اپنی مثالی اسٹریٹیجک حیثیت کی وجہ سے غزہ کا علاقہ کئی بار تباہ ہوا اور کئی بار آباد ہوا۔ چار ہزار سال پر محیط اس کی معلوم تاریخ کو دیکھا جائے تو بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ غزہ کے رہنے والوں کو موت کے منہ میں جینے کا ہنر وراثت میں ملا ہے۔
ذرا غزہ کی پٹی کے جغرافیے پر ایک نظر دوڑایئے: اس کے مغرب میں بحیرۂ روم، جنوب مغرب میں صحرائے سینا، مشرق میں شام، جب کہ شمال مشرق میں بیت المقدس واقع ہیں۔ اس مختصر سی پٹی کا 11 کلومیٹر کا علاقہ مصر سے ملتا ہے
تہذیبوں کا چوراہا
یہی جغرافیائی مرکزیت ہے، جس کی وجہ سے کئی طالع آزما جرنیلوں، دلیر سلطانوں، الوالعزم بادشاہوں اور باہمت امیروں نے یہاں کی مٹی پر جنگیں لڑی ہیں، یہ علاقہ کئی بار تاراج ہوا، پھر تعمیر ہوا، پھر جلایا گیا۔ اس علاقے کی مٹی کھودی جائے تو اس میں تہہ بہ تہہ تاریخ کی اَن گنت کہانیاں چھپی ہوئی ملیں گی۔
یہی وجہ ہے کہ یہ چھوٹی سی پٹی تہذیبوں کا چوراہا کہی جا سکتی ہے، کیوں کہ یہاں سے ایشیا، افریقہ اور یورپ کو آپس میں ملانے والے اہم سمندری اور زمینی راستے گزرتے ہیں۔
غزہ کے موجودہ باسی اسی تاریخی سرزمین کے باثروت ورثے کے مالک ہیں اور اسی زمین پر وہ آج کل زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
اس سرزمین پر پہلی آبادی کے آثار پتھر کے زمانے تک جاتے ہیں۔ یہاں کئی سلطنتوں کا جھنڈا لہرایا اور اتارا گیا۔ کنعانی باشندوں کا یہ شہر قدیم مصری شہنشاہوں کی سلطنت کا حصہ رہا پھر 730 ق م میں یہ اشوری سلطنت کا حصہ بن گیا، جو چودھویں سے ساتویں صدی ق م تک دنیا کی عظیم سلطنت رہی ہے۔
332 ق م میں غزہ کو سکندر اعظم نے فتح کر لیا۔ بعد میں یہ خطہ رومیوں کی دسترس میں آ گیا، جس کے دوران عرب بیدونی یہاں آ کر آباد ہونا شروع ہوئے۔ 96 ق م میں ہاسمونین سلطنت نے غزہ کو تاراج کر دیا، جس کے بعد رومیوں نے اس کی تعمیر نو کی اور یہاں خوشحالی کا دور دورہ شروع ہوا۔
شہر کا انتظام و انصرام چلانے کے لیے شہر کے باسیوں جن میں یونانی، رومی، یہودی، مصری، ایرانی اور عرب شامل تھے، پر مشتمل ایک سینیٹ بنائی گئی۔ پھر جب سینٹ فارفائرس کے دور میں شہر مسیحی بن گیا تو اس نے یہاں پر قائم آٹھ قدیم مندر مسمار کر دیے۔
637 میں غزہ کو مسلم جرنیل عمرو ابن العاص نے فتح کر لیا اور غزہ کی زیادہ تر آبادی نے اسلام قبول کر لیا۔
بعد ازاں غزہ کی تاریخ میں کئی نشیب و فراز آئے۔ فاطمیوں کے دور میں صلیبیوں نے غزہ کو مسلمانوں سے چھین لیا، تاہم سلطان صلاح الدین ایوبی نے یہ قبضہ واپس لے لیا۔ تیرہویں صدی تک یہاں مملوک بادشاہوں کا پرچم لہرایا، پھر سولہویں صدی میں یہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران جب برطانوی فوجوں نے فلسطین فتح کیا، تو غزہ بھی ان کے کنٹرول میں چلا گیا۔
1948 میں پہلی عرب اسرائیل جنگ کے دوران غزہ کی آبادی کا بڑا حصہ مہاجر بن کر شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔ 1949 سے1967 تک یہاں مصر کی عمل داری رہی۔ اس کے بعد عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کر لیا، جو 1994 تک برقرار رہا۔ اوسلو معاہدے کے تحت اسرائیل نے غزہ کی پٹی فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دی۔
غزہ بیسویں صدی میں
گذشتہ ایک سو سال میں غزہ کا کنٹرول پانچ حکومتوں کے پاس رہ چکا ہے۔ پہلے سلطنت عثمانیہ، پھر برطانیہ، مصر اور اسرائیل اس کے حکمران رہے ہیں، جب کہ اب یہ علاقہ خود فلسطینیوں کی عمل داری میں ہے۔
15 مئی 1948 کو جب برطانوی افواج جاتے جاتے اقتدار اسرائیل کے حوالے کر گئیں تو اس کے اگلے ہی روز شام، لبنان، اردن اور مصر نے اسرائیل کے خلاف جنگ شروع کر دی۔
