چین سے مقابلہ‘: پہلا بھارتی ساختہ طیارہ بردار جہاز وکرانت سمندر کے میدان میں

ویب ڈیسک

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جمعے کو جنوبی شہر کوچین میں بھارت کے پہلے طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس وکرانت کی رونمائی کردی ہے

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس جہاز کی تیاری پر سترہ برس لگے اور اس کا مقصد چین کی بحری طاقت کا مقابلہ کرنا ہے

البتہ آئی این ایس وکرانت سے بھارتی ساختہ طیارے نہیں اڑیں گے بلکہ اس کا انحصار روسی ساختہ طیاروں پر ہوگا

فرانس کی کمپنی دسو اور امریکی کمپنی بوئنگ کے درمیان وکرانت کے لیے دو درجن طیارے فراہم کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے

وکرانت کو بھارتی بحریہ نے تیار کیا ہے اور یہ ملک میں بننے والا سب سے بڑا بحری جہاز ہے۔ 262 میٹر طویل اس جہاز کا انتظام سولہ سو افراد پر مشتمل عملہ سنبھالے گا اور اس پر کل تیس طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی گنجائش ہوگی

روئٹرز کے مطابق وکرانت کے 75 فیصد حصے مقامی طور پر تیار کیے گئے ہیں

بھارتی اخبار ’دی ہندو‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق وکرانت کا وزن چالیس ہزار ٹن ہے اور اسے بھارت کے مشرق میں واقع سمندر میں تعینات کیا جائے گا، جب کہ مغربی سمندر میں آئی این ایس وکراماندتیہ دفاعی ذمہ داریاں نبھائے گا

وکراماندتیہ بھی طیارہ بردار بحری جہاز ہے، جسے بھارت نے روس سے 2004ع میں خریدا تھا۔ یہ جہاز روس نے 1987ع میں بنایا تھا، تاہم اسے 1996ع میں ڈی کمیشن کر دیا گیا تھا

وکرانت کی لانچنگ کے بعد بھارت امریکہ، برطانیہ، روس، اٹلی اور چین کے ہمراہ ان ملکوں کے کلب میں شامل ہو گیا ہے، جو طیارہ بردار جہاز بنا سکتے ہیں

یاد رہے کہ دنیا بھر میں صرف دس ممالک ایسے ہیں، جن کی بحری فوج میں طیارہ بردار جنگی جہاز شامل ہیں۔ ان میں امریکہ کا نمبر سرفہرست ہے جس کے پاس گیارہ طیارہ بردار جہاز ہیں۔ اس کے بعد چین کا نمبر آتا ہے، جس نے حال ہی میں اپنی بحریہ میں ایک طیارہ بردار جہاز شامل کیا ہے اور اس کے بعد اس کی بحریہ میں طیارہ بردار جہازوں کی تعداد تین ہو گئی ہے

اس وقت اٹلی اور برطانیہ کے پاس دو دو طیارہ بردار جہاز ہیں، روس کے پاس ایک جہاز ہے

بین الاقوامی دفاعی انٹیلیجنس کمپنی جینز میں بحری افواج کے ماہر پراتھامش کارلی کہتے ہیں کہ بحریہ کی طرف سے وکرانت کی جو تصاویر جاری کی گئی ہیں، ان میں وکرانت پر نیول راڈار سسٹم بھی ابھی نصب ہوا دکھائی نہیں دیتا

انہوں نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ وکرانت کے پوری طرح کام شروع کرنے اور بحری بیڑے میں متحرک ہونے میں ابھی وقت لگ سکتا ہے

بھارتی بحریہ کے پاس فی الوقت چالیس روسی ساختہ مگ انتیس طیارے ہیں، جو اس کے دوسرے طیارہ برادر جہاز وکرمادتیہ پر تعینات ہیں۔ ان میں سے کچھ طیارے عارضی طور پر وکرانت پر منتقل کر دیئے جائیں گے۔

نئی دہلی میں قائم نیشنل میری ٹائم فاؤنڈیشن کے ماہر کملیش کمار اگنہوتری نے روئٹرز کو بتایا ’کسی بھی طیارہ برادر بحری جہاز کا سب سے اہم جز اس کا ’ایئر ونگ‘ ہوتا ہے۔ لہذا یہ ایک بڑی کمی ہے۔‘

وکرانت سے پاکستانی بحریہ اور بھارتی بحریہ کے توازن پر کیا فرق پڑے گا؟

اس حوالے سے دفاعی تجزیہ کار رفعت حسین کہتے ہیں ’دونوں ملکوں کا پہلے ہی کوئی مقابلہ نہیں کیوں کہ ویسے بھی بھارت کی بحری طاقت پاکستان سے کوئی پانچ سے چھ گنا زیادہ ہے، اس لیے ایک جہاز سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑنے والا۔ اس کے علاوہ بھارت کے پاس ایٹمی طاقت سے چلنے والی آبدوزیں بھی ہیں، تو توازن پہلے ہی سے بھارت کے حق میں جھکا ہوا ہے‘

البتہ انہوں نے کہا کہ پاکستانی بحریہ اپنے ساحلوں کا دفاع کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے اور حالیہ برسوں میں انہوں نے اپنی استعداد میں اضافہ بھی کیا ہے

