پندرہ سال سے مسلسل اسرائیل کے بدترین محاصرے کا شکار روئے زمین پر مظلوم ترین انسانی آبادی کا شہر غزہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے زیادہ عرصے سے اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سہ رہا ہے۔ فلسطینیوں کی اس نسل کشی میں اسرائیل کو نہ صرف تمام مظالم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں مغربی ممالک کی مکمل حمایت حاصل ہے بلکہ وہ امریکا کی کامل سرپرستی اور معاونت سے غزہ کی تئیس لاکھ سے زائد کی بے یار و مددگار انسانی آبادی کی نسل کشی کا سلسلہ انتہائی سفاکی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔
دوسری طرف غزہ کے مظلومین و محصورین کا حال یہ ہے کہ دنیا خاموشی سے ان کے بچوں کو بارود سے اڑتا ہوا دیکھ رہی ہے۔ یہاں تک کہ وہ مسلم ممالک نے بھی انہیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ جس ایران، ترکیہ اور حزب اللہ کی طرف نگاہیں اٹھتی تھیں اور اہل غزہ کو ادنٰی ترین درجے میں بھی جن سے کچھ کر گزرنے کی امید تھی، انہوں نے بھی عملاً اسرائیل پر محض لفظی گولا باری جاری رکھی ہوئی ہے
یہ تلخ حقیقت ہے کہ بشمول عرب ملکوں کے اسلامی دنیا کے تمام ممالک مذمتی بیانات اور زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھے۔ ترکیہ، ایران کا حال بھی مختلف نہیں رہا۔ ایرانی حمایت یافتہ عسکری تنظیم حزب اللہ، جس کے مقصدِ قیام کے حوالے سے بظاہر ’اسرائیل کی تباہی‘ اور القدس کی آزادی کا دعویٰ کیا جاتا ہے، اس بار بے حمیتی کی بارش میں ان دعووں کے کچے رنگ بھی اتر گئے ہیں
فلسطین کی مقاومت و آزادی کی علمبردار حماس کے ساتھ سب سے زیادہ قربت کی دعوے داری کی وجہ سے فلسطین اور اس سے باہر پوری دنیا حزب اللہ کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔ سات اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ شروع ہونے کے بعد امید تھی کہ شمال مغرب میں حزب اللہ اسرائیل کو کم از کم اس حد تک انگیج رکھے گی کہ اسے دو محاذوں پر مشکل چیلنج درپیش ہوتا، مگر حزب اللہ تین نومبر تک خاموش بیٹھی رہی۔ تین نومبر بروز جمعہ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کے خطاب کی گونج سنائی دی تو ایک بار پھر دنیا کے کان کھڑے ہوگئے، امید تھی حسن نصر اللہ شاید فیصلہ کن معرکے کا اعلان کریں گے مگر ان کے خطاب سے یہی برآمد ہوا کہ حماس نے یہ جنگ ہماری مشاورت کے بغیر چھیