یہ 21 اگست 1641ء بدھ کے دن کے ابتدائی پہر ہیں۔ بارش کا موسم اس برس تھوڑی بارشوں کے ساتھ آیا اور اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ رات کے وجود میں ہلکی سی نمی اور ٹھنڈک ہے۔ شاہی قلعے کے شمال میں راوی کنارے بندرگاہ پر چہل پہل ہے۔ بہت سارے جہاز جانے کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں
کچھ کو لاہور سے شمال مشرق کی طرف جانا ہے جبکہ کچھ کو لاہور سے راوی کے نچلے بہاؤ پر جو جنوب مغرب کی جانب نکلتا ہے اور ملتان کے قریب چناب سے جاملتا ہے کیونکہ نشیب و فراز کی اس آنکھ مچولی میں جیت ہمیشہ نشیب کی ہوتی ہے۔ یہ ملتان سے آگے دریائے سندھ کے مرکزی بہاؤ سے جا ملتا ہے اور اس طرح یہ دریائے سندھ کا بہاؤ بکھر، سیہون اور نصرپور سے ہوتا ہوا ننگر ٹھٹہ تک سفر کرتا سمندر سے جا ملتا ہے۔ وہ اتنا طویل سفر اپنے آپ کو سمندر کے حوالے کرنے کے لیے ہی تو کرتا ہے کیونکہ یہی فطرت کا قانون ہے اور نشیب کی جھولی میں ہمیشہ جیت کے پھول ہی مہکتے ہیں
ایک درمیانے درجے کی کشتی میں چہل پہل ہے۔ پانی کا بہاؤ تیز ہے، ہوا نہ ہونے کی وجہ سے پانی میں گہرائی تو ہے مگر لہریں نہیں ہیں۔ وہ بستیاں جو دریاؤں اور سمندر کے کناروں پر ہوتی ہیں اس کے شہر رات کی آغوش میں چاہے جتنی گہری نیند سوتے ہوں مگر ان شہروں کی ندیوں اور سمندروں کے کنارے کبھی نہیں سوتے۔ لاہور کے آسمان پر ہلکی سفیدی پھیلی تو نیم کے پیڑ پر بیٹھے سُرخ خوبصورت کَلغی والے مُرغے کو سب سے پہلے پتا چلا کہ شب کا آخری پہر ہے، اس نے پر پھڑپھڑائے اور اپنی طاقت کے مطابق بانگ دی جو دُور تک سنائی دی۔ تب اس کشتی کے بادبان پھیلا دیے گئے جس میں پچاس برس کا چڑچڑا فرے منریک اپنے محافظوں کے ساتھ سوار ہے۔ اس کی پہلی منزل ملتان ہے جو یہاں سے 250 میل (400 کلومیٹر) دُور ہے
منریک کا یہ سفر 10 دنوں کا تھا مگر لاہور سے ملتان تک وہ ہمیں فقط اتنا بتاتا ہے کہ وہ گندم، چاول، کپاس اور سبزیوں کی فصلوں کو دیکھتا ملتان کی جانب سفر کرتا رہا۔ اسے کہیں کہیں ویران گاؤں بھی نظر آئے۔ وہ یقیناً ایک اچھا لکھاری نہیں تھا کیونکہ 10 دنوں میں وہ گندم، دھان اور کپاس کی فصلیں ساتھ کیسے دیکھ سکتا ہے؟ دھان جولائی، اگست میں اور گندم جنوری، فروری میں لگتی ہے۔
البتہ اُس کی تحریر میں دی گئی یہ معلومات اہم ہے کہ جہاں دریا کے کنارے کشتیوں کے رکنے کے مقامات تھے وہاں لوگ اپنی مقامی چیزیں بیچنے کے لیے موجود رہتے تھے تو وہاں سے خوراک اور انڈے وغیرہ ان کو مناسب قیمت پر مل جاتے اور وہ ان کو خرید لیتے۔ اس سے ہم یہ اندازہ ضرور کرسکتے ہیں کہ اس دریائی راستے پر کشتیوں کی اچھی آوت جاوت تھی جس سے ندی کنارے بسنے والے لوگ اپنی بنائی اور پیدا کی ہوئی چیزوں کو بیچ کر معقول آمدنی حاصل کرلیتے تھے۔
