دنیا کے سب سے گنجان آباد ملک کے ایک ویران قصبے کی کہانی، جہاں تنہا بڑھاپا سب سے بڑا مسئلہ ہے!

ویب ڈیسک

بھارت دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن کر ایک طرف چین کو پیچھے چھوڑتا نظر آ رہا ہے، لیکن دوسری جانب یہ ملک کے کچھ حصوں میں آبادی کے بحران کا شکار بھی ہے، جہاں شرح پیدائش بہت نیچے آ گئی ہے اور نوجوانوں کی نقل مکانی نے اپنے پیچھے ایسے قصبے چھوڑے ہیں، جہاں اب صرف عمر رسیدہ لوگ ’موت کے انتظار‘ جیسی زندگی گزار رہے ہیں

بھارتی ریاست کیرالہ کے ایک ایسے ہی قصبے کمباناد میں گزشتہ کئی سالوں سے اسکولوں کو ایک غیر معمولی مسئلے کا سامنا ہے، یہاں طلبہ کی کمی ہے اور اساتذہ کو انھیں تلاش کر کے لانا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ طلبا کو اسکول لانے کے لیے اساتذہ اپنی جیب سے پیسے خرچ کر رہے ہیں

کمباناد میں ایک ڈیڑھ سو سال پرانا گورنمنٹ پرائمری اسکول، جہاں چودہ سال کی عمر تک کے بچے پڑھتے ہیں، وہاں صرف پچاس طلبہ ہیں۔ 1980ع کی دہائی کے آخر تک یہ تعداد سات سو کے قریب تھی۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق غریب اور پسماندہ خاندانوں سے ہے، جو شہر کے بالکل کنارے پر رہتے ہیں

یہاں صرف سات طلبا کے ساتھ، ساتویں جماعت سب سے بڑی کلاس ہے۔ 2016ع میں، اس کلاس میں صرف ایک طالب علم تھا۔ طلبا کو اسکول میں لانا ایک چیلنج ہے۔ اس کے آٹھ اساتذہ میں سے ہر ایک طالب علموں کو گھر سے اسکول لانے اور لے جانے کے لیے آٹو رکشہ کی ادائیگی کے لیے ہر ماہ دو ہزار آٹھ سو روپے خرچ کرتا ہے

وہ گھر گھر جا کر شاگردوں کی تلاش بھی کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ علاقے کے چند نجی اسکول بھی اساتذہ کو طلبا کی تلاش کے لیے بھیج رہے ہیں، یہاں کے سب سے بڑے اسکول میں بمشکل ستر شاگرد ہیں

پرائمری اسکول میں دھندلی سی دوپہر میں بمشکل ہی کسی مصروف اسکول جیسی اسباق کی گونج اور بچوں کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں۔ اس کے برعکس، یہاں اساتذہ چند بچوں کو نیم اندھیرے اور خاموش کلاس رومز میں پڑھاتے ہیں۔ باہر، دھوپ سے بھرے صحن میں چند طالب علم ادھر ادھر گھومتے نظر آتے ہیں

اسکول کی پرنسپل جیا دیوی بے بسی کے عالم میں کہتی ہیں ”ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اس قصبے میں بچے ہی نہیں۔ میرا مطلب ہے کہ یہاں بمشکل ہی کوئی رہتا ہے“

کمباناد کیرالہ کے پٹھانمتھیٹا ضلع کے مرکز میں واقع ہے، جہاں آبادی میں کمی آ رہی ہے اور بزرگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک ایسے ملک میں حیران کن صورتحال ہے، جہاں 47 فیصد لوگ پچیس سال سے کم عمر ہیں اور ان میں سے دو تہائی 1990ع کی دہائی کے اوائل میں بھارت میں آزاد معیشت کے دور کے بعد پیدا ہوئے

کمباناد اور اس کے آس پاس کے نصف درجن گاؤں میں تقریباً پچیس ہزار لوگ رہتے ہیں۔ مقامی ولیج کونسل کی سربراہ آشا سی جے کا کہنا ہے کہ یہاں کے گیارہ ہزار سے زائد گھروں میں سے تقریباً پندرہ فی صد پر تالے لگے ہوئے ہیں، کیونکہ مالکان اپنے بچوں کے ساتھ بیرونِ ملک نقل مکانی کر چکے ہیں۔ یہاں بیس اسکول ہیں، لیکن طلبہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے

ایک ہسپتال، ایک سرکاری کلینک، تیس سے زیادہ تشخیصی مراکز اور تین اولڈ ایج ہوم اس علاقے کی بزرگ آبادی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دو درجن سے زیادہ بینک، یہاں آنے والی ترسیلات کے لیے مقابلہ کرتے ہیں

بھارت نے پچھلے سال بیرون ملک مقیم اپنے شہریوں سے جو ایک سو ارب ڈالر کی ترسیلات زر جمع کیں، ان میں سے تقریباً دس فیصد کیرالہ میں آئے

