مزاحمتی قیادت کی فلسطین بدری یا اسرائیل کی ’فَیس سیونگ؟‘

منصور جعفر

اسرائیل کی سات اکتوبر سے غزہ میں جاری بدترین شہری نقصان والی جنگ کے حوالے سے کچھ نئے اشارے سامنے آئے ہیں۔ ان اشاروں کو اکٹھا کر کے دیکھا جائے تو جنگ کے حتمی نتیجے اور فیصلے کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور آنے والے دنوں کے پیش منظر کا بھی۔ اشارے یہ ہیں:

• امریکہ نے اسرائیل کو جنگ خطے میں پھیلنے کے خطرے سے خبردار کر دیا ہے۔

• امریکہ نے ممکنہ جنگی پھیلاؤ کی صورت میں اسرائیل کو یہ بھی باور کرا دیا ہے کہ جنگ کی آگ غزہ سے باہر لبنان وغیرہ تک پھیلی تو اسرائیل خود ذمہ دار ہوگا۔ گویا محبوب اسرائیل کے لیے پہلی سی محبت برقرار رکھنا امریکہ کے لیے بھی اب کی بار مشکل ہو سکتا ہے۔

• ایک یہ اشارہ اس صورت آیا ہے کہ غزہ پر زمینی جنگ میں صرف چار دنوں کے دوران 48 اسرائیلی فوجی مارے گئے ہیں۔ یہ اسرائیل کے لیے تباہ کن، ناقابل برداشت اور خطرے کی بڑی گھنٹی ہے۔ گویا غزہ کی زمین اسرائیلیوں کے لیے بہت گرم ہے اور اس پر اسرائیلی فوج کا ٹکنا مشکل سے زیادہ مشکل ہے۔

• اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے فوجیوں کی ہلاکتوں میں اضافے کے بعد صاف لفظوں میں اعتراف کیا ہے ’کہ جنگ کی بھاری قیمت دینا پڑ رہی ہے۔‘ اسی کے ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے ’کہ اب کوئی اور راستہ بھی نہیں ہے۔‘

یہ بات اشاروں سے زیادہ اظہر من الشمس ہے کہ تمام تر جنگی شدت اور امریکی و مغربی امداد کے سب سہاروں کے باوجود، نہ اسرائیل حماس کی سرنگوں کو تباہ کر سکا ہے اور نہ حماس کو اور نہ ہی فلسطینی عوام کے حوصلے اور جذبہ مزاحمت کو زِک پہنچا سکا ہے۔ حد یہ ہے کہ اس بھاری قیمت کی مسلسل جاری جنگ کے باوجود ابھی تک اسرائیلی فوج حماس کی قید میں موجود ایک بھی قیدی یا یرغمالی کو زندہ رہا کروانے میں ناکام ہے۔

نہ صرف یہ، بلکہ کچھ نقصان اسرائیل کے لیے ایسے ہیں کہ ان کا ازالہ ہونے میں کافی وقت لگے گا۔ اسرائیلی معیشت کا نقصان، سرمایہ کار کمپنیوں میں اسرائیل کے غیر مستحکم حالات کی وجہ سے خوف کا گہرا ہو جانا، عالمی و سفارتی سطح پر اسرائیل کی محدود تر ساکھ اور شہرت کو اب مزید کاری ضرب لگی ہے۔

نہ صرف یہ، بلکہ امریکہ کے ابراہم معاہدے کو بھی خود اسرائیل نے پاش پاش کر دیا ہے۔ اسرائیل کا فوجی اور اسلحی بھرم بھی بیچ بازار چکنا چور ہو گیا ہے اور فوجی قوت کی شہرت ٹوٹ کے بکھر رہی ہے۔

اسرائیلی فوج کا کثیر قومی اور کثیر نسلی ہونا بجائے خود ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ان فوجیوں کا باہم تعلق سطحی ہی نہیں، بعض اوقات اجنبیت کا ہوتا ہے۔

نیز یہ کہ اسرائیل، جو کبھی بھی ایک مستحکم سیاسی نظام کا گہوارہ نہیں بن سکا، ایک بار پھر زیادہ بڑے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہونے جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں اسرائیل کو ’وِن وِن سچویشن‘ اور ’فیس سیونگ‘ درکار ہے۔

اسی ضرورت کا اظہار اسرائیل کے ایک بڑے اخبار کے ذریعے ایک نیا تصور پیش کر کے کیا گیا ہے۔ یہ تصور حماس کی سیاسی اور عسکری قیادت یعنی یحییٰ سِنوار اور محمد ضیف کو غزہ سے جلا وطن کرنے سے متعلق ہے۔

