پاکستانی فٹ بال ٹیم کا قطر میں ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ میں نہ ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی خبر ہے کیوں کہ پاکستان میں پروفیشنل فٹ بال ہمیشہ سے ہی بدحالی کا شکار رہی ہے
فنڈز کی کمی تو کبھی فیڈریشن کی اندرونی لڑائیاں تو کبھی فیفا کی جانب سے معطلی، وجوہات کی ایک طویل فہرست ہے
نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک زمانے میں پاکستانی فٹ بال فیڈریشن کی اپنی ویب سائٹ ہوا کرتی تھی، اب وہ بھی فعال نہیں ہے مگر پاکستانی فٹ بال ہمیشہ ایسی بدحالی کا شکار نہ تھی
جب انگریز برصغیر سے گئے تو اپنی ثقافت اور کھیل سے متعلق کافی چیزیں پیچھے چھوڑ گئے۔ جیسے کہ کرکٹ اور فٹ بال
کرکٹ کو ہم نے جنون کی طرح اپنایا اور اس کی کہانی تو آپ جانتے ہی ہوں گے مگر فٹ بال کی کہانی کیا تھی؟
1947ع میں فٹ بال فیڈریشن کا قیام ہوا تو بانی پاکستانی قائد اعظم محمد علی جناح فیڈریشن کے پہلے پیٹرن ان چیف بنے
پاکستانی ٹیم نے اپنا پہلا بین الاقوامی دورہ اکتوبر 1950 میں ایران کے دورے سے کیا۔ اس کے بعد ہی کولمبو کپ میں شرکت کی، جس میں انڈیا کے خلاف میچ صفر صفر سے برابر رہا
اس کے بعد 1955 میں کولمبو کپ کا انعقاد پاکستان میں بھی ہوا اور 1950 کی دہائی میں پاکستان نے ایشیئن گیمز میں بھی حصہ لیا
1960 سے 1970 کی دہائی شاید پاکستانی فٹ بال کے اچھے دن تھے
کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستانی فٹ بال ٹیم اسرائیل کے خلاف میچز کھیل چکی ہے اور اسے ٹف ٹائم دیتے ہوئے میچ ڈرا بھی کر چکی ہے؟
17 دسمبر 1959: انڈیا کے شہر کوچی میں ایشیئن نیشنز کپ کے کوالیفائنگ راؤنڈ میں پاکستان اور اسرائیل کی ٹیمیں مدمقابل ہوتی ہیں اور ایک ٹف مقابلے کا میچ دو دو گول سے برابر رہتا ہے۔ اس میچ کو دیکھنے کے لیے گراؤنڈ میں لگ بھگ 15 ہزار شائقین موجود تھے
اس ٹورنامنٹ کے گروپ اے ایف سی ویسٹ میں چار ٹیمیں تھیں۔ پاکستان، اسرائیل، ایران اور انڈیا۔
اگر آج ان چار ممالک پر مشتمل گروپ ہو اور ان کے میچز ہوں تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ صورتحال کیا ہوگی
خیر اس گروپ میں پاکستان نے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ انڈیا چوتھے نمبر پر رہا۔ پاکستان نے ایران اور انڈیا کو شکست بھی دی
1960 کے آغاز میں پاکستان نے جاپان جیسی مضبوط ٹیم کو شکست دی
فٹ بال پاکستان ڈاٹ کام کے مدیر اور فٹ بال مورخ علی احسن کی تحقیق کے مطابق 1963 میں چین کی ٹیم نے پاکستان دورہ کیا اور چار میچوں میں سے ایک ایک پاکستان اور چین نے جیتا جب کہ دو میچ ڈرا ہوئے
1964 میں پاکستان نے چین کا دورہ کیا جہاں پاکستان نے چین کو ہرایا
سقوطِ ڈھاکہ پاکستان کے لیے سقوطِ فٹ بال ثابت ہوا
مشرقی پاکستان میں فٹ بال کا نظام مغربی پاکستان کے مقابلے میں کہیں منظم اور بہتر تھا۔ 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ نظام اور بہترین کھلاڑی بھی نئے ملک بنگلہ دیش کے ہو کر رہ گئے جس سے پاکستان کی فٹ بال کو شدید دھچکا پہنچا۔
پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے مطابق 1970 کی دہائی میں پاکستان صرف دو ہی ٹورنامنٹس میں شرکت کر سکا۔ آر ڈی سی کپ اور 1974 کی ایشیئن گیمز
اس کے علاوہ جنوبی کوریا کے ساتھ 1978 میں ایک دوستانہ میچ بھی ہوا تاہم پاکستان نے ترکی کے ساتھ میچ دو دو سے برابر بھی کیا
1982 میں پاکستان نے ایک چار ملکی دوستانہ ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا جس میں بنگلہ دیش، عمان اور نیپال نے شرکت کی۔ پاکستان نے بنگلہ دیش کو ہرایا تو صحیح مگر ٹورنامنٹ کا رنر اپ قرار پایا
1986 کی ایشیئن گیمز میں پاکستان کو تمام میچوں میں ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم ایک سال بعد ہوئی ساؤتھ ایشیئن گیمز میں پاکستان کانسی کا تمغہ جیتنے میں کامیاب رہا
ورلڈ کپ میں شرکت کی کوشش
1989 میں پہلی بار پاکستانی ٹیم نے فٹ بال کے ورلڈ کپ میں کوالیفائی کرنے کے لیے کوشش کی مگر کوالیفائنگ راؤنڈ میں پاکستان ایک بھی میچ نہ جیت سکا
فٹ بال مورخ علی احسن کے ایک مضمون کے مطابق 1990 کی دہائی میں فیڈریشن سیاست کی نذر ہونا شروع ہوئی اور اس کے بعد سے پاکستانی فٹ بال صحیح طریقے سے سنبھل نہ سکی
1994 میں پاکستانی ٹیم کو قدرے بہتر فیفا رینکنگ (143) ملی مگر اس رینکنگ کو بنیاد بنا کر کبھی پاکستان میں فٹ بال کی بنیادوں کو مضبوط نہیں کیا گیا
آج فیفا رینکنگ کے مطابق پاکستان 211 ممالک میں سے 196ویں نمبر پر ہے
آج قطر میں دنیا کے بہترین فٹ بالرز پاکستان میں بنے فٹ بال کو کک لگائیں گے، پاکستانی مزدوروں کی محنت سے بنے سٹیڈیمز میں کھیلیں گے اور پاکستانی سکیورٹی اہلکار ان کی حفاظت کریں گے مگر پاکستانی فٹ بال ٹیم ان سب سے کوسوں دور ہوگی۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)