڈویژن‘، جس کا پلانٹ بریڈنگ اینڈ جینیٹکس گروپ ایک حصہ ہے، کی بنیاد سنہ 1964 میں رکھی گئی تھی۔ سنہ 1920 کی دہائی کے آخر میں گندم، مکئی، چاول، جئی اور جو میں تغیر (میوٹیشن کے ذریعے ویرینٹس) پیدا کرنے کے لیے ایکس رے کا استعمال کرتے ہوئے تجربات کیے گئے جس میں پوری دنیا کے ماہرین نباتات نے دلچسپی لی
سنہ 1950 کی دہائی تک سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک کے پاس نہ صرف ایکس رے کے ذریعے بلکہ ‘الٹرا وائیلٹ’ (UV) شعاعوں اور گاما شعاعوں کے ساتھ بھی کیے گئے تجربات کے اپنے جوہری افزائش کے پروگرام تھے
شوبا شِوشنکر کہتی ہیں کہ ‘اس وقت یورپ اور شمالی امریکہ میں بہت کوشش کی گئی تھی۔ نیوکلیئر میوٹیجینسِس کی مدد سے تخلیق کی گئی بہت سی نئی قسموں کا اجرا کیا گیا تھا۔ لیکن گذشتہ دو تین دہائیوں میں ان میں سے بہت سے ممالک نے اس تکنیک کو ترک کر دیا تھا۔ خاص طور پر امریکہ نے ٹرانسجینک ٹیکنالوجیز کی طرف رجوع کیا ہے جو لیباٹری میں بیرونی ڈی این اے کے ٹکڑوں کو پودوں کا جینوم میں داخل کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہیں۔’
تاہم نیوکلیئر میوٹیجینسِس ختم نہیں ہوا۔ ایشیا بحرالکاہل کے خطے کے ممالک نے چین کی سربراہی میں پر اعتماد طریقے سے اس کے استعمال کو جاری رکھا۔ وہ آئی اے ای اے کی میوٹیجینسِس فصلوں کی اقسام کے ڈیٹا بیس کو بھرتے رہتے ہیں، جو آج 3,300 نئی تیار شدہ فصلوں کی اقسام پر مشتمل ہے۔ شِوا شنکر کا کہنا ہے کہ اگرچہ کچھ غریب ایشیائی ممالک کے لیے ٹرانسجینک ٹیکنالوجیز کے مہنگی ٹیکنالوجی کی وجہ سے نیوکلیئر میوٹیجینسِس کے ساتھ جڑے رہنے کا بنیادی محرک ہو سکتا ہے، جسے امیر مغربی ممالک نے ترک کر دیا ہیں
شِوشنکر کہتی ہیں کہ ‘مثال کے طور پر امریکی صنعتی کاشتکاری کا شعبہ کیڑوں اور جڑی بوٹیوں سے متعلق مزاحمت جیسی مٹھی بھر خصوصیتوں کو ترجیح دیتا ہے۔ ٹرانسجینک ٹیکنالوجیز اس کے لیے کافی بہتر کام کرتی ہیں۔ لیکن ایشیائی ممالک میں صورتحال بہت مختلف ہے۔’
ایشیائی بریڈرز بہت سے چھوٹے کسانوں کے لیے بیج تیار کرتے ہیں جو انتہائی متنوع ماحول میں کام کرتے ہیں۔ صرف ایک یا دو خصوصیتوں میں ترمیم (میوٹیشن) کرنا کافی نہیں ہوگا
شوبا شِوشنکر کہتی ہیں کہ ’انھیں مزید پیچیدہ خصوصیات کی ضرورت ہے۔ ان میں سے بہت سے آب و ہوا کی صورتحال سے متعلق ہیں جیسے کہ گرمی اور خشک سالی کی برداشت یا غذائیت کی کمی یا نمکین مٹی میں اگنے کی صلاحیت، وغیرہ۔ میری رائے میں یہ ٹرانسجینک ٹیکنالوجیز سے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔‘
چین اپنی زرعی فصلوں کے جینیاتی پول کو بہتر بنانے کی کوشش کو ایک ضرورت کے طور پر دیکھتا ہے۔ لیو اور ان کی ٹیم کے مطابق اگر دنیا کو سنہ 2050 تک کُرّہِ ارض پر رہنے والے اضافی دو ارب لوگوں کو خوراک مہیا کرنا ہے تو دنیا کو اہم اناج کی پیداوار میں 70 فیصد اضافہ کرنا ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایشیا پیسفک خطے میں بڑھتی ہوئی آبادی کو خوراک کی کمی کا سب سے زیادہ خطرہ ہے
جوہری توانائی کے عالمی ادارے ‘آئی اے ای اے’ کے مطابق، جوہری اور خلائی تغیرات (سپیس اور نیوکلیئر میوٹیجینِسِس) کے ذریعے صرف چین نے 800 سے زیادہ نئی اقسام تیار کی ہیں اور متعارف کرائی ہیں، جن میں اصل روایتی فصلوں کے مقابلے میں تمام اہم خصوصیات بہتر ہیں
تاہم ایک سوال باقی ہے: جب زمین پر لیبارٹریوں میں ایسا کیا جا سکتا ہے تو خلا میں بیج بھیجنے کا کیا فائدہ ہے؟
لیو نے اعتراف کیا کہ خلا میں بیج بھیجنے پر انھیں زمینی شعاعوں میں چپکانے سے زیادہ خرچ آتا ہے۔ پھر بھی ایسا لگتا ہے کہ خلائی سفر واضح فوائد فراہم کرتے ہیں اور اکثر زیادہ دلچسپ نتائج پیدا کرتے ہیں