دس دنوں کے بعد یعنی جب 31 اگست کو منریک ملتان پہنچا تو وہ اتنے بڑے شہر کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ ’ملتان ایک شان دار شہر ہے جہاں پیسے کی ریل پیل ہے اور بازار انسانی ضروریات کی چیزوں سے بھرے پڑے ہیں۔ چونکہ دوسرے دُور دراز شہروں اور ملکوں جیسے فارس اور خراسان سے قافلے یہاں آکر رُکتے ہیں اور پھر یہاں سے سندھ اور ہند جاتے ہیں اس لیے یہ ایک اہم شہر بن جاتا ہے‘۔
میں آپ سے ملتان پر محمد بن قاسم کے حملے سے پہلے سکندراعظم کے حملے کا مختصر سا ذکر کروں گا جو اس نے 326 ق م میں اندازاً جولائی کے مہینے میں کیا تھا۔ ملتان ’مَلی‘ قوم کا گڑھ تھا اور وہ اپنی فوج اور ایک مضبوط قلعے کے مالک تھے۔ جب سکندراعظم نے حملہ کیا تو مَلی قوم کی 50 ہزار فوج نے اُس کا سامنا کیا۔ یہی وہ شہر تھا جس کے مشرق میں لڑتے ہوئے سکندراعظم کو ایک جان لیوا تیر کا شکار ہونا پڑا تھا۔ سکندر اس تیر کی وجہ سے سخت زخمی ہوا بلکہ مرتے مرتے بچا تھا۔ سکندر کو تیر لگنے کی وجہ سے اس کی فوج کو سخت غصہ آیا اور شہریوں کا قتلِ عام شروع کردیا جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے اور ملتان یُونانی افواج نے فتح کرلیا۔ سکندر ملتان میں تب تک رہا جب تک اس کا
610ء سے 626ء تک ملتان پر ساسانیوں کا قبضہ رہا اور نوشیرواں کے پوتے خسرو پرویز نے ملتان میں سونے اور چاندی کے سکے ڈھالے۔ 668ء میں راجا چچ نے حملہ کیا اور یہاں کا حاکم بنا مگر راجا چچ کے حملے سے پہلے یہاں ایک چینی سیاح ’ہیون سانگ‘ آیا۔ اُس کا تحریر کیا ہوا سفرنامہ ہند، سندھ کی تاریخ کے لیے کسی خزانے سے کم نہیں ہے۔
ملتان اتنا قدیم اور اہم شہر رہا ہے کہ جس کے متعلق جاننے کی ہماری تشنگی، منریک یقیناً پوری نہیں کرسکتا۔ اس لیے ہم کو مسٹر ’ہیون سانگ‘ (جنم 600ء, وفات 664ء) سے بھی اس قدیم اور گھنی آبادی والے شہر سے متعلق مدد لینی پڑے گی جو 646ء میں، یعنی آج سے 1376 برس پہلے یہاں آیا تھا اور شہر کو خوب گھوم پھر کر دیکھا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’ملتان کا شہر 30 لی (5 میل) کی وسعت پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ گنجان آبادی والا شہر ہے۔ یہاں کی مٹی زرخیز، آب و ہوا سازگار، لوگ سادہ، ایمان دار اور علم سے محبت کرنے والے ہیں۔ زیادہ تر لوگ روحوں کو قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ بدھ دھرم پر چند ایک کا ہی ایمان ہے۔ یہاں آٹھ دیو مندر ہیں، جن میں مختلف طبقات کے لوگ رہتے ہیں۔ سورج سے منسوب ایک نہایت شاندار اور مزین مندر بنا ہے۔
سورج دیوتا (سوریہ دیو) کی مورتی پیلے سونے سے ڈھالی اور نادر جواہرات سے سجائی گئی ہے۔ عورتیں آلات موسیقی بجاتی، مشعلیں جلاتی، اس کے احترام میں پھول اور خوشبوئیں پیش کرتی ہیں۔ پانچوں دویپوں کے راجا اور اعلیٰ خاندان اس دیوتا کے حضور جواہرات اور قیمتی پتھر بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ کئی ملکوں کے لوگ یہاں پوجا کرنے آتے ہیں اور ہر وقت یہاں ہزاروں لوگ پوجا میں مشغول رہتے ہیں۔ مندر کی جانب خوبصورت پھولوں کے کُنجوں والے تالاب ہیں جہاں آپ آزادی سے گھوم پھر سکتے ہیں۔’
