وقاص گورایہ: ’کرائے کا قاتل‘ برطانوی شخص پاکستانی بلاگر وقاص گورایہ کے قتل کی سازش کا مجرم قرار

ویب ڈیسک

لندن – خودساختہ جلاوطنی گزارنے والے پاکستانی احمد وقاص گورایا کے قتل کی سازش پر تحقیقات مکمل ہو گئی

برطانیہ کی ایک عدالت نے ’کرائے کے قاتل‘ ایک برطانوی شخص کو پاکستانی بلاگر وقاص گورایہ کو نیدرلینڈز میں قتل کرنے کی سازش کا مجرم قرار دیا ہے

دوران سماعت لندن کی ایک عدالت کو بتایا گیا کہ برطانوی شہری محمد گوہر خان کو گزشتہ سال ایک لاکھ پاؤنڈ (تقریباً 134,000 ڈالر) معاوضے کی پیشکش کی گئی تھی تاکہ وہ روٹرڈیم جا کر وقاص گورایہ کو قتل کرے

تاہم وہ اپنے ہدف کو نشانہ بنانے میں ناکام رہا اور نیدرلینڈ سے واپسی پر گوہر خان کو گرفتار کر لیا گیا تھا

گوہر کو بظاہر پاکستان میں مقیم مڈل مینوں نے اس کام کے لیے بھرتی کیا۔ جج نے انھیں سزا دینے کے لیے سماعت 11 مارچ تک ملتوی کر دی، جس میں اسے سزا سنائی جائے گی

پراسیکیوٹر ایلسن مورگن نے بتایا کہ نیدرلینڈز میں اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ مقیم گورایہ کو بظاہر تنقیدی سوشل میڈیا پوسٹس کی وجہ سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی

مورگن نے جیوری کو بتایا کہ محمد گوہر خان کی خدمات ’کچھ ایسے لوگوں نے حاصل کیں جو بظاہر پاکستان میں مقیم تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’2018 میں گورایہ کو ایف بی آئی کی جانب سے اطلاع ملی تھی کہ وہ قتل کی فہرست میں شامل ہے

ایک دہائی سے زائد عرصے سے پاکستان سے باہر رہنے والے گورایہ عدالت کی سماعتوں میں شریک نہیں ہوئے

اس سازش کے مطلوبہ ہدف وقاص گورایہ نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ انہیں یقین ہے کہ اس منصوبے کے پیچھے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے اور یہ پاکستان اور پاکستان سے باہر اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کیے جانے والے اقدامات کا حصہ ہے

پاکستانی حکام نے اس کیس سے متعلق کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے

برطانیہ میں پیدا ہونے اور زندگی کے ابتدائی ایام برطانیہ میں گزارنے والے گوہر 13 سالہ کی عمر میں اسکول میں داخلے کے لیے لاہور منتقل ہوئے اور شریف ایجوکیشنل کمپلیکس میں بورڈنگ طالب علم کی حیثیت لاہور میں رہے۔

گوہر خان 2007 میں فائنل امتحان دیے بغیر واپس لندن آگئے کیونکہ انہیں اردو پڑھنے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

پاکستانی نژاد برطانوی شہری اپنے 6 بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر ہیں اور ان کے والدین 1970 کی دہائی میں پاکستان سے برطانیہ منتقل ہوگئے تھے اور گوہر خان لندن میں پیدا ہوئے اور وہی جوان ہوئے اور تمام عمر فوریسٹ گیٹ کے علاقے میں رہے اور شادہ شدہ ہیں، ان کے 3 سال سے 11 سال کی عمر کے 6 بچے ہیں

مشرقی لندن سے تعلق رکھنے والے گوہر خان کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ ایک کارگو کمپنی چلاتے تھے اور اس میں نقصان کے باعث دو لاکھ پاؤنڈ کے مقروض ہوگئے تھے۔ وہ اس وقت ایک سپر مارکیٹ میں بطور ڈیلیوری ڈرائیور نوکری کر رہے تھے، لیکن جب پاکستان سے ایک شخص نے یورپ میں اس ’کام‘ کے لیے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے گرم جوشی سے اس پر ردعمل ظاہر کیا

گوہر خان نے عدالت میں یہ دعویٰ کیا کہ ابتدا میں انہیں کام کی نوعیت کا اندازہ نہیں تھا، لیکن انہوں نے اس کام کے لیے مزمل نامی ایک مڈل مین کے ساتھ واٹس ایپ پر ہونے والی گفتگو میں مچھلی کے شکار سے متعلق اصطلاحات استعمال کیں۔ مزمل نے اس کام کی اجرت میں سے 20 فیصد حصہ لینا تھا

گوہر خان نے ان پیغامات میں کوڈ ورڈ استعمال کرتے ہوئے پوچھا ’کیا یہ گہرے سمندر کی مچھلی ہے یا عام ٹونا مچھلی؟‘

اس کے جواب میں مزمل نے جنھیں کارٹون کردار ’پاپا سمرف‘ سے مشابہت رکھنے کی بنا پر ’پاپا‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، کہا کہ ’ٹونا مچھلی، لیکن برطانوی ٹونا مچھلی نہیں، یورپی ٹونا مچھلی۔‘

ان کا خطرناک ارادہ اس وقت واضح ہو گیا جب گوہر خان نے کام کے لیے ’آلے‘ یا بندوق کی ضرورت پر بات کی جبکہ ایک دوسرے موقعے پر مزمل نے ہدف کے بارے میں لکھا کہ ’یہ شارک نہیں۔۔۔ ایک چھوٹی مچھلی ہے۔ ایک تار کے ساتھ چھوٹا چاقو، کانٹا یا کیڑا کافی ہوگا۔‘

جس شخص کو یہ قتل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے وہ نیدرلینڈز کے شہر روٹرڈیم میں رہنے والے وقاص گورایہ تھے، جو پاکستان کے سوشل میڈیا کارکن اور پاکستانی فوج کے نقاد ہیں

وقاص گورایہ کا کہنا ہے کہ ’یہ لوگوں کی باتوں سے خوفزدہ ہیں۔ ان لوگوں سے جو غیر مسلح ہیں اور ان کے پاس قلم یا کی بورڈ کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ بندوقوں والوں کے مقابلے میں ایسے افراد سے زیادہ خوفزدہ ہیں۔‘

دوسری جانب پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں اظہار رائے کی آزادی پر کوئی قدغن نہیں اور فوج ملکی سیاست میں کردار ادا کرنے کی تردید کرتی ہے، لیکن انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہوں نے متعدد بار پاکستان میں ان صحافیوں اور کارکنوں پر پرتشدد حملوں کے خلاف خدشات کا اظہار کیا ہے جو ملک کے انتخابات میں فوج کے عمل دخل کے الزامات عائد کرتے ہیں

عائشہ صدیقہ ایک مصنفہ ہیں جو پاکستانی فوج کے بارے میں لکھتی رہی ہیں۔ جنوری 2019 میں برطانیہ میں پولیس نے ان کے گھر جا کر انھیں ایک خط دیا، جس میں ایسی ’مصدقہ معلومات‘ کے بارے میں متنبہ کیا گیا تھا کہ اگر وہ پاکستان واپس جاتی ہیں تو ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے وہ خط شیئر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی اپنی معلومات سے انہیں یہ پتا چلا کہ چند افغان جنگجوؤں کو میرے سر کی قیمت دی گئی ہے کہ میرے پاکستان پہنچنے پر مجھے ختم کر دیا جائے. اگر پارہ بڑھتا ہے تو مجھے برطانیہ میں بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے

برطانیہ میں مقیم تین دیگر پاکستانیوں نے بھی بی بی سی کو اس بات کی تصدیق کی کہ پولیس نے ان سے رابطہ کر کے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ان کو برطانیہ میں نشانہ بنایا جا سکتا ہے

ان میں سے ایک وکیل فضل خان ہیں جن کا 14 سالہ بیٹا عمر خان سنہ 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کے متاثرین میں شامل تھا

اس کے بعد سے فضل خان نے پاکستان کی مختلف عدالتوں میں پاکستان فوج سے متعلق متعدد درخواستیں دائر کر رکھی ہیں، جن میں سے سب سے حالیہ درخواست میں فوج کی جانب سے ایک سابق شدت پسند رہنما کے ساتھ دوران نظربندی نرمی سے پیش آنے پر تنقید کی گئی ہے۔ اس شدت پسند رہنما کو فوج نے ’گھر پر نظر بند‘ رکھا تھا لیکن بعد ازاں وہ پراسرار طور پر وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا

اپنے ان اقدامات کی وجہ سے فضل خان کو شدت پسندوں کی جانب سے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے مطابق سکیورٹی سروسز کی طرف سے بھی۔ جولائی 2020 میں وہ ایک قاتلانہ حملے میں بچ نکلے تھے اور بعدازاں وہ برطانیہ آ گئے

گذشتہ برس اپریل میں برطانوی پولیس نے انہیں متنبہ کیا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، اس لیے انہیں اپنی نقل و حرکت محدود کرنے اور عوامی مقامات پر جانے سے منع کیا تھا

فضل خان نے بتایا کہ ’سادہ کپڑوں میں ملبوس دو پولیس افسران نے انہیں ’پولیس کا ایمرجنسی نمبر‘ دیا اور کہا کہ ’تم ہمارے سسٹم پر ہو، اگر تمہیں کچھ خلاف معمول محسوس ہو تو ہمیں اطلاع کر دینا اور ایک مسلح گاڑی تمھیں ریسکیو کرنے پہنچ جائے گی۔‘

ان افسران نے خطرے کی اصل نوعیت کے متعلق نہیں بتایا تھا لیکن فضل خان کا خیال ہے کہ اس کا تعلق یقیناً پاکستانی سکیورٹی سروسز سے ہوگا

انہوں نے کہا کہ وہ خوف میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں

یورپ کے دیگر ممالک میں رہنے والے بعض افراد کو بھی مغربی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے ایسے خطرات کے بارے میں خبردار کیا ہے، جن میں ایک صحافی طحہٰ صدیقی بھی شامل ہیں جو اسلام آباد میں اغوا کی کوشش سے بچ نکلے تھے اور اب فرانس میں مقیم ہیں

کنگسٹن کراؤن کورٹ میں جیوری کو بتایا گیا کہ مڈل مین مزمل نے گوہر خان کو یہ لالچ دیا تھا کہ اگر اس نے نیدرلینڈز میں بلاگر وقاص گورایہ کو قتل کر دیا تو اسے یورپ میں مزید ایسے ’کام‘ دیے جا سکتے ہیں

وقاص گورایہ کو سنہ 2018 میں بھی امریکی ایجنسی ایف بی آئی کی جانب سے ان کی جان کو لاحق خطرات کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا

گزشتہ سال فروری میں گوہر خان کے نیدرلینڈز پہنچنے سے پہلے، گورایہ کو ڈچ انٹیلیجنس ایجنٹوں نے روٹرڈیم میں واقع ان کے گھر سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچا دیا تھا

کئی مواقع پر ان کو ہدف بنانے کی منصوبہ بندی بظاہر ناقص لگتی ہے اور گوہر خان تاخیر پر ’خراب‘ منصوبہ بندی کی شکایت کرتا نظر آتا ہے۔ دریں اثنا گوہر خان نے جعلی میڈیکل رسیدیں تیار کیں اور اپنے خیالی ’ساتھی‘ تخلیق کیے تاکہ اس کام کے لیے مزید رقم حاصل کرنے کی کوشش کی جا سکے

عدالت میں گواہی دیتے ہوئے گوہر خان، جو کئی مواقع پر آبدیدہ بھی ہوئے، ایک موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ کس طرح انہوں نے روٹرڈیم میں ایک کار کرائے پر لی جسے چند منٹ کے اندر اندر ہی حادثہ پیش آگیا کیونکہ وہ سڑک کی دائیں جانب گاڑی چلانے کے عادی نہیں تھے

جون 2021 میں نیدرلینڈز کا سفر کرنے کے لیے کووڈ کی وجہ سے عائد سفری پابندیوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہوئے گوہر خان نے وہاں رہنے والے ایک شخص سے کہا کہ وہ ان کا بھائی ہونے کا ڈرامہ کرے

تاہم نیدر لینڈز پہنچنے پر جب ایک اہلکار نے گوہر خان سے پوچھ گچھ کی اور ان کی شناخت کی تصدیق کے لیے فون پر ان کے ’بھائی‘ سے پوچھا کہ ان دونوں کی عمروں میں کتنا فرق ہے تو وہ جواب نہیں دے سکا اور فون بند کر دیا، جس کے بعد گوہر خان کو ملک میں داخلے سے روک دیا گیا

کچھ دن بعد گوہر خان نے دوسری بار نیدرلینڈز کا سفر کیا اور آخر کار روٹرڈیم پہنچنے میں کامیاب ہو گیا

گوہر خان نے 19 انچ کی ایک چھری خریدی اور اس گھر پر نظر رکھنا شروع کر دی جو مجرم کے خیال میں وقاص گورایہ کا تھا۔ تاہم خان کو جلد ہی احساس ہوگیا کہ جو پتہ اسے فراہم کیا گیا تھا وہ غلط ہے

مزمل نے گوہر خان کو یقین دلایا کہ اس کے ’باس‘ کو تقریباً چھ ماہ قبل اسی ایڈریس سے وقاص گورایہ کی ایک وڈیو موصول ہوئی تھی لیکن انھیں ڈھونڈنے میں ناکامی پر گوہر خان واپس لندن چلا گیا۔ روٹرڈیم سے نکلتے وقت ڈچ بارڈر فورس کے ایک افسر نے خان کے اس دورے کے بارے میں سوال کیا

گوہر خان نے جواب دیا کہ وہ ’سیاحت‘ کے لیے آیا تھا، جس کے بعد اس افسر نے خان کے بارے میں برطانوی پولیس کو آگاہ کر دیا۔ برطانوی پولیس نے گوہر خان کو گرفتار کر لیا اور اس طرح اس کے مزمل کے ساتھ ہونے والے پیغامات پولیس کے ہاتھ لگ گئے

گوہر خان نے عدالت میں اصرار کیا کہ وہ کبھی بھی قتل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اور صرف مزمل سے رقم نکلوانا چاہتا تھا۔ گوہر خان نے پولیس کو یہ بھی بتایا کہ اس نے روٹرڈیم میں صرف ڈبل روٹی اور پھل کاٹنے کے لیے چھری خریدی تھی

استغاثہ نے دلیل دی کہ وہ قتل کرنے کا پورا ارادہ رکھتا تھا اور جیوری نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے خان کو قتل کی سازش کا مجرم قرار دیا ہے

پاکستان میں مقیم ’کلائنٹ‘ جس نے اس قتل کا حکم دیا تھا، عدالت میں اس کا نام کبھی نہیں لیا گیا حالانکہ مزمل نے ایک ’بگ باس‘ کا حوالہ دیا تھا جس نے اس آپریشن کا حکم دیا تھا اور جس کے لیے وہ تقریباً بیس برس سے کام کر رہا تھا

دوسری جانب مزمل کی مکمل شناخت بھی ظاہر نہیں کی گئی، تاہم بظاہر وہ پاکستان میں مقیم ایک برطانوی شہری ہے۔ پولیس حکام نے صرف اتنا کہا ہے کہ اس کیس میں ’تفتیش جاری‘ ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close