لیو کا کہنا ہے کہ ‘ہم اصل میں گاما شعاعوں کے مقابلے خلائی تغیرات سے مفید تغیرات کی اعلی تعدد دیکھتے ہیں۔ خلا میں تابکاری کی شدت کافی کم ہوتی ہے، لیکن بیج ان شعاؤں سے زیادہ دیر تک استفادہ کرتے ہیں۔ جسے ہم ذرات کی لینئر توانائی کی ترسیل کہتے ہیں اور مجموعی طور پر حیاتیاتی اثر خلا میں زیادہ ہوتا ہے اور وہاں لیبارٹریوں میں شعاعوں کے مقابلے میں بیجوں کو پہنچنے والے نقصان کی شرح کم ہوتی ہے۔’
لیو کہتے ہیں کہ ایک شعاع ریزی میں بیجوں کو آئنائزنگ کی بڑی خوراکیں ملتی ہیں – 50 سے 400 گریز صرف چند سیکنڈ کے عرصے میں ملتی ہیں۔ دوسری طرف ایک ہفتہ طویل خلائی سفر کے دوران بیج صرف دو ملی گریز کے سامنے آتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اس کے نتیجے میں 50 فیصد تک بیج زمین پر مبنی سخت علاج سے زندہ نہیں رہ پاتے ہیں جبکہ خلا میں اُگائے گئے تقریباً تمام بیج عام طور پر مزید اگتے ہیں
لیو کا کہنا ہے کہ ‘یہ تمام تکنیکیں بہت مفید ہیں اور کچھ بہت ہی حقیقی مسائل کو حل کرنے میں ہماری مدد دے رہی ہیں۔ خلا میں بیج لے جانے کے بہت کم مواقع ہیں۔ ہم صرف اس پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔’
اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خلا میں خوراک اگانے میں دنیا کے دوسرے حصوں میں ایک نئی دلچسپی پیدا ہو رہی ہے۔ نومبر سنہ 2020 میں امریکی تجارتی خلائی خدمات کی کمپنی ‘نینو ریکس’ (NanoRacks) نے گردش کرنے والے گرین ہاؤسز کو چلانے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔ ان کا مقصد کیا ہو گا؟
فصلوں کی نئی اقسام تیار کرنے کے لیے جو دنیا کو خوراک دینے کے لیے بہتر ہوں گی کیونکہ انھیں دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے معدوم ہونے کے خطرے کا سامنا ہے۔ اس کوشش کے لیے، کمپنی جو کہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن سے چھوٹے سیٹلائٹ بھیجنے کے لیے پہچانی جاتی ہے، نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ شراکت کی ہے
متحدہ عرب امارات ایک ایسا ملک جس کی اپنی بہت کم قابل کاشت زمین ہے، یعنی اسے اپنی ضرورت کی زیادہ تر خوراک درآمد کرنا پڑتی ہے
تاہم تمام بیج نئے سپر پودے بن کر خلا سے واپس نہیں آتے ہیں۔ سنہ 2020 میں یورپی سائنس دانوں کی جانب سے بین الاقوامی خلائی سٹیشن (آئی ایس ایس) کو بھیجے گئے سلاد کے پتّوں کے بیجوں کی ایک کھیپ بھیجی تھی۔ زمین پر واپس آنے کے بعد ان پودوں کی نشو نما دوسرے پودوں کے مقابلے میں آہستہ آہستہ بڑھی
اب زیادہ تر تحقیق خلا میں وہ خوراک اگانے پر کی جا رہی ہے جس کا مقصد خلابازوں کو مشن کے دوران خود کو کھانا کھلانے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ مثال کے طور پر آئی ایس ایس پر خلاباز سنہ 2015 سے سلاد کی ایک قسم ‘رومین لیٹِش’ کی فصل اگا کر اس کی کٹائی کر رہے ہیں اور اسے کھا رہے ہیں، اور سنہ 2020 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق سہ پتہ چلا ہے کہ یہ کھانا محفوظ ہے، اور طویل مشنوں پر غذائی اجزاء کا ایک قیمتی ذریعہ فراہم کر سکتا ہے
تاہم اب جب کہ خلابازوں کے لیے خوراک اگانا بہت اہم ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ دنیا بھر کی خلائی ایجنسیاں انسانوں کو چاند پر لوٹنے اور مریخ جیسے دوسرے سیاروں کے سفر پر اپنی نگاہیں مرکوز کر رہی ہیں، تو ایسے میں خلائی خوراک شاید ہم میں سے ان لوگوں کے لیے زیادہ کارآمد اور مفید ہو گی جو یہاں زمین پر رہتے ہیں۔
بشکریہ: بی بی سی اردو