سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط40)

شہزاد احمد حمید

پانچ دریاؤں کی سرزمین:
”ملنا، بچھڑنا، خوشی اور غمی کا اٹوٹ انگ ہیں۔“
(بابا گرونانک)

”بابا گرونانک کا قول حقیقت ہے اور یہ ہے بھی حقیقت کہ میں پہاڑوں کی سر زمین سے باہر نکل آیا ہوں۔ پیر سر، در بند اور تربیلا پیچھے رہ گئے ہیں۔ وہ پٹھانوں کی قدیم ثقافت، خوشحال خاں خٹک کا دیس اور جدید زمانے کی کلاشنکوف، ہیروئن، اسمگلرز، پردہ پوش خواتین اور سنگلاخ چٹانوں کاخطہ ہے۔ یہ پنجاب ہے۔ پانچ دریاؤں، ہیر رانجھا، گبھرو جوانوں، الہڑ مٹیاروں مہمان نوازوں، سونا اگلتے کھیتوں، راہٹوں کی گھوں گھوں، میٹھے سروں، سرسبز میدانوں، بابا بلھے شاہ، سلطان باہوؒ، میاں محمد بخشؒ، گنج بخشؒ، میاں میر ؒ جیسے صوفی شعراء اللہ کے دوستوں اور سب سے بڑھ کر میری (سندھو) منہ زور جوانی کی دھرتی ہے۔۔ اونچے پہاڑوں سے نکل کر جیسے ہی میں نشیبی علاقے میں پہنچتا ہوں تو تربیلا کے مقام پر ایک بڑی بند نما دیوار بنا کر مجھے ڈیم میں بدل دیا گیا ہے۔ میرے مشرقی کنارے ’حضرہ‘ کی قدیم اور تاریخی بستی ہے۔ تھوڑا آگے جرنیلی سڑک کے پاس اٹک ہے اور یہیں دریائے کابل مجھ میں گرتا ہے۔ جنڈ کے قریب میرا اور ’سواں ریور‘ کا سنگم ہے۔ اسے اب دریا کہنا تو مناسب نہیں یہ سمٹ کر برساتی نالہ ہی رہ گیا ہے، جو مون سون کے موسم میں ہی اپنا پانی مجھ میں اتارتا ہے۔ میں پوٹھوہار، چھچھ، کالا چٹا پہاڑی سلسلہ سے بہتا، کوہ نمک کو چھوتا کالا باغ پہنچتا ہوں۔ کالاباغ سے میرا پہاڑی سفر مکمل ہو کر میدانی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ آغاز ہے پنجاب کے وسیع سر سبز میدان کا۔ کچھ آگے ’کوہ سیلمان‘ سے نکلنے والا ’دریائے گومل‘ مجھ میں ملاپ کرتا ہے۔ ’پنجند مظفر گڑھ‘ پنجاب کے پانچ دریاؤں کا سنگم ہے تو مٹھن کوٹ پر میرا اور چناب کا۔ رحیم یار خاں کے گاؤں ’گوٹھ نور محمد‘ سے میں سندھ کے شاداب میدانوں میں داخل ہوتا ہوں۔ یہ تو تم جانتے ہو کہ گوٹھ نور محمد تمھارے دوست ”وڈیرہ نور محمد“ کا گاؤں ہے۔ اسی کے نام پر۔“ ایک بڑی مسکراہٹ میرے چہرے پر پھیل گئی ہے۔

ہم شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ جرنیلی سڑک پر چلے جا رہے ہیں۔ (شیر شاہ بھی مافوق الفطرت انسان تھا۔ جتنا بہادر اتنا ہی اعلیٰ منتظم۔ تقریباً ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں اس نے لازوال کام کئے۔ سرائے بنوائیں، کنویں کھدوائے، ڈاک کا بہترین نظام قائم کیا، زمین کا بندوبست متعارف کروایا، جرنیلی سڑک تعمیر کی، قلعے بنوائے، شاندار حکومتی نظم و نسق قائم کیا۔) ایک ہمارے حکمران ہیں دہائیاں حکومت میں رہنے کے باوجود عوام کو تسلیاں ہی دیتے رہتے ہیں کہ آنے والے سالوں میں عوام کو فائدہ ہونے والا ہے۔ افسوس وہ خوشحالی کے سال کبھی نہیں آئے۔ سبزہ زاروں، پہاڑوں، سپاٹ کھیتوں میں دوڑتی جرنیلی سڑک اب پانچ سو(500) برس سے زیادہ پرانی ہو چکی ہے۔