714ء میں محمد بن قاسم نے ملتان پر حملہ کیا۔ ’فتح نامہ سندھ‘ کے مطابق 2 ماہ کی جنگ کے بعد جب ملتان کا قلعہ فتح ہوا تو ایک مقامی برہمن نے بتایا کہ یہاں جو بت خانہ ہے جس میں سرخ سونے سے دیوتا کا بُت بنا ہوا ہے اور اس کے گرد پانی کے تالاب ہیں اور اُن تالابوں پر گھنے درخت ہیں۔ ان پانی کے حوضوں کے بیچ میں مَنروی دیوتا کا بُت ہے جس کے نیچے بہت بڑا خزانہ گڑا ہوا ہے۔
محمد بن قاسم برہمن کی یہ بات سن کر اپنے خاص آدمیوں کے ساتھ اس مندر میں آیا اور سونے کا بُت دیکھا جس کی آنکھیں یاقوت سے بنائی گئی تھیں۔ محمد بن قاسم نے بُت کو ہٹوایا اور سونے کے بُت کے نیچے گڑے دفینے کو کھود کر نکالا جس میں سے 230 من سونا اور 40 سونے کے پاؤڈر کے مٹکے ملے اور ملتان کے شہریوں سے لوٹے ہوا سونا اور ہیرے جواہر کشتیوں کے راستے دیبل کی بندرگاہ بھیجے جہاں سے یہ سارا خزانہ جہازوں میں دارالخلافہ بھیجنے کا حکم دیا۔
میرے سامنے ولیم فوسٹر کی تحریر کی ہوئی 1636ء کی سورت فیکٹری کی رپورٹ ہے جس میں فوسٹر لکھتے ہیں کہ ’آگرے سے لیا ہوا مال سندھ تک پہنچانے کے لیے سندھی مرچنٹ اس طرح کام کرتے ہیں کہ گاڑیوں کے ذریعے یہ مال پہلے لاہور یا ملتان پہنچایا جاتا ہے جس کے بعد دریائے سندھ کے راستے نیچے یعنی بکھر اور ٹھٹہ تک اُن کی رسد ہوتی ہے۔ ملتان میں سفید لٹھے کا کپڑا، چینی اور چینی سے بنی دوسری اشیا بڑی زبردست بنتی ہیں جن کی ننگر ٹھٹہ میں بڑی مارکیٹ ہے۔‘
کچھ بستیوں میں سہنے کی بڑی طاقت ہوتی ہے، وہ وقت کے آگے کبھی گھٹنے نہیں ٹیکتیں۔ ایسی بستیاں ان تخموں کی طرح ہوتی ہیں جو تاحیات اپنے وجود میں جنم دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ رنجیت سنگھ کی یہ تمنا تھی کہ وہ ملتان کو فتح کرے اور اس کی خواہش پوری بھی ہوئی۔ پھر برٹش راج آیا۔
چونکہ ملتان ایک بہت بڑا موضوع ہے جس پر کتابیں تحریر کی جاسکتی ہیں اس لیے کبھی نصیب نے ساتھ دیا اور کچھ دن میں ملتان کی رفاقت میں گزار سکا تو ضرور اس پر تفصیل میں باتیں کریں گے۔ مگر فی الحال ہم منریک کی طرف چلتے ہیں جو ملتان کے اس وقت کے صوبہ دار نجابت خان سے مل رہا ہے۔
نجابت خان، یوسف خان ملک کے انتقال کے بعد اگست 1639ء میں ملتان کا صوبے دار بنا تھا (منریک کے جانے کے فوراً بعد نجابت خان کی جگہ قلیچ خان کو ملتان کا صوبے دار مقرر کیا گیا)۔ اس نے جب آصف خان کے اجازت نامے اور سفارشی خط دیے تو نجابت خان نے انہیں چوما اور 3 بار سر پر رکھا۔ اس عمل کا مطلب یہ تھا کہ آصف خان شاہجہاں کے بعد مغل سلطنت کا سب سے زیادہ طاقتور انسان تھا، اور یہاں تک بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر آصف خان نہ ہوتا اور لاہور میں قائم مشنری کے فادر جوزف (Father Joseph de Crasto) کے اُس سے اچھے تعلقات نہ ہوتے تو منریک کا یہ سفر کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ کیونکہ شاہجہاں کے پرتگیزوں کے متعلق کوئی اچھے خیالات نہیں تھے۔
