جنوری کا مہینہ اردو زبان کے ایک نامور شاعر کی اس طرح سے بھی یاد دلاتا ہے کہ ان کی پیدائش کا مہینہ ہے۔ اس عہد کے ہردلعزیز شاعروں میں سے ایک احمد فراز، جنہوں نے کہا تھا،
میں تیرا نام نہ لوں پھر بھی لوگ پہچانیں،
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔
جب اچھے دوست یا خوبصورت محبوب کے آنے سے بہار کی ہوا کا جھونکا محسوس ہو تو ایسا ہی خیال آتا ہے اور فراز صاحب کے آس پاس تو ویسے بھی ایسے لوگ رہتے تھے، جن کے منہ سے پھول جھڑتے تھے:
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں،
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں۔
اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ شاعری میں سخت اور غیر روایتی طرزِ عمل کا اظہار نہیں ہو سکتا یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی پہ شعر موزوں نہیں کیا جا سکتا یا پھر معاشرے کی نا انصافی پہ مصرع چست نہیں ہو سکتا اور معاشی نا ہمواری پہ نظم نہیں کہی جا سکتی
یہاں تو پھانسی، کوڑے اور جلا وطنی پر بھی شاعرانہ شاہکار کے نمونے موجود ہیں لیکن تہذیب، ادب اور زبان کے دائرے میں رہنے کی شرط نبھاتے ہوے نظر آتے ہیں
مزاحمتی اور انقلابی کلام کہتے ہوئے بھی ہمارے نامور شاعر فیض احمد فیض اور ان کی تقلید کرتے ہوئے احمد فراز کا لہجہ ’غبارآلود‘ کبھی نہ ہوا
حبیب جالب کی للکار میں بھی گو کہ لہجہ دبنگ اور آواز بلند رہی لیکن الفاظ اور معنی کے رکھ رکھاؤ نے ساتھ نہ چھوڑا
یاد رہے کہ یہ غبار وہ نہیں، جو دھند اور دھویں کے ملاپ سے پنجاب کے کچھ علاقوں میں سردیوں کے موسم میں چھایا رہتا ہے، اتنا کہ آگے والی گاڑی کی روشنیاں بھی دھندلی نظر آتی ہیں، جس سے ٹریفک حادثات کا خطرہ بڑھنے کے باعث موٹر وے سمیت بہت سی سڑکیں بند ہو جاتی ہیں اور ہوائی اڈوں پہ مسافر طیاروں کی اڑان روکنی پڑتی ہے
ہماری آج کی بات اس غبار کی ہے، جہاں آج کل اس قدر بد زبانی، بدتمیز ی، بداخلاقی اور بدتہذیبی کا دور ہے کہ بہار کی جگہ ’غبار‘ نے لے لی ہے۔ ہر سمت سے زہر اگلتی زبانوں کی دھواں دار تقریریں گرد آلود فضا کا منظر نامہ اور گہرا کیے جا رہی ہیں
مجھے یقین ہے آج فراز صاحب زندہ ہوتے تو ایسی زبانوں کا تعارف بہار نہیں غبار سے ہی کرواتے، جس میں سرِ فہرست سوشل میڈیا پہ لپکتی زہر آلود زبانیں ہیں کیونکہ ان پر کوئی قدغن نہیں
آپ جو چاہیں، جیسا چاہیں، جس پر چاہیں اور جتنا چاہیں غبار اڑا سکتے ہیں۔ لیکن خیال رہے کہ یہ تیر لوٹ کر بھی آسکتا ہے اور اکثر آتا بھی ہے بشرطیکہ جواب آں غزل گو بھی ویسا ہی ہزل گو ہو
آپ ٹوئٹر، فیسبک، انسٹاگرام یا ایسی ہی کسی اور مشہور ایپ پر کوئی ایسی پوسٹ لگا کر دیکھیں، جس میں اختلاف کی گنجائش ہو، چاہے وہ قومی نظریہ ہو، سیاسی بیانیہ ہو، مذہبی رجحان ہو یا محض اپنی ذاتی دل کی بات ہو، تبصروں کے تیر آپ کو دفاعی طور پر پسپا ہونے اور قلعہ بند ہونے پر مجبور نہ کر دیں تو کہیے۔ گالی گلوچ تو معمولی بات سمجھی جانے لگی ہے۔ آپ کی محدود سوچ کے برخلاف کوئی کچھ کہے تو مخالف کی ماں بہن جائیں کہاں؟
سوشل میڈیا بلاشبہ آج کی بڑی حقیقت ہے، جس کے ان گنت فوائد ہیں۔ سوشل نیٹ ورکنگ، سماجی اور بین الاقوامی طور پر ہمیں نزدیک لانے اور کاروباری روابط بڑھانے میں بنیادی کردار کی حامل ہے۔
آج کی دنیا کا تین ڈبلیو کے بغیر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کے ذریعے کچھ منفی باتیں بھی پھیل رہی ہیں جن میں سب سے اہم یہی ہے کہ کچھ بھی بول دو بلکہ سب کہہ دو۔ لیکن اس طرح کی مادر پدر آزادانہ خیالات سے گالیاں اور نفرتیں زیادہ پھیل رہی ہیں
آج یہ سوال نہایت اہم ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے اخلاقی طور پر جو گلوبل کلچر پنپ رہا ہے اس کی منزل کیا ہے؟ یہ کلچر ہے یا کچرا؟
اب چلتے ہیں ٹیلی ویژن کی طرف، جہاں ان گنت نیوز چینلوں پر حالاتِ حاضرہ کے پروگرام ہیں، جن میں غیر جانبدارانہ تبصرہ نگاری ڈھونڈنا اتنا ہی مشکل ہے، جتنا کسی نظریاتی پوسٹ پر مثبت تبصرے ڈھونڈا
آپ کسی بھی سیاسی تبصرہ نگار کا نام لیں اور ناظرین سمجھ جائیں گے کہ یہ کسی بھی موضوع پر کیا پوزیشن لے گا۔ مبصروں کو تو چھوڑیں چینل کا نام لیں اور واضح ہو جائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ ظاہر ہے کہ اپنی ایجنڈے والی کروٹ پر!