ریاست میں تیس سال سے شرح پیدائش فی عورت 1.7 سے 1.9 ہے۔ چھوٹے خاندان اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ بچوں کی اچھی تعلیم ہو۔ اس سے نوجوان اپنے والدین کو گھر پر چھوڑ کر مواقع کے لیے ملک کے اندر اور باہر تیزی سے ہجرت کر رہے ہیں اور ان کے والدین پیچھے رہ جاتے ہیں

ممبئی میں قائم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز کے پروفیسر کے ایس جیمز بتاتے ہیں ”تعلیم بچوں کو بہتر ملازمتوں اور زندگیوں کی ہوتی ہے اور وہ نقل مکانی کرتے ہیں۔ ان کے آبائی شہروں یا قصبوں میں پھر ان کے بوڑھے والدین آباد ہوتے ہیں، ان میں سے اکثر اکیلے رہتے ہیں“

چوہتر سالہ اناما جیکب کمبود میں اپنے دو منزلہ سرخ ٹائل والے گھر میں کئی دہائیوں سے تنہا رہ رہی ہیں۔ ان کے شوہر جو ایک سرکاری تیل کمپنی میں مکینیکل انجینیئر تھے، 1980 کی دہائی میں انتقال کر گئے۔ ان کا پچاس سالہ بیٹا دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ابوظہبی میں کام کر رہا ہے۔ ایک بیٹی چند میل دور رہتی ہے، لیکن بیٹی کا شوہر دبئی میں تین دہائیوں سے سافٹ ویئر انجینیئر کے طور پر کام کر رہا ہے

ان کے پڑوسی غائب ہیں، ایک نے اپنے گھر کو تالا لگا دیا اور اپنے والدین کو بحرین لے گئیں، جہاں وہ بطور نرس کام کرتی ہیں۔ دوسرا دبئی چلا گیا اور اپنا گھر ایک بزرگ جوڑے کو کرائے پر دے دیا۔ یہ محلہ ویرانی کی تصویر پیش کرتا ہے

بھارت کے افراتفری اور ہلچل سے بھرے قصبوں کے برعکس، کمباناد کے کچھ حصے واقعی ویران اور وقت کے ساتھ آدھے منجمد ہیں۔ یہ ایک ایسا قصبہ ہے، جسے اس کے بہت سے باشندوں نے ترک کر دیا لیکن یہ کھنڈرات میں تبدیل نہیں ہو رہا

ویران گھروں کو باقاعدگی سے پینٹ کیا جاتا ہے، تقریباً اسی طرح، جیسے کسی بھی دن وہاں کے مکین واپس آ سکتے ہیں حالانکہ وہ شاذو نادر ہی وہاں آتے ہیں

اناما جیکب کہتی ہیں ”یہاں زندگی بہت تنہا ہے۔ میری صحت بھی اچھی نہیں“

دل کی بیماری اور جوڑوں کے درد کے باوجود، جیکب اپنے بیٹے اور پوتے پوتیوں کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے بیرونِ ملک سفر کر چکی ہیں اور اپنے بچوں کے ساتھ اردن، ابوظہبی، دبئی اور اسرائیل میں چھٹیاں گزار چکی ہیں

ان کے قالین والے کمرے میں سجی چیزیں اس بات کی نشاندھی کرتی ہیں کہ وہ دنیا گھوم چکی ہیں۔ درآمد شدہ پیراسیٹامول گولیاں، پستے اور کاجو، چائنہ کے گلدانوں میں بھرے ہوئے پیلے کاغذ کے پھول اور امپورٹڈ باڈی واش کی بوتلیں۔۔

اس سوال پر کہ انہوں نے تنہا رہنے کے لیے بارہ کمروں کا وسیع مکان کیوں بنایا؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ”یہاں ہر کوئی بڑے بڑے گھر بناتا ہے، یہ حیثیت کی بات ہے۔“

وہ اپنے گھر کے پیچھے والے حصے میں بنے فارم میں کافی وقت گزارتی ہیں، جہاں وہ کیلے، ادرک، شکرقندی اور جیک فروٹ اگاتی ہے۔ دوسرے اوقات میں، وہ اخبارات پڑھتی ہیں اور ان کے پاس ایک کتیا ہے، جس کا نام ڈیانا ہے
وہ کہتی ہیں ”کبھی کبھی میں صرف ڈیانا سے بات کرتی ہوں۔ وہ مجھے سمجھتی ہے“

ان کی عمر میں اور خراب صحت کے ساتھ، فارم پر کام کرنا تھکا دینے والا ہے۔ جیکب نے کہا کہ وہ کھیت میں مزدور کا خرچ برداشت نہیں کر سکتیں۔ ایک یومیہ مزدور فارم کی دیکھ بھال کے لیے چھ گھنٹے کے ایک ہزار روپے لیتا ہے