سید محمد لطیف لکھتے ہیں کہ ’اکبر نے 1595ء میں پرتگیز مشنری کو لاہور میں بُلایا تھا اور مقامی لوگوں کے لیے یہ بڑے تماشے کا سبب بنے تھے کہ لوگوں نے ان کے لباس جیسا اور کوئی نہیں دیکھا تھا تو یہ جہاں جہاں جاتے تھے لوگوں کے جتھے ان کے پیچھے ہوتے تھے جیسے یہ کسی اور دنیا سے آئے ہیں۔ جہانگیر نے پادریوں سے زیادہ تر اچھا سلوک کیا اُنہیں نہ صرف لاہور میں ایک معبد یعنی گرجا گھر بنانے کی اجازت دی بلکہ اُس کے لیے معقول وظائف بھی مقرر کیے۔ شاہجہاں جیسے ہی تخت پر بیٹھا اس نے جتنے بھی گرجا گھر تھے ان سب کو مسمار کرنے کا حکم دیا۔ لاہور والے معبد کو بھی مسمار کردیا اور پادریوں کے وظیفے بند کردیے۔
1665ء میں فرانسیسی سیاح تھیوناٹ جب گھومتا گھامتا لاہور پہنچا تب اس نے مسمار کیے گئے گرجا گھر کے آثاروں کو دیکھا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ اس نے قلعہ لاہور کی دیواروں پر صلیب اور حضرت مریمؑ کی شکل دیکھی۔ اس بات کی تصدیق اس طرح سے ہوسکتی ہے کہ قلعے کی شمالی دیوار پر پریوں کی تصاویر ہیں جن کو اڑتا دکھانے کے لیے بازو بھی لگے ہوئے ہیں۔ مسٹر تھارنٹن کے خیال میں ’ان ہی تصویروں سے فرانسیسی سیاح نے یہ سمجھ لیا کہ یہ حضرت مریمؑ کی تصاویر بنی ہوئی ہیں۔‘
تھیوناٹ جب آیا تھا تب اس تصویروں والی دیوار کو مکمل ہوئے کوئی تیس بتیس برس ہی گزرے ہوں گے اور اس دیوار پر پریوں اور فرشتوں کی تصاویر کے سوا جنگی مناظر، پرندوں، درختوں، ہاتھیوں، گھوڑوں کے سوا اور بھی تصویریں بنی ہوئی ہیں اور یہ مغل دور کی نقش نگاری کا انتہائی شاندار نمونہ ہے جو اتنی صدیوں کے گزرنے کے بعد بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے
منریک نے اپنے آنے والے سفر کے لیے نجابت خان سے بات چیت کی۔ نجابت خان نے ایک سندھی بیوپاری جس کا نام تو منریک نے نہیں لکھا مگر اسے ’کھتری‘ کے نام سے پکارتا ہے، کو اس حوالے سے بلایا تو اس نے کہا کہ اس کی کشتی کے چلنے میں ابھی 15 دن ہیں۔ منریک شروع میں ملتان کی ایک کارواں سرائے میں رہائش پذیر تھا۔ مگر جب کھتری نے اسے اپنے کسی دوست کی رہائش گاہ پر ٹھہرایا اور تو تقریباً روز ہی وہ منریک سے ملنے آتا تھا۔ منریک اس سے بہت متاثر ہوا اور کھتری کو تحفہ دینے کے لیے اس نے ملتان کے بازار سے ایک مہنگا اور شاندار کمربند خریدا جس کی بناوٹ اور رنگوں کے میلان کی وہ بڑی تعریفیں کرتا ہے۔ اس کمربند کے ساتھ اس نے وہ شال بھی کھتری کو تحفے میں دی جو اس کو آصف خان نے تحفے میں دی تھی۔ جب کھتری کو یہ تحائف ملے تو اس نے 3 بار انہیں سر پر رکھا اور پھر چوما۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ بہت پیارا، شاندار اور یادگار تحفہ ہے۔
