انڈیا کے ’دھرتی پکڑ‘ انتخابی امیدواروں کی دلچسپ کہانی۔۔

ویب ڈیسک

’دھرتی پکڑ‘ ۔۔۔ ہیں ناں منفرد اور دلچسپ الفاظ! دراصل یہ ایک اصطلاح ہے، جو انڈیا میں ان انتخابی امیدواروں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو الیکشن میں مسلسل شکست کے باوجود ڈٹے رہتے ہیں۔ یعنی بھلے ہی ہارتے رہیں، لیکن میدان خالی نہیں چھوڑنا!

حالانکہ
ایسے ہی مشہور دھرتی پکڑ امیدواروں میں سرفہرست نام کاکا جوگندر سنگھ کا ہے، جن کے پاس ساڑھے تین سو سے زائد شکستوں کا عالمی ریکارڈ ہے۔ کاکا جوگندر سنگھ تقسیم کے بعد پاکستان سے انڈیا ہجرت کر گئے تھے- اسی طرح ناگرمل بجوریا کا تمام دو سو بیاسی الیکشن ہارنے کا ریکارڈ ہے۔ بہار کے بھاگلپور میں رہنے والے بجوریا بھی تقسیم کے بعد پاکستان کے شہر لاہور سے انڈیا گئے تھے

انہی میں راجستھان کے تیتر سنگھ بھی شامل ہیں، اگرچہ وہ اٹھہتر سال کے ہو چکے ہیں لیکن ان کا انتخاباتی جنون اب بھی جوان ہے۔۔ ان جیسی ہمت اور مستقل مزاجی کم ہی لوگوں میں دیکھنے کو نصیب ہوتی ہے۔ تیتر سنگھ پچھلے پچاس سالوں میں بیس مرتبہ الیکشن ہارنے کے باوجود ایک بار پھر میدان میں ہیں۔ وہ 25 نومبر کو ہونے والے ریاستی اسمبلی انتخابات میں بطور آزاد امیدوار ایک بار پھر اپنی قسمت کے ساتھ ساتھ اپنی ہمت کو بھی آزما رہے ہیں

تیتر سنگھ کوئی ایسے شخص نہیں کہ بہت دولت مند ہوں اور اپنے پیسوں کے مصرف کے لیے الیکشن لڑتے ہوں۔۔ ان کا تعلق دراصل پسماندہ دَلِت طبقے سے ہے اور وہ ایک دیہاڑی دار مزدور ہیں۔ تیتر سنگھ نے پہلی مرتبہ 1970 کی دہائی میں اُس وقت الیکشن لڑا تھا، جب انہیں لگا کہ ان جیسے لوگوں کو سرکاری زمین کے الاٹمنٹ سے محروم کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے حکومت کی طرف سے بے زمین اور غریب مزدوروں کو زمین الاٹ کرنے کے مطالبے پر الیکشن لڑنا شروع کیا اور ہر الیکشن میں اپنی یہ مانگ دہراتے رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پچاس برس گزر جانے کے باوجود ان کا یہ مطالبہ آج تک پورا نہیں ہو سکا

تیتر سنگھ اب تک پنچایت سے لے کر پارلیمانی ہر انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں اور انہیں ہر الیکشن میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور اپنی ضمانت گنوانی پڑی ہے، لیکن تیتر سنگھ بھی اپنی دھن کے پکے ہیں، الیکشن تو ہار جاتے ہیں، مگر کبھی ہمت نہیں ہارتے، اس پکی دھن کے پیچھے ان کا اپنا نظریہ ہے، جو انہیں ہار ماننے نہیں دیتا

کرن پور اسمبلی حلقے سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے آئندہ الیکشن میں امیدوار تیتر سنگھ کہتے ہیں، ”میں آخر الیکشن کیوں نہ لڑوں؟ یہ الیکشن ہمارے حقوق کے لیے جنگ ہے۔ یہ ہمارے حقوق کے حصول کا ہتھیار ہے، جس کی دھار وقت گزرنے کے باوجود کند نہیں ہوئی ہے“

وہ کہتے ہیں کہ الیکشن میں حصہ لینے کا ان کا مقصد مقبولیت حاصل کرنا یا ریکارڈ بنانا نہیں ہے

