سندھ کے شہر کراچی کے میٹرول ایریا میں رہائش پذیر محمد احسان نے جب حکومت پاکستان کے گھروں کے منصوبے ’میرا پاکستان میرا گھر‘ کے لیے چند مہینے قبل درخواست دی تو بینک کی جانب سے انہیں کہا گیا کہ وہ جو گھر خریدنا چاہتے ہیں اس کے بارے میں بینک کو آگاہ کریں
محمد احسان محدود پیمانے پر کاروبار کرتے ہیں اور کاروبار کے سلسلے میں بینک ٹرانزیکشنز کی وجہ سے ان کا بینک ریکارڈ اچھا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بینک کی جانب سے انکیں کہا گیا کہ وہ صرف اس گھر کی نشاندہی کر دیں اور اس متعلق معلومات فراہم کر دیں تو مکان لینے کے سلسلے میں انہیں قرض باآسانی مل جائے گا
احسان نے جب گھر کے بارے میں بینک کو معلومات فراہم کیں تو انہیں بتایا گیا کہ مکان کی لیز نہیں، اس لیے اس کی لیز کروائیں تو ان کا قرضہ منظور ہو جائے گا
مطلوبہ مکان کی لیز میں چند ہفتے لگے تو انہیں بینک کی جانب سے آگاہ کیا گیا کہ اس اسکیم کے تحت ان کی درخواست پر کارروائی روک دی گئی ہے کیونکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے انکیں سرکلر موصول ہوا ہے کہ فی الحال اس اسکیم کے تحت قرضوں کی فراہمی روک دی جائے
احسان بتاتے ہیں ”میں اس وقت سخت مایوس ہوں کیونکہ سارے مراحل طے ہو چکے تھے کہ اچانک قرضوں کی فراہم روک دی گئی۔ اپنا مکان ہونے کا میرا خواب فی الحال شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آ رہا“
دوسری جانب سفیر احمد اس لحاظ سے خوش قسمت ٹھہرے کہ اس اسکیم کی معطلی سے صرف چند روز پہلے ہی انہیں بینک کی جانب سے بتایا گیا کہ ان کا قرضہ منظور ہو گیا ہے اور اگلے چند ہفتے میں انہیں قرض کی رقم کا پے آرڈر مل جائے گا تاکہ جس مکان کا انہوں نے سودا کیا ہے، وہ اس کی ادائیگی کر سکیں
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کے تحت گھروں کی سکیم ’میرا پاکستان میرا گھر‘ کا اجرا کیا تھا، جس کے تحت ایسے افراد کو بینکوں کی جانب سے گھر یا پلاٹ کے لیے قرض دیا جاتا تھا، جن کے پاس اپنے نام پر گھر نہیں
اس اسکیم کے تحت بہت سارے افراد کو قرضے بھی ملے، جنہوں نے اپنا مکان خریدا۔ ان میں کراچی کے بلال نامی شخص بھی ہیں جنہوں نے طارق روڈ پر اپنا فلیٹ خریدا
تاہم اب موجودہ حکومت کی جانب سے اس سکیم کے تحت قرضوں کی فراہمی روک دی گئی ہے اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے بینکوں کو قرض کے لیے جمع ہونے والی درخواستوں پر کارروائی روکنے کی ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں
موجودہ حکومت میں وفاقی وزیر مملکت خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کے مطابق اس اسکیم کو جاری کرتے ہوئے اس کا ملکی بجٹ پر طویل مدتی اثر نہیں دیکھا گیا، جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کے معاشی امور کے ترجمان مزمل اسلم نے اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت پی ٹی آئی دور کی اس اچھی اسکیم کو جاری نہیں رکھنا چاہتی کہ کہیں سابقہ حکومت کو کریڈٹ نہ مل جائے
بینکر اور تجزیہ کار اس اسکیم کی معطلی کی وجہ سبسڈی کو قرار دیتے ہیں جو آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے حکومت کے لیے قرض دینا مشکل بنا رہا ہے
گزشتہ حکومت کی جانب سے شروع کی جانے والی اس سکیم کے تحت بینکوں کی جانب سے جو قرضہ فراہم کیا جاتا تھا، اس میں قرض کی واپسی کی مدت کے لحاظ سے انتہائی کم شرح سود وصول کیا جاتا تھا
نیشنل بینک کی ویب سائٹ پر قرضہ اسکیم کی معلومات کے مطابق قرض واپسی کی کم از کم مدت پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ مدت بیس سال رکھی گئی، جس پر سود کی شرح مختلف رکھی گئی
بینک میں درخواست دینے کے بعد پلاٹ اور گھر کی تفصیلات بینک کو فراہم کی جاتی تھیں اور بینک ان کوائف کی جانچ پڑتال کے بعد قرض کی درخواست منظور یا مسترد کرتا تھا
اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کےمطابق 30 جون 2022 کو ختم ہونے والے مالی سال تک بینکوں کو 514 ارب روپے قرضے کے لیے درخواستیں وصول ہوئیں، جن میں سے 236 ارب روپے کی درخواستیں منظور کی گئیں اور تقریباً سو ارب روپے کا قرضہ جاری کیا گیا
بینکوں کی جانب سے رعایتی شرح سود پر اس اسکیم کے تحت قرضہ فراہم کیا جاتا جو مارکیٹ شرح سود سے انتہائی کم تھا، تاہم حکومت کی جانب سے اس اسکیم کے تحت قرض کی رعایتی شرح سود اور مارکیٹ کے شرح سود کے درمیان فرق کو سبسڈی کی صورت میں بینکوں کو ادا کیا جا تا تھا
وزارت خزانہ کے بجٹ دستاویز کے مطابق گزشتہ مالی سال کے بجٹ میں گھروں کی اس اسکیم میں سبسڈی کے لیے تیس ارب روپے رکھے گئے تھے، جو موجودہ حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں صرف پچاس کروڑ تک کر دیے
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے کے تحت حکومت کی جانب سے اسکیم ’میرا پاکستان میرا گھر‘ کو عارضی طور مارکیٹ کے بدلے حالات اور اس کو ’زیادہ بہتر بنانے‘ کے لیے معطل کر دیا گیا ہے
وزارت خزانہ کے مطابق وہ اسٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر اس اسکیم کی از سر نو تیاری کے لیے کام کر رہی ہے
وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ پاشا کے مطابق جب اس اسکیم کا آغاز ہوا تھا تو اسے جس طرح ڈیزائن کیا گیا اس کے تحت قرضوں کی فراہمی کے لیے حکومت کی جانب سے سبسڈی دی جاتی تھی جو شرح سود میں فرق پر دی جاتی تھی۔ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام میں ہے اور سبسڈی کے ایشو کو اس میں دیکھنا پڑتا ہے
عائشہ غوث پاشا نے کہا بہت ساری اسکیمیں ایسی رکھی جاتی ہیں جو جذباتی بنیادوں پر جاری کی جاتی ہیں جن کا طویل مدتی اثر نہیں دیکھا جاتا اور نہ ہی ان کی فیصلہ سازی کسی ٹھوس بنیاد پر ہوتی ہے کہ یہ اسکیم کیا ہے اور اس کے لیے کتنے عرصے سبسڈی دی جائے گی اور اس کا طویل مدتی میں ملک کی مالی حالات پر کیا اثر ہوگا
انہوں نے کہا کہ بہت سارے ایسے اقدامات ہیں، جن پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اور ان کے طویل مدتی اثرات کو بھی دیکھنا ہے
ڈاکٹر عائشہ نے اس اسکیم کے ’عارضی طور پر‘ معطل ہونے اور دوبارہ جاری کرنے کے بارے میں کہا ”ابھی بھی حکومت یہ نہیں کہہ رہی کہ اسے جاری رکھنا ہے یا نہیں“
پی ٹی آئی کے مزمل اسلم کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے اس اسکیم کی معطلی کی سوائے ایک کہ اور کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی کہ اس سے کہیں تحریک انصاف کو کریڈٹ نہ مل جائے
انہوں نے کہا ”اس کے تحت دی جانے والی سبسڈی کا کوئی اتنا بڑا مالیاتی اثر نہیں تھا بلکہ یہ اسکیم دو کام کر رہی تھی: ایک تو یہ لوگوں کو سستے مکان فراہم کر رہی تھی اور دوسرا اس کی وجہ سے تعمیراتی شعبے میں سرگرمیاں تیز ہو رہی تھیں جو ملک کی معیشت کے لیے بہتر تھا“
مزمل اسلم کے مطابق موجودہ حکومت یہ اسکیم شروع کرے گی لیکن کچھ عرصے بعد ایک نئے نام سے تاکہ وہ اس کا کریڈٹ خود لے سکے
ایک مقامی بینک میں اس اسکیم کے تحت قرضہ دینے کے امور کی نگرانی کرنے والے بینکر شہاب احمد نے بتایا کہ بہت سارے لوگوں نے اس اسکیم کے تحت اپلائی کیا ہوا تھا اور اس کے رک جانے کی وجہ سے وہ بہت زیادہ مایوس ہیں
انہوں نے کہا کہ صرف ایک سو دس نئی درخواستیں تو ان کے پاس پڑی ہیں، جو اس قرض کے لیے جمع کرائی گئی تھیں تاہم اب بینک کی جانب سے بتا دیا گیا ہے کہ ان پر کوئی کارروائی نہیں ہوگی
شہاب نے بتایا ”فی الحال تو اسکیم رک گئی ہے اور ہو سکتا ہے کہ حکومت کی جانب سے اسے کچھ عرصے بعد نئی شرائط کے تحت جاری کر دیا جائے، جس میں شرح سود بڑھا دیا جائے“