ریشمی جُرابوں کا ایک جوڑا

کیٹ شوپن (مترجم: رومانیہ نور)

ننھی مسز سمرس کو ایک روز غیر متوقع طور پر پندرہ ڈالر کے مالکانہ حقوق حاصل ہو گئے۔ اس کے نزدیک یہ بہت بڑی رقم تھی۔ اس کا پھٹا پرانا بٹوہ جس طرح ان پیسوں سے ٹھنسا ہوا تھا، اس نے مسز سمرس کو عجیب سی تسکین دی۔ ایسا لطف، جس سے وہ سالہا سال سے محروم تھی

’یہ رقم کیسے خرچ کی جائے؟‘ اس سوال نے اس کے دماغ کو بری طرح گھیر لیا۔ ایک دو دن تو وہ بظاہر خوابناک سی حالت میں حرکات و سکنات کرتی پھرتی رہی لیکن دراصل وہ حساب کتاب اور سوچ بچار میں مشغول ہوتی تھی۔ وہ جلد بازی میں کچھ بھی ایسا نہیں کرنا چاہتی تھی، جس پر بعد میں اسے پچھتاوا ہو۔ اس کا ذہن رات کے خاموش لمحات میں پیسوں کے مناسب اور منصفانہ مصرف کے منصوبوں کا تانا بانا بُنتا رہتا

ایک یا دو ڈالر تو جینی کے جوتوں کی ادائیگی والی رقم میں شامل کرنے چاہئیں، جو اپنی دیرپا پائیداری کے لئے قابلِ تعریف تھے۔ وہ جینی، میگ اور لڑکوں کے کمر بند کے لئے کئی گز کپڑا خریدے گی۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ قمیضیں وہ پرانی ہی بہت مہارت سے رفو کر لے گی۔ میگ کو ایک نئے گاؤن کی اشد ضرورت تھی۔ اس نے ایک دکان پر کئی خوبصورت نمونے دیکھے بھی تھے۔ ان سب کے بعد دو جوڑی جرابوں کے لئے یقیناً کچھ نہ کچھ پس انداز ہو سکتا تھا۔ رفو گری سے جتنی بچت کی جا سکتی ہے، کی جائے۔ لڑکوں کے لئے ٹوپیاں اور لڑکیوں کے لئے سیلر ہیٹ بھی تو لینے تھے۔

اس کے ننھے سے چہرے پر تازگی کا عنصر نمایاں تھا۔ یہ جوش اس کی زندگی میں یکسر نیا تھا، جس نے قبل از وقت ہی اسے بے تاب کر دیا تھا۔ محلے دار اکثر مسز سمرس کے ان اچھے دنوں کا تذکرہ کرتے تھے، جب اس نے کبھی مسز سمرس بننے کا سوچا تک نہ تھا۔ مسز سمرس ماضی کو دہرا کر افسردہ نہیں ہونا چاہتی تھی۔ اس کے پاس بالکل وقت نہیں تھا۔۔۔خود کو یادِ ماضی کے حوالے کرنے کے لئے ایک لمحہ بھی نہیں۔ زمانۂ حال کی ضروریات اس کی ساری فرصت کو چاٹ گئی تھیں۔ البتہ کبھی کبھی مستقبل کا دھندلا سا تصور کسی مریل آسیب کی طرح اس پر حاوی ہو جاتا، مگر خوش قسمتی یہ رہی کہ ’کل کبھی نہیں آتا۔‘
اس روز وہ بہت تھکی ہوئی تھی۔ اس نے ہلکا پھلکا سا ناشتہ بھی نہیں کیا تھا۔ بچوں کو کھلاتے ہوئے، چیزیں درست کرتے ہوئے، اور خریداری کے متعلق سوچتے ہوئے اس کو ناشتے کا دھیان ہی نہ رہا۔

مسز سمرس ان لوگوں میں سے تھی، جو سستے داموں خرید کی قدر و اہمیت جانتے تھے۔ جو اپنی مطلوبہ چیز کو لاگت سے بھی کم قیمت خرید پر لینے کے لئے گھنٹوں کھڑے رہ کر قدم بہ قدم آگے بڑھ سکتے تھے۔ بوقت ضرورت وہ اپنا راستہ بنانے کے لئے بزور طاقت کہنیوں سے دھکے بھی دے لیتی تھی۔ اس نے یہی سیکھا تھا کہ چیز پر قبضہ جما لو اور پرعزم ہو کر استقامت سے انتظار کرو کہ آپ کی باری آ جائے اور دکاندار آپ کی طرف متوجہ ہو۔۔ اور اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ باری کب آئے گی۔

منقش کپڑوں اور پھولدار لان کا اسٹال جو شوقین لوگوں کی بھیڑ سے گھرا ہوا تھا، وہ اس میں سے تیزی سے نکلنے کا حوصلہ اور ہمت مجتمع کر کے نسبتاً ایک الگ تھلگ کاؤنٹر کے سامنے ایک گھومنے والے اسٹول پر جا بیٹھی۔ اس پر مُردنی کی سی کیفیت چھائی ہوئی تھی۔ اس نے بے مقصد طور پر ہاتھوں کو کاؤنٹر پر دھر دیا۔ ایک غیر مختتم نرم احساس نے اس کے ہاتھوں کو چھوا۔ اس نے دستانے نہیں پہنے ہوئے تھے۔ وہ اس بات سے اچھی طرح با خبر تھی کہ اس کے ہاتھ کسی بہت ہی ہموار اور خوشگوار احساس کو چھو رہے ہیں۔ اس نے نظریں نیچی کر کے دیکھا کہ اس کے ہاتھ سلک کی جرابوں کے ایک ڈھیر کو مس کر رہے تھے۔ قریب ہی میں ایک اعلان ہوا کہ جرابوں کی قیمتیں ڈھائی ڈالر سے کم کر کے ایک ڈالر اور اٹھانوے سینٹ کر دی گئی ہیں۔ ایک لڑکی جو کاؤنٹر کے پیچھے کھڑی تھی اس نے پوچھا آیا وہ ان کی مزید ہوزری مصنوعات دیکھنا پسند کرے گی؟ مسز سومرس یوں مسکرائی گویا اس سے دریافت کیا گیا ہو کہ وہ ہیروں جڑے تاج پر خریداری کے نقطۂ نظر سے نگاہ ڈالنا پسند کرے گی۔ وہ اب دونوں ہاتھوں سے نرم، چمکیلی، پر آسائش چیزوں کو محسوس کر رہی تھی۔ اب وہ انھیں ہاتھوں میں پکڑ کر ان کی جھلملاہٹ دیکھ رہی تھی۔ خوشی کو کسی سانپ کی طرح اپنی انگلیوں میں سرکتے ہوئے محسوس کر رہی تھی۔

اس کا زرد چہرہ یکدم گلنار ہو گیا۔ اس نے اوپر لڑکی کی جانب نگاہ کی۔ ”کیا ان میں ساڑھے آٹھ نمبر ہوگا؟“

‘”یہ سائز تو دیگر نمبروں سے کہیں زیادہ موجود ہے۔ یہ رہا نیلے رنگ کا جوڑا۔۔ اور وہ ادھر کاسنی رنگ کا۔۔ کچھ بالکل سیاہ میں ہیں اور یہ گرے کے شیڈز ہیں“

مسز سمرس نے ایک کالا جوڑا منتخب کیا اور قریب سے انھیں دیر تک دیکھتی رہی۔ وہ یہ تاثر دے رہی تھی کہ ان کی بُنت کو غور سے دیکھ رہی ہے۔ جس کے متعلق ملازم نے یقین دہانی کروائی کہ وہ بہترین ہے۔

”ایک ڈالر اور اٹھانوے سینٹ“ اس نے بآوازِ بلند دہرایا۔

”میں یہ جوڑا لوں گی“ اس نے پانچ ڈالر کا نوٹ لڑکی کو پکڑایا اور بقایا پیسوں کی واپسی اور اپنے لفافے کا انتظار کرنے لگی۔ یہ کتنا چھوٹا سا لفافہ تھا۔ یہ تو اس کے پرانے بد نما خریداری کے تھیلے میں گم ہی ہو جاتا۔

مسز سمرس اس کے بعد بھاؤ تاؤ والے کاؤنٹر پر نہیں گئی۔ وہ لفٹ کی طرف آ گئی، جو اسے اوپری منزل پر خواتین کے لئے مختص انتظار گاہ میں لے گئیں۔ وہاں ایک تنہا گوشے میں اس نے اپنی پرانی سوتی جرابوں کو حالیہ خریدی گئی سلک کی جرابوں سے تبدیل کیا۔ اس کے پاس یہ عمل کرنے کا کوئی معقول جواز نہیں تھا، نہ ہی وہ اپنے اطمینان کو بیان کرنے کی کوئی کوشش کر پائی تھی۔ وہ کچھ بھی نہیں سوچ رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ تھکا دینے والے معمولات سے آرام کرنا چاہتی ہے۔ شاید کسی میکانکی خود کار عمل کے تحت اس نے خود کو ذمہ داریوں سے آزاد کرنے کے لئے یہ عمل کیا تھا۔

اس کے وجود کو یہ نرم ریشمی احساس کس قدر بھلا لگ رہا تھا۔ اسے یوں محسوس ہوا کہ وہ کُشن سے ٹیک لگائے کسی آرام کرسی پر مسرور انداز میں چند پر تعیش لمحے گزار رہی ہے۔ تھوڑی دیر وہ اس کیف آگیں لمحات میں رہی۔ اس کے بعد اس نے جوتے تبدیل کرنے کا سوچا۔ اس نے سوتی جرابیں تہہ کر کے اپنے بیگ میں گھسیڑ دیں اور سیدھی ایک جوتوں کی دکان کی طرف چلی آئی۔ وہ ایک مناسب نشست پر بیٹھ گئی۔

وہ نک چڑھی قسم کی گاہک تھی۔ ملازم اس کی پسند کے ساتھ مطابقت نہ رکھ سکا۔ وہ اس کی جرابوں سے میل کھاتے جوتے مہیا نہیں کر پا رہا تھا کیونکہ وہ جلد مطمئن ہونے والوں میں سے نہیں تھی۔ وہ جوتے پہن کر اسکرٹ کو اوپر اٹھا کر سر کو موڑ کر کبھی ایک انداز سے دیکھتی تو کبھی دوسرے انداز سے تاکہ پالش شدہ نوک دار جوتوں کا اچھی طرح جائزہ لے سکے۔ اس کے پاؤں اور ٹخنے حسین دکھائی دیتے تھے۔ اسے یقین ہی نہ آیا کہ وہ اسی کے جسم کا حصہ ہیں۔ وہ شاندار اور دلکش جوتے چاہتی تھی۔ اس نے خدمت پر مامور نوجوان سے کہا کہ اسے اگر اپنے پسندیدہ اور مطلوبہ جوتے حاصل کرنے کے لئے ایک دو ڈالر اضافی قیمت بھی دینی پڑی تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

دستانے خریدے ہوئے مسز سمرس کو عرصۂ دراز ہی ہو گیا تھا۔ اس کے بعد وہ دستانوں والے کاؤنٹر پر رکھے کشن پر کہنیاں ٹکا کر جا براجمان ہوئی۔

شاذ و نادر ہی کبھی اس نے مول تول والی کفایتی دکان سے ایک انتہائی سستا جوڑا خریدا تھا، چنانچہ یہ بات بعید از قیاس نہیں تھی کہ اب وہ ہاتھوں کے لئے ابتر اور نا موزوں ہو چکے تھے

ایک خوبصورت دلکش لڑکی نے نرم ملائم سا جوڑا مسز سمرس کے ہاتھوں پر دھر دیا۔ اس نے دستانوں کو سیدھا کر کے کلائیوں پر چڑھایا اور نفاست سے اس کے بٹن بند کئے۔ دونوں نے چند لمحوں کے لئے ان پر تعریفی نظریں ڈالیں۔ وہ اپنے متناسب دستانے چڑھے ہاتھوں میں کھو سی گئی۔ پھر اس نے خود کو یاد دہانی کروائی کہ ابھی اور بھی بہت سے کام تھے، جن پر پیسے خرچ ہونے تھے۔

گلی میں چند قدم کے فاصلے پر کتابوں اور رسائل کا اسٹال تھا۔ مسز سمرس نے دو بیش قیمت رسائل خریدے، جیسا کہ وہ شادی سے پہلے ان دنوں میں خریدتی تھی، جب اسے نفیس اور اعلیٰ چیزیں خریدنے کی عادت تھی۔ وہ انہیں ملفوف کئے بنا ہی لے آئی۔ جتنا ممکن ہو سکتا تھا وہ اپنی اسکرٹ کو اٹھا کر چلتی تھی۔ اس کی جرابوں، جوتوں اور موزوں دستانوں نے مل کر اس کی شخصیت میں معجزہ برپا کر دیا تھا۔ اس میں اعلیٰ ذوقی اور خوش لباسی کا احساس بدرجہ اتم نمایاں ہو گیا تھا۔

اسے بھوک لگی ہوئی تھی۔ کوئی اور موقع ہوتا تو وہ بھوک کو ٹالے رکھتی اور گھر پہنچ کر ہی کھانے کا نام لیتی، جہاں وہ ایک کپ چائے اور کوئی دستیاب کیک وغیرہ لے کر بھوک مٹاتی، لیکن جس رَو کے وہ زیرِ اثر تھی، اس میں خود کو کسی بھی ایسی تکلیف میں مبتلا کرنے کے خیال کو تقویت نہیں دے سکتی تھی۔

نُکڑ پر ہی ایک ریستوران تھا۔ اس نے کبھی اس کے دروازے کے اندر قدم نہیں رکھا تھا۔ باہر سے وہ کبھی کبھار اندرونی جھلک دیکھ لیا کرتی تھی۔ جہاں سے اسے فرنیچر کے بے داغ غلاف، کرسٹل کے چمکتے برتن اور لوگوں کی خدمت پر مامور بیروں کے سبک رفتاری سے اٹھتے قدم نظر آیا کرتے تھے۔

جب وہ اندر داخل ہوئی تو کوئی بھی اس کی شخصیت سے متحیّر نہ ہوا، نہ ہی کوئی اضطراب اور سراسیمگی پھیلی، جیسا کہ اسے خدشہ تھا۔ وہ ایک چھوٹی سی میز پر تنہا بیٹھ گئی۔ ایک مستعد بیرا فوراً آرڈر لینے کے لئے اس کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے بکثرت نہیں بلکہ قلیل مقدار میں اپنا آرڈر لکھوایا۔ کستورا مچھلی، آلو بخارے کا سلاد، کریم فریپی، کچھ میٹھا، ایک گلاس رائن شراب اور سب سے آخر میں ایک کپ بلیک کافی۔

سرونگ کا انتظار کرتے ہوئے اس نے بڑی فرصت سے اپنے دستانے اتار کر ایک طرف ڈال دئیے۔ اس نے ایک رسالہ اٹھایا اور اپنے کند چاقو سے صفحات چاک کرتے ہوئے ان پر سرسری نظر ڈالنے لگی۔

یہ سب کہیں زیادہ اچھا تھا۔ غلاف ان سے کہیں زیادہ بے داغ تھے، جتنے کھڑکی سے نظر آتے تھے۔ اور کرسٹل کے برتن کہیں زیادہ چمکدار۔۔ وہاں پر خاموش مرد و زن موجود تھے، جنہوں نے اس پر چنداں توجہ نہ کی، جو اسی کی طرح چھوٹی میزوں پر بیٹھے لنچ کرنے میں مشغول تھے۔ موسیقی کی نرم اور مدھر لہریں ابھر رہی تھیں۔ کھڑکی سے خوشگوار ہوا کے ہلکے ہلکے جھونکے آ رہے تھے۔

