گاندھی کی تعلیمی قابلیت اور قانون کی ڈگری پر بحث چھڑ گئی۔۔

ویب ڈیسک

بھارت میں ’بابائے قوم’ کہلائے جانے والے موہن داس کرم چند گاندھی کے متعلق ان دنوں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے

گاندھی کی تعلیمی قابلیت اور ڈگری کو لے کر اس بحث کی شروعات مقبوضہ کشمیر کے لفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے 23 مارچ کو ایک تقریب میں خطاب کے بعد ہوا، جس میں انہوں نے کہا کہ گاندھی کے پاس یونیورسٹی کی کوئی ڈگری نہیں تھی

انہوں نے کہا ”پڑھے لکھے لوگوں کو بھی یہ غلط فہمی ہے کہ گاندھی کے پاس قانون کی ڈگری تھی لیکن گاندھی کے پاس کوئی ڈگری نہیں تھی“

مقبوضہ کشمیر کے نائب گورنر نے گوالیار میں آئی ٹی ایم یونیورسٹی میں ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کے لیکچر میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی۔ یہاں ڈاکٹر منوہر لوہیا کی ایک کتاب کے اجراء کے بعد منوج سنہا نے گاندھی جی کی تعریف کرتے ہوئے اپنی تقریر کا آغاز کیا

ابتدا میں انہوں نے مہاتما گاندھی کے ’سچائی کے راستے پر چلنے کے عزم اور استحکام‘ کی تعریف کی اور کہا کہ اسی خصوصیت کی بنا پر وہ ’بابائے قوم‘ ہو گئے۔ تاہم انہوں نے مہاتما گاندھی کی تعلیمی قابلیت پر سوال اٹھائے

بھارت میں حکمران جماعت بی جے پی کے ایک سینئر رہنما، سابق مرکزی وزیر اور اب مقبوضہ کشمیر کے لفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا ”ایک اور بات میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں۔ ملک میں بہت سے لوگوں اور تعلیم یافتہ افراد کو بھی یہ غلط فہمی ہے کہ گاندھی جی کے پاس قانون کی ڈگری تھی۔ گاندھی جی کے پاس کوئی ڈگری نہیں تھی۔ کچھ لوگ میری اس بات کی مخالفت کریں گے۔ لیکن میں حقائق کے ساتھ اپنی بات کروں گا“

منوج سنہا نے مزید کہا ”کون کہے گا کہ گاندھی جی تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کسی میں ہمت ہے کہ یہ بات کہہ سکے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ان کے پاس ایک بھی یونیورسٹی ڈگری یا کوالیفیکیشن نہیں تھی“

لفٹیننٹ گورنرکا کہنا تھا ”ہم میں سے کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ان (گاندھی) کے پاس قانون کی ڈگری تھی لیکن ان کے پاس یہ نہیں تھی۔ ان کے پاس صرف ہائی اسکول کا ڈپلومہ تھا“

جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر نے کہا ”گاندھی اگرچہ قانون کی پریکٹس کرنے کے اہل تھے مگر ان کے پاس قانون کی ڈگری نہیں تھی، لیکن دیکھیں کہ ان میں بابائے قوم بننے کے لیے کتنی قابلیت تھی“

منوج سنہا کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ مہاتما گاندھی کے پڑپوتے تشار گاندھی نے ایک ٹویٹ کے ذریعہ منوج سنہا کے دعوے کی تردید کی ہے

انہو ں نے لکھا ”موہن داس کرم چند گاندھی نے دو مرتبہ میٹرک پاس کی۔ پہلی بار الفریڈ ہائی اسکول راج کوٹ سے دوسری مرتبہ اسی کے مساوی سمجھے جانے والے لندن کی برٹش میٹریکولیشن۔ انہوں نے لندن یونیورسٹی سے ملحق لا کالج انرٹیمپل سے قانون کی تعلیم حاصل کی اور وہیں سے اس کی ڈگری حاصل کی“

انھوں نے لکھا ”گاندھی نے قانون کی ڈگری کے ساتھ ساتھ دو ڈپلومے حاصل کیے۔ ایک لاطینی میں اور دوسرا فرانسیسی زبان میں“

ایک دوسرے ٹویٹ میں انہوں نے لکھا ”میں نے باپو (گاندھی جی) کی آپ بیتی جموں راج بھون کو بھیج دی ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ لفٹیننٹ گورنر اسے پڑھ کر علم حاصل کر سکیں گے“

گاندھی جی کی ڈگری کے دستاویزات

نئی دہلی کے نیشنل گاندھی میوزیم میں وہ دستاویزات موجود ہیں، جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ موہن داس کرم چند گاندھی نے لندن یونیورسٹی سے الحاق شدہ لاکالج انر ٹیمپل سے قانون کی ڈگری حاصل کی تھی۔ انہیں سن 1891ع میں ’بار ایٹ لا‘ کا سرٹیفیکٹ جاری کیا گیا تھا

لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد گاندھی بھارت لوٹ آئے اور ممبئی میں وکالت شروع کی۔ اس سے متعلق دستاویزات بھی میوزیم میں موجود ہیں۔ حالانکہ ممبئی میں انہیں کامیابی نہیں ملی۔ بعد میں وہ کاٹھیاواڑ پولیٹیکل ایجنسی میں پریکٹس کرنے راجکوٹ چلے گئے

راجکوٹ پولیٹیکل ایجنسی گزٹ میں بھی وہاں کی عدالتوں میں گاندھی کی پریکٹس کی درخواست کا نوٹس دیا گیا ہے

اسی طرح سنہ 1892میں جاری ہونے والی ایجنسی کے نوٹیفکیشن نمبر 16 میں کہا گیا ہے کہ ’بیرسٹر آف لاء مسٹر ایم کے گاندھی نے کاٹھیاواڑ پولیٹیکل ایجنسی کی عدالتوں میں پریکٹس کرنے کی اجازت مانگی تھی اور اسے دی گئی تھی۔‘

تاہم کاٹھیاواڑ میں بھی انھیں وکالت کی پریکٹس میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی

سن 1893ع میں کاٹھیاواڑ کے ایک مسلم تاجر دادا عبداللہ، جو جنوبی افریقہ میں شپنگ کا کاروبار کرتے تھے، نے موہن داس کرم چند گاندھی کو جنوبی افریقہ میں اپنا کاروباری مقدمہ لڑنے کے لیے وہاں بھیجا۔ جب گاندھی جنوبی افریقہ گئے تو ان کی عمر تیئیس سال تھی۔ وہ ایک سال تک جنوبی افریقہ کے شہر نٹال میں رہے۔ اس وقت جنوبی افریقہ بھی انگریزوں کی کالونی تھا۔

موہن داس کرم چند گاندھی کی برطانوی نوآبادیات کے خلاف جدوجہد کا سلسلہ جنوبی افریقہ سے ہی شروع ہوتا ہے۔ وہ بعد میں بھارت لوٹے اور بھارت کی آزادی کی تحریک میں ان کے کارناموں کی وجہ سے انہیں ’بابائے قوم‘ کہا جاتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close