پنجاب کے قدین ترین باشندوں کے حوالے سے انگریز مورخ ’ای مار سڈن‘ اپنی کتاب ’تاریخ ہند‘ میں لکھتے ہیں: ”چار ہزار سال پہلے پنجاب وادی سندھ کا حصہ تھا۔ ’کول‘ اور ’دراوڑ‘ یہاں کی قدیم ترین قومیں تھیں جنہیں ’آرین‘ نے شکست دی اور انہیں ہند میں اوپر کی جانب دھکیل دیا۔ دراوڑ کھیتی باڑی کرتے اور ریوڑ پالتے تھے۔ اپنے دیوتاؤں سے ڈرتے اور انہیں خوش کرنے کے لئے انسانی جان کی قربانی کرتے تھے۔ سندھو کو بھی دیوتا جانتے اور اسے بھی راضی رکھنے کے لئے انسانوں کی بلی چڑھاتے تھے۔ آرین چار ہزار برس پہلے ہندوستان آئے، پنجاب اور وادی سندھ کے علاقوں میں آباد ہوئے۔ ان کا رنگ گورا اور وہ دراز قد تھے۔ سوت کا کپڑا پہنتے، گیہوں کی فصل تیار کرتے، گائے، بھینس، بکری پالتے، گھوڑے سدھاتے اور تانبے پیتل کے اوزار تیار کرتے تھے۔ قدیم ہند کے آرین آج کل کے ہندؤں سے بالکل مختلف تھے۔ان میں ذات پات کی تقسیم نہ تھی۔ ان کی عورتیں اپنی مرضی سے اپنے لئے خاوند کا انتخاب کرتی تھیں۔ بیواؤں کی بھی شادی ہوتی تھی۔ غذا میں غلہ اور گوشت شامل تھا۔ یہ ’سوم رس‘ پیتے تھے، جن سے آنکھوں میں نور سا اتر آتا تھا۔ دنیا کی قدیم ترین کتابوں میں سے ایک ’ریگ وید‘ جو انہی کی کتاب تھی، یہیں لکھی گئی، اس کے معنی ٰہیں ’اشستی‘ یا ’حمد و ثناء‘ اس میں اگنی، اندر اور دوسرے آرین دیوتاؤں کی تعریف میں 1028 منتر ہیں۔ ان منتروں میں سندھو کا کئی بار ذکر ہے، جبکہ گنگا دریا کا صرف دو بار۔ رگ وید میں پنجاب کا خطہ ’سپت سند ھو‘ یعنی سات دریاؤں کی سرزمین بتایا گیا ہے۔ ہڑپہ سپتا سندھو کا اہم ترین شہر تھا۔ آریائی اور ویدک تہذیبیں بھی اسی خطے اور سندھو کے گردہی پروان چڑھیں۔پنجاب قدیم دور میں گندھارا، مقدونیہ، موریا، کشان، گپتا، ہندو شاہی اور مغل سلطنتوں کا حصہ اور اہم مرکز تھا۔ معاشیات کا دارومدار زراعت پر تھا اور پنجاب کے میدان خاص طور پر لاہور اور ملتان کے علاقے زرعی اعتبار سے اہم تھے۔پنجاب میں اسلام محمد بن قاسم کی آمد کے ساتھ آیا۔ جب اس نے 712؁ء میں ملتان فتح کیا۔ محمود غزنوی کے دور میں لاہور پنجاب کا پایہ تخت قرار دیا گیا تو اس کی اہمیت بڑھ گئی۔ اس سے پہلے تک یہی حیثیت ملتان کو حاصل تھی۔“