غزہ چونکہ مصری سرحد پر واقع تھا، اس لیے یہ مصری فوج کا اڈا بن گیا، جہاں سے مصری فوجیں اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں پر حملے کر سکتی تھیں۔ بحیرہ روم کے ساتھ غزہ کے شمال میں اسرائیلی افواج نے مصری فوج کی پیش قدمی روک دی مگر مصری فوجیں بحیرہ روم کے ساتھ 40 کلومیٹر کے علاقے میں اپنا قبضہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں جو بعد میں جنگ بندی کے بعد بھی قائم رہا۔
پہلی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں سات سے آٹھ لاکھ فلسطینی مہاجر بن کر اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے، ان میں سے زیادہ تر کا ٹھکانہ غزہ بنا۔ آج بھی غزہ میں ان مہاجرین کے آٹھ کیمپ موجود ہیں، جہاں چھ لاکھ سے زیادہ فلسطینی مہاجرین رہتے ہیں۔ ان کیمپوں میں رہنے والے 81 فیصد مہاجرین خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جنہیں بنیادی ضروریات زندگی بھی دستیاب نہیں ہیں۔
غزہ میں رہنے والے 10 لاکھ لوگوں کو اقوامِ متحدہ روزانہ کی بنیادوں پر راشن فراہم کرتا ہے۔ 23 لاکھ سے زائد آبادی والے اس شہر پر حماس کی حکمرانی ہے۔
غزہ میں حماس کا قیام
1967 میں جب نہر سویز کے مسئلے پر مصر اور اسرائیل کی جنگ چھڑی تو اس کے نتیجے میں اسرائیل نے مصر کے زیر قبضہ غزہ کی پٹی اور صحرائے سینا کے علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا۔ اس کے ساتھ شامی علاقے گولان کی پہاڑیوں اور اردن سے مشرقی بیت المقدس کا علاقہ بھی چھین لیا۔
اس چھ روزہ جنگ میں ایک لاکھ فلسطینیوں کو مہاجر بننا پڑا، جس کے نتیجے میں فلسطینی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ انہیں اپنی آزادی کی جنگ خود ہی لڑنا پڑے گی، جس کے نتیجے میں پی ایل او، جو 1964 میں قائم ہو چکی تھی، کی پذیرائی میں اضافہ ہو گیا۔
1973 کی عرب اسرائیل جنگ، 1987 اور 2000 میں فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت جسے ’انتفاضہ‘ کا نام دیا جاتا ہے، کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1987 میں غزہ میں حماس کا قیام عمل میں آیا۔
1990 میں اوسلو معاہدے کی روشنی میں اسرائیل اور پی ایل او ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر متفق ہو گئے۔ اسی معاہدے کی رو سے 1994 میں فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا۔ پی ایل او اس معاہدے کے بعد ’تشدد‘ کا راستہ ترک کرنے پر آمادہ ہو گئی تاکہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کی جانب بڑھا جا سکے۔
دوسری جانب حماس اور ’اسلامک جہاد‘ نامی فلسطینی تنظیموں کا موقف ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کا مقصد مسلح جدوجہد ہی سے ممکن ہے، جس کی وجہ سے حماس کو کئی ممالک نے ’دہشت گرد‘ قرار دیا ہے۔
یاسر عرفات جو فلسطینی نیشنل اتھارٹی کے صدر تھے، کے 2004 میں انتقال سے فلسطین میں سیاسی خلا پیدا ہو گیا، جس کا فائدہ حماس کو ہوا۔
اسرائیل نے امن کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے 2005 میں غزہ سے اپنی فوجوں کو واپس بلا لیا اور غزہ میں نو ہزار کے قریب اسرائیلی آباد کاروں کو بھی حکم دیا کہ وہ غزہ خالی کر دیں۔
دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل
غزہ میں پانی اور بجلی کی فراہمی، ٹیلی کمیونیکیشن اور ساحل سمندر پر اسرائیل کا ہی کنٹرول رہا۔ حماس نے 2006 کے انتخابات میں مہم چلائی کہ اوسلو معاہدہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں ناکام ہو گیا ہے، جس پر اس نے فتح تنظیم کو عام انتخابات میں شکست سے دوچار کر دیا۔
فلسطینی سکیورٹی فورسز کو غزہ میں غیر موثر کر کے حماس نے اقتدار سنبھال لیا۔ اسرائیل نے حماس کی جانب سے کنٹرول سنبھالنے کے بعد غزہ کا محاصرہ کر لیا تاکہ ’حماس اسلحہ وغیرہ جمع نہ کر سکے۔‘
یہ محاصرہ آج تک جاری ہے اور ہیومن رائٹس واچ غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل قرار دیتی ہے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)