ایک دن جب اسے ملتان کے صوبے دار نے دعوت دی تو اس نے روزے میں ہونے کا بہانا کیا اور دعوت کو بڑے مزے سے ٹھکرادیا۔ ایچ ٹی سورلی لکھتے ہیں کہ ’منریک رومن کیتھولک چرچ مشنری کا انتہا پسند پادری تھا، اس کا اسلام کے لیے رویہ غیر ہمدردانہ تھا۔ ہندوؤں کی دھرمی عملوں کو بھی وہ اچھی نظر سے نہیں دیکھتا تھا۔ وہ ایک تیز اور ہوشیار مبصر ضرور تھا مگر تحریر میں اس کا الگ کوئی اپنا طریقہ کار نہیں ہے اور وہ حوالے دیے بغیر ہی دوسروں کا مواد اپنی تحریر میں شامل کر دیتا ہے۔‘
منریک کو جب بتایا گیا کہ آنے والے سفر میں دریائی لُٹیروں کے حملوں کا خطرہ ہے تو وہ تحریر کرتا ہے کہ ’یہاں سے جو مجھے معلومات ملی کہ جو دریائی لٹیرے جہازوں پر حملہ کرتے ہیں ان کے پاس تیر کمان اور نیزے ہوتے ہیں اور ان کو استعمال کرنے میں انہیں بڑی مہارت حاصل ہوتی ہے۔ مگر میرے پاس ایک پستول اور بارود کے کچھ بم بھی ہیں جو اکثر پُرتگالی جہازی حملوں میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ جب میں نے اُن 9 مقامی سپاہیوں کو دکھائے جو ملتان کے صوبے دار نے ٹھٹہ تک میری حفاظت کے لیے مقرر کیے تھے تو یہ دیکھ کر وہ سب حیران ہوگئے۔ اُن کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ایسا بھی کچھ ہوسکتا ہے۔ بارودی بموں اور پستول دیکھنے کے بعد کشتی کے لوگوں کا ڈر ختم ہوگیا۔‘
اس کے بعد منریک پرتگیزوں کی تعریف میں کئی جملے تحریر کرتا ہے اور ایشیا پر ان کے قبضے اور طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ اُس کا یہ خیال تھا کہ اس دنیا میں فقط پرتگالی ہی ذہین ہیں باقی تمام لوگ بیوقوف ہیں۔
14 ستمبر 1641ء کو آگے سفر کے لیے منریک ملتان شہر سے بندرگاہ کے لیے نکلا جو شہر سے 6 میل دور تھی۔ بندرگاہ کے کسٹم ہاؤس میں کاغذات کی جانچ پڑتال ہوئی اور منریک کو آگاہ کردیا گیا کہ اس کا سارا سامان اور ضرورت کی اشیا کشتی پر پہنچادی گئی ہیں۔ کھتری خود کشتی کے ساتھ نہیں جارہا تھا اس لیے اس نے اپنے عملے کو سخت تاکید کی کہ منریک کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اور منریک جو بھی کہے اس پر عمل کیا جائے۔ کھتری نے منریک کو الوداع کہا اور ملتان شہر کی جانب روانہ ہوا اور کشتی کا سفر بکھر کی طرف شروع ہوا۔ ہوا کم تھی اور پانی کا بہاؤ تیز تھا اس لیے ان کا سفر شاندار اور پُرسکون رہا۔
ملتان سے بکھر تک کا سفر تقریباً آٹھ دنوں کا تھا۔ ان آٹھ دنوں میں منریک ہمیں فقط اتنا بتاتا ہے کہ دریا کے کنارے پر اس نے فصلوں کی ہریالی دیکھی اور اس نے رہٹ بھی دیکھے جن سے دریا سے اونچی زمین پر پانی پہنچا کر فصلیں اُگائی جاتی تھیں۔ وہ کشتی چلانے والوں کے پاس اُن اوزاروں Instruments of Navigation کا بھی ذکر کرتا ہے جو کشتی رانی میں تکنیکی مدد کرتے ہیں۔ اور ساتھ میں دریائی سفر کے راستے میں کسٹم کی چیک پوسٹوں کا بھی ذکر کرتا ہے۔ ہر چیک پوسٹ پر آصف خان کا خصوصی اجازت نامہ دیکھ کر، کشتیوں کی لگی لائن میں سے ان کو پہلے چیک کرکے جانے کی اجازت دینے پر وہ خوشی کا اظہار بھی کرتا ہے۔