یاد رہے ’رامائین‘ گنگا جمنا کی زرخیز وادی میں لکھی گئی اور اس میں رام، سیتا اور کرشن کا قصہ بیان ہوا ہے جبکہ ’مہا بھارت‘ سب سے بعد کی تصنیف ہے، جس میں ’راجہ بھرت‘ کی لڑائی کاحال بیان ہوا ہے۔ اس میں سندھو کا تذکرہ ’پنج آندہ‘ (panh anada)کے نام سے ملتا ہے جبکہ یونانی اسے pentapotamia کہتے تھے۔
’پنجاب‘ فارسی کے دو لفظوں ’پنج‘ (پانچ) اور ’آب‘ (پانی) سے مل کر بنا ہے۔ یعنی پانچ پانیوں کی زمین۔ الہڑ مٹیاروں اور گبھرو شیر جوانوں کی دھرتی۔ برٹش آرمی کا دور ہو یا پاک فوج کا زمانہ، یہ دھرتی بہادری اور شجاعت کی داستانیں سینے پہ سجائے دنیا بھر میں فخر اور امتیاز کا نشان سمجھی جاتی ہے۔ یہاں کے جوان فوج میں شامل ہونا بہادری، جواں مردی اور فخر سمجھتے ہیں۔راجہ پورس کا زمانہ ہو یا پہلی جنگ عظیم ہو یا دوسری، پاک بھارت جنگی معرکے ہوں یا دہشت گردی کے خلاف جنگ یا دھرتی ماں پر قربان ہونے کا کوئی اور موقع ہو، اس سر زمین کے کڑیل جوانوں نے اپنے لہو سے بہادری کے ایسے ایسے دیپ جلائے ہیں، جو تاریخ کے درخشندہ باب ہیں۔ ماؤں کے یہ قابل فخر سپوت اپنے سینوں پر وکٹوریہ کراس بھی سجاتے رہے ہیں اور نشان حیدر بھی۔ لہو گرم رکھنے کا یہ بہانہ اتنا ہی قدیم ہے، جتنی خود پنجاب کی دھرتی۔ پنجاب کے پنجابی یہاں بہنے والے دریاؤں کی طرح پرجوش، ملنسار، بہادر اور سخی ہیں۔

”تم جانتے ہوکیا؟“ سندھو نے پوچھا۔ حسب عادت میرا جواب سنے بغیر بولنے لگا ہے، ”آج کے پنجاب کو تین حصوں یا خطوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا: شمال وسطی پنجاب (نارتھ سنٹرل پنجاب)۔یہ خطہ زرعی زبان میں ’سبز انقلاب‘ کی سر زمین کہلاتا ہے۔ اس میں لاہور اور گردو نواح کے نہری پانی والے اضلاع شامل ہیں۔ برطانوی دور کی نہروں کی وجہ سے ان اضلاع کی زمین زرعی پیداوار کے لحاظ سے بہترین قرار دی جاتی ہے۔ دوسرا: شمال مغربی پنجاب (نارتھ ویسٹ پنجاب)۔ اس میں کوہ نمک (سالٹ رینج) سے لے کر میری گزرگاہ تک کا علاقہ شامل ہے یعنی سطح مرتفع پوٹھوہار کے سارے علاقے۔ راولپنڈی اس خطے کا اہم ترین شہر ہے۔ تیسرا جنوبی پنجاب: سرائیکی زبان بولنے والوں کا خطہ لیکن اس میں وسطی پنجاب کاضلع جھنگ بھی شامل ہے۔ زبان سے زیادہ یہاں کے ثقافتی اور معاشی رجحانات اس کی تقسیم میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ پنجاب کا پسماندہ اور غریب علاقہ ہے، یہاں کی زندگی کٹھن اور زراعت کا دارومدار زیادہ تر بارش پر ہے۔ فصل کم اگتی ہے اور غلے کی مقدار بھی بہت مختصر ہے۔ مویشیوں کے لئے چارہ بھی کم البتہ پھل بہتات میں ہوتا ہے۔ یہاں کچھ پہاڑی علاقہ بھی ہے جہاں شب باشی کے لئے سرائے وغیرہ تو نہیں ہیں لیکن مقامی لوگوں نے عارضی کمین گاہیں بنا رکھی ہیں۔“

عظیم سندھو پر صوفی شعراء نے سنسکرت، پنجابی، سرائیکی اور سندھی میں مہر و وفا کے گیت لکھے ہیں۔ تاریخ دانوں نے اس کی عظمت و شان بیان کی ہے۔ اس کے کنارے بسنے والوں نے اس کی پوجا کی ہے، لوک گیت گائے ہیں۔ سندھو نے بھی ان کو مایوس نہیں کیا ان کو سر سبز میدان دیے، کھیت کھلیان دیے، خوشیاں ان کے آنگن اتاریں، شاندار فن کار اور تاریخ کے ایسے ایسے شہکار دیے جو یکتائے زمانہ تھے۔ اس سفر میں سندھو بعض مقامات پر بادشاہوں کے تعمیر کردہ قلعوں کے قریب سے بہتا خندق کا کام بھی کرتا تھا۔ ایسے بہت سے قلعوں کا سندھو آج بھی سب سے بڑا رکھوالا ہے۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close