اعتراض کروٹ یا پوزیشن پر نہیں بلکہ اس زبان پر ہے، جو دوسروں کے سیاسی نظریات کے خلاف استعمال کی جاتی ہے
اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں ہونی چاہیے لیکن کیا کریں یہ بھی ایک المیہ ہے کہ بار بار بتانا پڑتا ہے کہ بات کرتے ہوئے ہمارا تعارف موضوع کی مناسبت سے الفاظ کا صحیح چناؤ، درست لہجہ اور متوازن بدن بولی (باڈی لینگویج) کا اظہار ہونا چاہیے
جو لوگ حکومتی ایوانوں کی کارروائی سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ وہاں ایک اصطلاح رائج ہے ’غیر پارلیمانی الفاظ‘ وہ الفاظ جو اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے نامناسب ہیں، اگر ایوانِ بالا یا ایوانِ زیریں میں کوئی ممبر استعمال کرے تو اسپیکر اپنا استحقاق رکھتے ہوئے ان الفاظ کو expunge یعنی حذف کر دیتا ہے
ٹی وی چینلوں پر ایسے غیر مناسب الفاظ کو کیا کہا جائے؟ اگرچہ یہاں بھی سنسر کا اپنا نظام قدرے فعال ہے، جو آن ائیر جانے سے پہلے ایڈیٹنگ اور لائیو پروگرام کی صورت میں ’بیپ‘ کا ہتھیار آزماتا ہے
لیکن حالاتِ حاضرہ کے اکثر پروگراموں میں دوسرے کی بات کاٹنا، چھوٹی اینٹ کا جواب بڑے سے پتھر کے ساتھ دینا، آنکھوں سے شعلے برسانا، اور لہجے میں زہر بھر کے بولنا کون سے سنسر کی لپیٹ میں آ سکتا ہے
الفاظ کا چناؤ، محتاط اور مناسب آنکھوں میں زہر لیکن، لہجے مگر کٹیلے!
کوئی انہیں سمجھائے کہ منہ پھاڑ کے کوئی بات کہنا دلیل نہیں بلکہ الٹا اثر رکھتی ہے۔ کچھ باتیں ان کہی اور کچھ نہ کہتے ہوے بھی کہہ دینا زیادہ موثر ہے۔ کہاں گئے وہ لوگ جو مانتے تھے کہ
کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے،
کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے۔۔
منہ سے پھول نہ جھڑیں، کوئی بات نہیں کہ یہ وصف بھی ہر کسی کو ودیعت نہیں ہوتا، بہار نہ سہی کہ یہ موسم بھی ہر وقت ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا لیکن کم از کم غبار بھی ہماری ہوا کا تعارف نہ بنے!
اس کے لیے زیادہ تردد کی ضرورت بھی نہیں، بس ایک ایسی عام فہم پوسٹ، جس کو لاکھوں بار ہم سب لائک کرتے ہیں اور ہر بار آگے بھی بڑھاتے ہیں، بس اس پر یقین بھی کرنا شروع کر دیں کہ حضرت علی کے قول کے مطابق ’کلام کرو تاکہ پہچانے جاؤ۔‘
ویسے بولنا تو ہم دو ڈھائی سال کی عمر سے سیکھنا شروع کر دیتے ہیں، لیکن ’کیا نہیں بولنا‘ یہ سیکھنے میں تمام عمر لگا دیتے ہیں اور اکثر پھر بھی نہیں سیکھتے
کاش کوئی ہمیں بتائے کہ انسانی کانوں کے لیے ایک خاص درجے (decibel) سے اوپر کا شور نقصان دہ ہے۔ وہ ماحول کو آلودہ اور طبیعت کو متنفر کرتا ہے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)