بجلی کے اضافی بلوں پر ملک گیر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، معاشی صورتحال ڈالر کے مزید اضافے سے مشکلات کا شکار ہے اور ایسے میں عوام کو ریلیف فراہم کرنا تو رہا ایک طرف، وزیر خزانہ منظر عام سے ہی غائب ہیں
پی ڈیم ایم حکومت کے معاشی اقدامات اور پیدا کردہ مہنگائی نگران حکومت کے گلے پڑ گئی ہے اور وہ آئی ایم ایف کی ناراضی اور عوام کے عتاب سے بچنے کی کوششوں کے درمیان پھنس گئی ہے
رلیف کے لیے منعقدہ حکومت کے نمائشی اجلاس سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ کابینہ نے نوٹ کیا کہ نگران سیٹ اپ صارفین کو کوئی ریلیف نہیں دے سکتا لیکن یہ بلوں کی ادائیگی 4 سے 6 ماہ کی قسطوں میں تقسیم کرنے کی اجازت دے سکتا ہے، تاہم اس صورت میں بھی حکومت کو آئی ایم ایف سے پیشگی اجازت لینی ہوگی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کابینہ کے اجلاس کے بعد کوئی باضابطہ بیان یا پریس ریلیز تک جاری نہیں کی گئی
بجلی کے زائد بلوں کے خلاف ملک گیر احتجاج کے پیش نظر نگران حکومت کی جانب سے عوام کو ریلیف دینے کی کوششوں کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ رواں ہفتے کے آخر میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے کی صورت میں عوام کی ریلیف کی امیدوں کو ایک اور دھچکا لگنے کا خدشہ ہے، جو تمام پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو 300 روپے فی لیٹر سے اوپر پہنچا سکتا ہے
31 اگست کو پیٹرول کی قیمت میں 9 سے 10 روپے فی لیٹر اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 18 سے 20 روپے فی لیٹر اضافے کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے جبکہ مٹی کا تیل تقریباً 13 روپے فی لیٹر مہنگا ہونے کا خدشہ ہے
دوسری جانب چینی کی قیمت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ چینی کی فی کلو تھوک قیمت 4 روپے اضافے کے بعد 164 روپے تک جا پہنچی ہے، جس کے سبب خوردہ قیمتوں پر دباؤ آیا اور اس کی قیمت بڑھ کر 180 روپے ہوگئی۔
مارٹس اور آن لائن اسٹورز پر منگل کو چینی کی قیمت 170 سے 175 روپے سے بڑھ کر 185 روپے تک جا پہنچی ہے
پی ڈی ایم حکومت کے 16 ماہ میں رٹ نہ ہونے کے بعد صارفین کو یقین ہے کہ نگران سیٹ اپ نے پیٹرولیم مصنوعات کی فی لیٹر قیمت 20 روپے بڑھا کر، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے زیادہ مایوس کیا ہے
دریں اثنا بجلی کے زائد بلوں پر ملک گیر احتجاج مسلسل پانچویں روز بھی جاری رہا، شہری احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے، روڈ بلاک کر دیے اور بلوں کو نذر آتش کر کے بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر غصے کا اظہار کیا، جماعت اسلامی نے بھی بجلی کے زائد بلوں کے خلاف 2 ستمبر (ہفتہ) کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے
آزاد کشمیر اسمبلی کے اسپیکر کی سربراہی میں وزارتی ٹیم اور تاجروں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کی ایک ایکشن کمیٹی کے درمیان اجلاس کے دوران تعطل پیدا ہو گیا اور فریقین کے درمیان اتفاق رائے نہ ہوسکا۔
نتیجتاً تاجروں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ جمعرات (31 اگست) کو مظفرآباد ڈویژن میں بجلی کے بلوں کے مسائل سمیت دیگر عوامی مسائل کے خلاف شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال شیڈول کے مطابق کی جائے گی
بجلی کے نرخوں میں غیرمعمولی اضافے کے خلاف خیبرپختونخوا میں پشاور سمیت دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہرے مسلسل ساتویں روز بھی جاری رہے۔ مرکزی احتجاجی ریلی پشاور کے چوک یادگار سے نکالی گئی جس میں مختلف علاقوں سے عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی، جی ٹی روڈ پر ریلی ایک بڑے جلسہ عام میں تبدیل ہو گئی، اسٹیڈیم چوک پر بجلی کے بل جلانے کے بعد مظاہرین نے شیر شاہ سوری روڈ پر مارچ بھی کیا۔
کسانوں کے رہنما ارباب جمیل کی قیادت میں ایک اور بڑا جلوس مرکزی ریلی میں شامل ہونے کے لیے چارسدہ روڈ سے پہنچا
شرکا نے سیاہ جھنڈے اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر بجلی کے زائد بلوں کے خلاف نعرے درج تھے، تاجر رہنماؤں نے متنبہ کیا کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات فوری تسلیم نہ کیے تو ملک گیر شٹر ڈاؤن کا اعلان کیا جائے گا، مقررین نے کہا کہ لوگ زائد بلوں کی ادائیگی کے لیے اپنے گھریلو سامان اور زیورات بیچنے پر مجبور ہیں
دوسری جانب انٹر بینک مارکیٹ میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی اڑان جاری ہے، آج پاکستانی کرنسی مزید ایک روپے 45 پیسے سستی ہونے کے بعد ڈالر 304 روپے 50 پیسے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا
فوریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق تقریباً 12 بجے انٹربینک مارکیٹ میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر ایک روپے 45 پیسے اضافے کے بعد 304 روپے 50 پیسے کا ہوگیا، جو گزشتہ روز 303 روپے 5 پیسے پر بند ہوا تھا، تاہم اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 223 روپے پر مستحکم ہے۔
خیال رہے کہ ڈالر کے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ ریٹ کے درمیان بڑھتے فرق نے حکومت کے لیے چیلنج کھڑا کر دیا ہے کیونکہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اس فرق کو 1.25 فیصد تک رکھے جو کہ 5.6 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔
ملک کی معاشی صورت حال ہو یا پھر بجلی کے بلوں میں اضافے کا مسئلہ، عوام سراپا احتجاج ہے، چینی کی قیمتیں بے قابو ہو چکی ہیں، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے، ایسے میں سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اس ’مشکل وقت‘ میں نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر کہاں ہیں؟ وہ تاحال نہ تو خود منظر عام پر آئی ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی پالیسی بیان سامنے آیا ہے، جس پر معاشی ماہرین بھی تعجب کا اظہار کر رہے ہیں
ملک کی موجودہ صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کمیٹی کا اہم اجلاس آج (30 اگست) کو دن دو بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں بلا کر نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر کو طلب کر رکھا ہے
ایجنڈے کے مطابق شمشاد اختر کو کہا گیا ہے کہ وہ ملک کی معاشی صورت حال پر کمیٹی کو بریفنگ دیں۔ اجلاس میں چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر)، گورنر سٹیٹ بینک اور وزارت قانون سمیت دیگر حکام بھی شرکت کریں گے
ذرائع ابلاغ نے اس حوالے سے نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس رپورٹ کی اشاعت تک ان سے رابطہ نہیں ہو سکا
وزیر خزانہ آج کل کے ملک کے اقتصادی مسائل کے پیش نظر انتہائی اہم حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ روپے کی گرتی قدر اور بجلی کے زیادہ بلوں جیسے مسائل پر موجودہ نگران حکومت خاموش ہے
تاہم نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے نگران وزیر خزانہ کی سیاسی منظرنامے سے عدم حاضری پر بات کرتے ہوئے کہا ”شمشاد اختر چند روز کے لیے رسائی میں نہیں ہیں، وہ ایک اقتصادی منصوبے پر کام کر رہی ہیں اور کچھ معاملات میں مصروف ہیں“
ڈاکٹر شمشاد اختر 2006 میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی پہلی خاتون گورنر بنیں۔ ان کی تقرری ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ملک آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بتدریج بڑھتے ہوئے افراطِ زر کے پیش نظر ان کی بطور وزیرِ خزانہ تقرری کو اہم بھی سمجھا جا رہا ہے
سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے ”نگران حکومت کو (معاملات کو) ٹالنے کے بجائے اس پر بات کرنی چاہیے، انہیں کہنا چاہیے کہ ہم جو کر رہے ہیں وہ پچھلی حکومت کر کے گئی ہے۔ ٹالنے سے کوئی چیز حل نہیں ہوگی“
ملکی صورت حال کے حوالے سے معاشی امور کے ماہر فرحان بخاری کہتے ہیں کہ وزیر خزانہ کو گذشتہ حکومت کی جانب سے دیے گئے بجٹ پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور خاص طور پر ’ترقیاتی منصوبوں کے لیے رکھی گئی رقم منجمد کر کے نظر ثانی کرنی چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ پی ڈیم ایم کی گذشتہ حکومت کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے رکھی گئی رقم کا تعلق ان کی سیاست سے تو ہو سکتا ہے، لیکن ملکی معیشت اور بہتری سے نہیں، جیسے کہ لاہور۔بہاولنگر موٹروے کا اعلان کیا گیا جس کی لاگت 265 ارب روپے ہے اور لیپ ٹاپ سکیم کے لیے اربوں روپے رکھے گئے، ان اخراجات کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ایسے وقت میں معیشت پر زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے
دوسری جانب معاشی امور کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی شہباز رانا کہتے ہیں ’نگران وزیر خزانہ کی جانب سے مکمل خاموشی ہے بلکہ ایسے لگ رہا ہے کہ وہ کسی پر اعتماد کرنے یا بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ مخصوص اجلاس کر رہی ہیں، جس سے رابطے کا خلا پیدا ہو رہا ہے۔ قیاس آرائیاں کرنے والے اس کا استعمال کر رہے ہیں اور غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔ وزیر خزانہ کو اپنی رابطہ کاری کی حکمت عملی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔‘
واضح رہے کہ حال ہی میں ایک انٹرویو میں سابق وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سید خورشید شاہ نے کہا تھا کہ ان کی حکومت پر عالمی مالیاتی ادارہ کا دباؤ تھا لیکن اگر اُس وقت حکومت چاہتی تو بجلی کے فی یونٹ میں چار روپے کمی کر کے عوام کو ریلیف دیا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور اب بھی نگران حکومت چاہے تو فی یونٹ میں 15 روپے تک کی کمی ممکن ہے
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی حالیہ دنوں میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی اتحادی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابقہ حکومت متعدد فیصلے نہیں کر سکی اور خاص طور پر وزارت خزانہ، وزارت پیٹرولیم اور توانائی ٹھوس فیصلے کرنے میں ناکام نظر آئیں
ملکی معیشت سے متعلق معاملات کی کوریج کرنے والے صحافی مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ نگران وزیر خزانہ کو اب تک ملکی معیشت سے متعلق بیان دے دینا چاہیے تھا
مہتاب حیدر نے کہا کہ شمشاد اختر کو نگران وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالے دو ہفتے گزر چکے ہیں لیکن موجودہ صورت حال پر ان کا بیان سامنے نہیں آیا۔ ’ٹھیک ہے آپ معیشت کو سمجھیں لیکن اس وقت جو چیلنجز ہیں ان کے لیے آپ کا کیا روڈ میپ ہے؟ اس حوالے سے وہ بات نہیں کر رہیں۔‘