بھارت میں ہر اس شہری کو مقامی بلدیہ سے لے کر صدر جمہوریہ کے عہدے تک کے انتخابات میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے، جو مقررہ شرائط پوری کرتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پنچایت سے لے کر صدر جمہوریہ تک کے انتخابات میں ڈھیر سارے امیدوار میدان میں نظر آتے ہیں حالانکہ ان میں سے بیشتر محض شہرت کے لیے ایسا کرتے ہیں، جب کہ بعض اوقات سیاسی جماعتیں بھی انتخابی فائدے کے لیے ڈمی امیدوار کھڑے کرتی ہیں

جیسا کہ ہم شروع میں ذکر کر آئے ہیں الیکشن میں مسلسل شکست کے باوجود ڈٹے رہنے والے امیدواروں کے لیے بھارت میں ’دھرتی پکڑ‘ کی اصطلاح مستعمل ہے۔ اس نام سے ایک مزاحیہ ٹیلی ویژن سیریل بھی بنا تھا۔ کم از کم تین ’دھرتی پکڑ‘ بھارت میں کافی مشہور ہوئے ہیں۔ جنہوں نے وزیر اعظم سے لے کر ممکنہ صدر جمہوریہ تک کے خلاف مقابلہ کیا۔ ان میں کاکا جوگندرسنگھ، موہن لال اور ناگرمل بجوریا شامل ہیں

’1918 میں پاکستان کے گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے کاکا جوگندر سنگھ وہ پہلے شخص ہیں، جنہیں سب سے پہلے ’دھرتی پکڑ‘ کا خطاب ملا۔ انہوں نے ساڑھے تین سو سے زائد الیکشن میں حصہ لیا اور ہر ایک میں شکست سے دوچار ہوئے، لیکن اس کے باوجود 1998میں انتقال سے قبل تک ہار نہیں مانی

بریلی کے رہنے والے جوگندر سنگھ نے کشمیر سے کنیا کماری تک مجموعی طور پر چودہ ریاستوں سے آزاد امیدوار کے طورپر انتخابات میں حصہ لیا۔ وہ ہر مرتبہ اپنی ضمانت گنوانے کے بعد کہا کرتے تھے کہ ”یہ قومی خزانے میں ان کی طرف سے معمولی عطیہ ہے۔“

ان کا وعدہ تھا کہ الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد تمام غیر ملکی قرضے واپس کر دیں گے، اسکولوں میں کردار سازی کو فروغ دیں گے اور بھارتی معیشت کو بلندیوں تک پہنچانے کے ’بارٹر‘ سسٹم واپس لائیں گے

کاکا جوگندر سنگھ کی سب سے بڑی حصولیابی 1991 کا صدارتی الیکشن تھا، جب وہ 1135 ووٹ حاصل کر کے چوتھے نمبر پر آئے

ناگرمل بجوریا کا آبائی تعلق بھی پاکستان کے شہر لاہور سے ہے۔ وہ تقسیم ملک کے بعد بہار کے بھاگلپور ضلع میں جا بسے۔ انہوں نے 282 الیکشن میں حصہ لیا اور ہر ایک میں شکست سے دوچار ہوئے، بجوریا کا ماننا تھا ”میں جمہوریت میں ایک عام آدمی کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور اسے ثابت کرنا چاہتا ہوں۔ ہار جیت کی میری زندگی میں کوئی اہمیت نہیں ہے“

تیسرے مشہور ’دھرتی پکڑ‘ موہن لال کا تعلق بھوپال سے ہے۔

تمل ناڈو کے سالیم ضلعے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کے پدما راجن بھی دو سو سے زائد انتخابات میں شکست کا ریکارڈ رکھنے والوں میں شامل ہیں۔ انہوں نے 2019 میں کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کے خلاف الیکشن لڑا تھا

وہ سابق وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپئی، من موہن سنگھ، پی وی نرسمہا راو، سابق صدور پرنب مکھرجی، پرتبھا پاٹل، کے آر نارائنن اور اے پی جے عبدالکلام کے علاوہ کئی اہم ریاستی رہنماؤں کے خلاف بھی الیکشن لڑ چکے ہیں

پدماراجن مذاق میں کہتے ہیں، ”اگر میں الیکشن جیت گیا تو میرا تو ہارٹ فیل ہو جائے گا۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close