وہ نوالہ لیتی، ایک دو لفظ پڑھتی اور مشروب کا ایک سپ لیتی۔ ساتھ ساتھ وہ سلک کی جرابوں میں انگوٹھوں کو مسلسل ادھر ادھر حرکت دے رہی تھی۔ ان کی قیمت سے خرچے میں کچھ خاص فرق نہیں پڑا تھا۔

اس نے ویٹر کے سامنے پیسے گنے اور اس کی ٹرے میں ایک اضافی سکہ ڈال دیا۔ وہ اس کے سامنے یوں کورنش بجا لایا، جیسے وہ کسی شاہی خاندان کی شاہزادی ہو۔ اس کے پرس میں ابھی بھی رقم موجود تھی۔ اس کی اگلی دلچسپی کا مرکز ایک میٹنی شو کا اشتہار تھا۔

وہ تھیئٹر میں داخل ہوئی تو کچھ تاخیر ہو چکی تھی۔ کھیل شروع ہو چکا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ ہال بھرا ہوا ہے، لیکن وہاں جابجا خالی نشستیں موجود تھیں۔ وہ خوشنما پوشاکوں میں ملبوس خواتین کے درمیان ایک نشست پر براجمان ہو گئی، جو وہاں وقت گزاری کے لئے کینڈی کھانے اور اپنے زرق برق ملبوسات کی نمائش کے لئے آئی ہوئی تھیں۔ وہاں دیگر افراد بھی موجود تھے جو محض کھیل اور اداکاری سے لطف اندوز ہونے کے لئے وہاں تشریف فرما تھے۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ وہاں کوئی بھی ایسا شخص نہیں تھا، جو مسز سمرس کا اپنے گرد و پیش کے متعلق روا رویے پر توجہ کرتا۔

اس نے اس سارے ماحول، اداکاروں اور لوگوں کے ساتھ خود کو یکجا کر لیا۔ وہ پوری طرح کھیل میں ڈوب کر محظوظ ہوئی۔ وہ طربیہ مناظر پر ہنسی اور المیہ مناظر پر روئی۔ مسز سمرس کے ساتھ بیٹھی شوخ لباس والی خاتون نے اس کا ساتھ دیا۔ ان دونوں نے مناظر پر کچھ گفتگو کی۔ شوخ لباس والی خاتون نے آنکھیں پونچھیں اور ایک چوکور ڈبی سے خوشبو سونگھی۔ اس نے ننھی مسز سمرس کو ٹافیوں والا ڈبہ پیش کیا۔

کھیل اختتام پذیر ہو گیا۔ موسیقی تھم گئی۔ مجمع منتشر ہو گیا۔ ایسا لگا جیسے کسی خواب سے آنکھ کھل گئی ہو۔ لوگ مختلف سمتوں میں بکھر گئے۔ وہ بھی گھر کی طرف جانے والی ایک گاڑی میں آن بیٹھی۔

ایک متجسس آنکھوں والا شخص، جو اس کے باالمقابل بیٹھا تھا، یوں لگتا تھا جیسے اس کے چھوٹے سے زرد چہرے کا مطالعہ کر رہا ہو۔ وہاں لکھی ناقابلِ فہم عبارت نے اسے تذبذب میں ڈال دیا کہ اس نے وہاں کیا دیکھا۔ در حقیقت اس نے کچھ نہیں دیکھا تھا۔ اگر وہ جادوگر ہوتا تب بھی مسز سمرس کی اس شدید اور دلگداز خواہش کا کھوج نہ لگا سکتا کہ یہ کیبل کار کسی مقام پر بھی رکے بنا اسے ساتھ ساتھ لئے ہمیشہ چلتی ہی جائے۔۔۔ چلتی ہی جائے۔

Original Title: A Pair of Silk Stocking

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close