رفعت حسین نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا ’حالیہ برسوں میں پاکستانی بحریہ نے اپنے سمندر میں بھارتی آبدوزوں کی کامیابی سے نشان دہی کر کے انہیں وارننگ دی تھی۔‘

اصل ہدف چین

رفعت حسین نے وکرانت کی تیاری کے بارے میں کہا کہ یہ پاکستان کے ساتھ مقابلے کے لیے نہیں بنایا گیا، بلکہ دراصل بھارت کا خواب ’بلو واٹر نیوی‘ بننے کا ہے، یعنی ’وہ اپنی بحری طاقت کو عالمی سطح پر لانچ کرنا چاہتا ہے، اور وکرانت دراصل اسی خواب کی تکمیل کا ایک حصہ ہے‘

انہوں نے کہا ’امریکہ بھارت کی پشت پناہی کر رہا ہے کیوں کہ امریکہ کی اصل مخاصمت چین کے ساتھ ہے اور وہ بھارت کے ساتھ مل کر اس کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے‘

رفعت حسین نے بتایا کہ ’بھارت اس وقت QUAD نامی تنظیم کا حصہ ہے جس میں اس کے علاوہ امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں اور اس کا بنیادی مقصد چین کا گھیراؤ کرنا ہے۔ بھارت کے حصے میں بحرِ ہند کا حصہ آیا ہے، اور وہ اس کی رکھوالی کرنے کی کوشش کرے گا‘

انہوں نے مزید کہا کہ چین کی ساحلی پٹی بہت طویل ہے اور اس میں بحرالکاہل کے علاوہ ایشیا کے علاقے بھی آتے ہیں۔ لیکن رفعت حسین کے مطابق ’ایک جہاز کی تیاری کا یہ مطلب نہیں کہ بھارت چین کے برابر آ گیا ہے، کیونکہ چینی بحریہ ان سے اتنی ہی آگے ہے جتنی بھارتی بحریہ پاکستان سے۔‘

بحری کارروائیوں کے لیے وکرانت کے دستیاب ہونے کے بعد انڈین بحریہ کو یہ صلاحیت حاصل ہو جائے گی کہ وہ بحیرہ ہند میں مغرب اور مشرق دونوں اطراف میں اپنے طیارہ بردار جہاز تعینات کر سکتا ہے اور یوں اس کو بہت وسیع علاقے تک پہنچ حاصل ہو جائے گی۔

ماہرین کے مطابق یہ صلاحیت حاصل ہو جانے کے باوجود انڈیا کی نیوی ابھی بھی اپنے مدمقابل چین کی بحری قوت کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔

چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی بحریہ کے پاس 355 بحری جہاز ہیں جن میں دو طیارہ بردار جہاز، 48 ڈسٹرائر، 43 فریگیٹس اور 61 کورویٹز شامل ہیں۔

اس سال جون ہی میں چین کی بحریہ میں تیسرا طیارہ بردار جہاز شامل کیا گیا ہے جس میں اس کا ’فلائٹ ڈیک‘ یا پورا عرشہ جہازوں کی جدید ترین ’کیٹاپلٹ‘ نظام کی مدد سے پرواز کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس انڈیا کے طیارہ بردار جہازوں کا عرشہ نسبتاً چھوٹا ہے۔

انڈیا کا بحری بیڑہ دو طیارہ بردار جہاز، 10 ڈسٹرائر، 12 فریگیٹس اور 20 کورویٹز پر مشتمل ہے

منصوبے کی تاریخ

پہلی بار حکومت نے اس جہاز کی منظوری جنوری 2003 میں دی تھی۔ سال 2007 میں پہلا معاہدہ ہونے کے بعد کام شروع ہوا

لیکن جہاز کی تعمیر کے دوسرے مرحلے میں تاخیر ہوئی، خاص طور پر جب اس میں روس سے ہتھیار اور پروپلشن سسٹم اور ایوی ایشن کمپلیکس نصب کرنے تھے

سی ایس ایل کے چیئرمین اور مینیجنگ ڈائریکٹر مدھو نائر کے مطابق اس جہاز کو بنانے میں 13 سال لگے۔ وہ کہتے ہیں، ’13 سال بہترین وقت نہیں ہے، ہم بہتر کر سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم یہ پہلی بار کر رہے تھے۔‘

وکرانت کی تخلیق کے ساتھ ہی اس شپ یارڈ کا خود پر اعتماد بڑھ گیا ہے۔ اب وہ مزید صلاحیت حاصل کرنے کے لیے سرمایہ کاری کر رہے ہیں

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور انڈیا کا اگلی نسل کا طیارہ بردار بحری جہاز 2024 میں تیار ہو جائے گا۔ ہمیں امید ہے کہ نئے کیریئر کی تعمیر کی منظوری جلد مل جائے گی۔‘

وکرانت کو بنانے کے لیے 20,000 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ اس جنگی جہاز کی 76 فیصد آلات انڈیا میں تیار ہوئے

بحریہ اور سی ایس ایل دونوں اسے بھارتی دفاعی شعبے میں سرمایہ کاری کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ حکومت کے مطابق گزشتہ 13 سالوں میں جہاز سازی کے شعبے میں تقریباً 15 ہزار نوکریوں کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close