وہ ان سات آٹھ دنوں میں جہاں جہاں لنگر انداز ہوا، وہاں اُس کو مقامی لوگوں سے خریدنے کے لیے سستی چیزیں مل جاتی تھیں۔ وہ ان چیزوں کا ذکر تو نہیں کرتا مگر اُن میں مرغیاں، انڈے، دودھ، مکھن یا گھی اور چاول وغیرہ ہوسکتے ہیں۔ ساتھ میں وہ دریا میں مٹی کے مٹکے، لمبی چھڑی اور چھڑی کی آخر میں لگے ہوئے جال سے مچھلی کے شکار کا بھی ذکر مزے سے کرتا ہے کہ ایک بڑے اور تیز بہاؤ والے دریا میں یہ سب دیکھنا اچھا لگتا ہے۔ منریک جو دوسری بات خوش ہوکر لکھتا ہے وہ دریا کے کناروں پر بنی ان جھونپڑیوں کی تھی جہاں ماہی گیر انتہائی سستی مچھلیاں بیچ رہے تھے۔ اُسے تازہ اور سستی مچھلی ملنے پر حیرانی کے ساتھ خوشی بھی محسوس ہورہی تھی۔
منریک کا ملتان سے بکھر تک کا یہ سفر کسی بھی حوالے سے پریشان کُن ثابت نہیں ہوا اور وہ مزے سے 21 ستمبر تک بکھر پہنچا۔ وہ لکھتا ہے کہ ’یہ ملتان جتنا بڑا شہر تو نہیں ہے۔ مگر چونکہ یہ ملتان جیسا ہی مرکزی شہر ہے اس لیے یہاں بھی اور شہروں اور ملکوں کے قافلوں کی آوت جاوت اور مصروفیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ بکھر کی سب سے مزیدار اور آنکھوں کو اچھی لگنے والی بات یہ ہے کہ یہاں ہریالی اور درختوں کے جھنڈ بہت ہیں جن میں میوے بھی اگتے ہیں اور یہاں باغات کی بہتات ہے اور پیداواری صلاحیتوں کی وجہ سے شہر کے بازار ہر قسم کے سامان سے بھرے ہوئے ہیں۔
منریک کی تحریر سے لگتا ہے کہ بکھر کی بندرگاہ پر اس سے کوئی رعایت نہیں برتی گئی جس کی وجہ سے وہ دو دن تک کسٹم میں پھنسا رہا۔ ’لُب تاریخ سندھ‘ کے مطابق ان دنوں میں بکھر کا نواب مرزا التقاب بیگ تھا، منریک کو بکھر کے کسٹم سے کچھ رعایتیں تو ضرور ملیں مگر بکھر کے نواب یا صوبے دار نے خاص پروٹوکول نہیں دیا۔ بہرحال دو تین دن کے بعد وہ بکھر سے نکلا اور اپنا سفر شروع کیا۔ جتنا پُرسکون سفر ملتان سے بکھر تک گزرا تھا وہ گزر چکا مگر آنے والا سفر اس کے بالکل برعکس گزرنے والا ہے۔ آنے والے اس مشکل سفر کے ساتھ ہم جلد ہی ملتے ہیں۔
حوالہ جات:
’شاہ جہاں نامہ‘ (عمل صالح) ۔ ملا محمد صالح کمبوہ۔ 2013ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
’سندھ ہند کی قدیم جاگرافی‘۔الیگزینڈر کننگھام۔ 2007ء۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد۔
’فتح نامہ سندھ‘ ۔ ترجمہ: مخدوم امیر احمد۔2017ء۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد۔
’سفرنامہ ہند‘۔ ہیون سانگ۔ 2006ء۔ تخلیقات پبلیکیشنز، لاہور۔
’تاریخ پنجاب‘ ۔ سید محمد لطیف۔ 2000ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
Travels of Fray Sebastien Manrique. Vol:ii. The Hakluyt Society. Oxford. 1927.
The English Factories in India (1634-1636). William Foster. Oxford, London, 1911.
بشکریہ: ڈان نیوز و مصنف