فلسطین بدر کرنے کا تصور کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔ یہ تصور ایک مرتبہ پہلے بھی اسرائیل 31 برس قبل بروئے کار لا چکا ہے۔ جب اسی ماہ دسمبر 1992ء میں اسرائیل نے گرفتار کیے گئے 1300 فلسطینی مزاحمتی رہنماؤں اور کارکنوں میں سے 415 کو ٹرکوں میں لاد کر جنوبی لبنان کے جنوبی ایشیا کے کالا پانی جیسے علاقے ’مرج الزھور‘ میں پھینک دیا تھا۔

دسمبر کی شدید سردی کی راتیں اور دن مزاحمتی رہنماؤں کو مرج الزھور میں گزارنے پڑے تھے۔ اب بھی اسرائیل کی ابتدائی سوچ اسی طرح کی تھی کہ غزہ کے سارے فلسطینیوں کو غزہ کے جنوب میں مصر کے صحرائے سینا کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔

لیکن اسرائیل کو اس میں بھی ناکامی ملی ہے۔ اب کچھ اور نہ سہی تو کم از کم فیس سیونگ کے لیے القسام بریگیڈ کے سالاروں یحیٰ سِنوار اور محمد ضیف کو اسی دسمبر میں فلسطین بدر کر دینے کی تجویز پیش کر رہا ہے تاکہ فائر بندی ہو جائے اور یرغمالیوں کی رہائی کو اسرائیل اپنی بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرتا رہے۔

ابھی اس پر حماس اور دوسری مزاحمتی تنظیموں کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل یحییٰ سنوار اور محمد ضیف، جو کہ پچھلے 75 سال کی تاریخ میں اسرائیل کی بد ترین اور طویل ترین جنگ میں بھی فلسطینی مزاحمت کے آہنی سرخیل ثابت ہوئے ہیں، وہ اپنی مادرِ وطن کو کیونکر چھوڑ کر جائیں گے۔

ان کی تو جنگ ہی اپنے مادر وطن فلسطین کی آزادی کے لیے ہے۔ القسام اور اس کے اتحادی تمام مزاحمتی گروپوں کی سعی وجہد ہی اسرائیلی قبضے سے اپنی زمین چھڑانے کی ہے۔ وہ اس تجویز کو کیونکر مانیں گے، ان کی بات حماس کیسے تسلیم کرے گی، فلسطینی مزاحمت کار کیسے قبول کریں گے؟

یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ کیا اسرائیل 31 سال بعد فلسطین بدری کا عمل پھر سے دہرا کر یہیں تک محدود رہے گا یا اگلے مرحلے پر عرب دنیا پر دباؤ ڈلوا کر فلسطینی مزاحمتی گروپوں کے قائدین اور کارکنوں کے لیے قدغنوں اور پابندیوں کے حالات کا تقاضا کرے گا۔ جیسا کہ امریکہ کے زیرِ اثر کئی مغربی ممالک سے بھی حماس اور دیگر کو دہشت گرد قرار دلوا دیا گیا ہے۔

یہ خود فلسطینی اتھارٹی کے لیے بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ اسرائیل کے اس تصور کی حوصلہ افزائی کس طرح کرے۔ فلسطینی مزاحمت کی مضبوط علامتیں بن کر سامنے آنے والی مزاحمت کار قیادت کو فلسطین بدر کرنے کی اسرائیلی آشا قبول کرنے کی صورت میں خود فلسطینی اتھارٹی کی سیاسی ساکھ اور مستقبل کی تصویر کیا بنے گی؟

آنے والے دنوں میں اس معاملے میں کیا پیش رفت ہوتی ہے، وہ بھی جلد سامنے آ جائے گی، مگر 31 سال قبل کی فلسطین بدری کا نتیجہ تو الٹا اسرائیل کو ہی بھگتنا پڑا تھا۔

اردو پڑھنے اور بولنے والے قارئین میں سے بہت سوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی شہرہ آفاق تصنیف غبار خاطر میں ’چڑے اور چڑیا‘ کی کہانی تو ضرور پڑھی ہوگی۔

حماس کے جلا وطن اور فلسطین بدر رہنماؤں نے بھی ہمیشہ اسی طرح مشکلات، رکاوٹوں اور چیلنجوں کے بیچوں بیچ اپنا راستہ بنایا ہے۔ وہ ہر مشکل سے نکل کر آتے ہیں، وہ ہر مشکل کو اپنی جہد اور سعی کے لیے زینے کے طور پر بروئے کار لاتے ہیں اور پہلے سے زیادہ کاری ضرب لگاتے ہوئے یہ کہتے ہوئے سامنے آ جاتے ہیں؎

ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close