چند گلیوں کے فاصلے پر، چاکو ممین، جو دل کی بیماری اور ذیابیطس کا شکار ہیں، اپنے چھوٹے سے فارم میں روزانہ چار گھنٹے کام کرتے ہیں اور کیلے اگاتے ہیں

چونسٹھ سالہ چاکو ممین نے تین دہائیوں تک عمان میں سیلز پرسن کے طور پر کام کیا۔ انہوں نے چھ سال بعد ایک چھوٹا سا کاروبار بند کر دیا، کیونکہ انہیں اپنے لیے کام کرنے کے لیے لوگ نہیں ملے

اب وہ کافی محنت کے بعد اپنے فارم سے روزانہ تقریباً دس کلو کیلے اگاتے اور فروخت کرتے ہیں

عمر رسیدہ معاشرے میں افرادی قوت کا ملنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔ دوسری ریاستوں سے لوگوں کو نوکری پر رکھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔

جیکب کا کہنا ہے ”بعض اوقات بیرونی لوگوں کے عدم اعتماد کی وجہ سے میں ان کو ملازمت پر رکھنا مناسب نہیں سمجھتی۔ میں اکیلی رہتی ہوں، اگر وہ مجھے مار دے تو کیا ہوگا؟“

پولیس ان عمر رسیدہ رہائشیوں سے ملنے آتی ہے، جو اکیلے رہتے ہیں اور انہیں ایمرجنسی الارم دیتی ہے۔ بوڑھوں اور بند گھروں کے اس پُرسکون شہر میں جرائم بہت کم ہیں

پولیس کا کہنا ہے کہ چوری بہت کم ہوتی ہے کیونکہ لوگ گھر میں زیادہ رقم اور قیمتی سامان نہیں رکھتے۔ انہیں یاد نہیں کہ آخری بار یہاں قتل کب ہوا تھا

مقامی پولیس اسٹیشن کے چیف انسپیکٹر سجیش کمار وی نے بتایا ”یہ سب بہت پرامن ہے۔ ہمیں صرف دھوکہ دہی کی شکایتیں موصول ہوتی ہیں۔ بوڑھے لوگوں کو ان کے رشتہ داروں یا گھریلو ملازموں کے ذریعے دھوکہ دیا جاتا ہے، جو ان کے جعلی دستخط کر کے بینکوں سے رقم نکال لیتے ہیں“

ایک سال قبل، ایک بزرگ رہائشی کے رشتہ دار نے ان کے جعلی دستخط کر کے تقریباً ایک کروڑ روپے کا غبن کیا تھا

جرائم کی کمی کا مطلب یہ ہے کہ پولیس اپنا زیادہ وقت بوڑھوں کی دیکھ بھال میں صرف کرتی ہے۔ کچھ گھروں میں موبائل الارم دے دیے ہیں تاکہ وہ ہنگامی حالات کے دوران پڑوسیوں کو آگاہ کر سکیں

سنہ 2020ع میں پولیس نے یہاں ایک گھر کا دروازہ اس وقت توڑا تھا، جب کسی نے گھنٹی بجانے پر بھی جواب نہیں دیا تھا، بعد میں ایک بزرگ خاتون کو فرش پر پڑا پایا گیا

سجیش کمار نے بتایا ”ہم انہیں ہسپتال لے گئے، جہاں وہ صحت یاب ہو گئیں، ہمارا ایک کام رہائشیوں کو اولڈ ہومز میں منتقل کرنا بھی ہے۔ ہم بوڑھے لوگوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، ہم انہیں ڈاکٹروں کے پاس لے جاتے ہیں“

کمباناد میں ایک مرکز چلانے والے فادر تھامس جان کہتے ہیں ”یہاں بڑھاپا ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے“

انہوں نے بتایا کہ اس قصبے میں تین ایسے اولڈ ایج ہوم ہیں، جہاں ویل چیئر پر لوگوں کو لے جایا جا سکتا ہے، اور جہاں کھلی جگہیں، چوڑے دروازے اور دالان ہیں

فادر جان بتاتے ہیں ”ان لوگوں کے زیادہ تر بچے بیرون ملک رہتے ہیں اور ان کے پاس بوڑھے والدین کو اولڈ ایج ہومز میں منتقل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا“

اولڈ ہوم چلانے والے فادر کے ایس میتھیوز نے بتایا زیادہ تر خواتین جو ہمارے ساتھ رہتی ہیں وہ دھوکہ دہی کا شکار ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ کو ان کے گھر والوں نے چھوڑ دیا ہے

پروفیسر جیمز کہتے ہیں ”یہ کسی بھی آبادیاتی تبدیلی کی کہانی ہےاور آخر میں یہ پورے بھارت کی کہانی بن جائے گی۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close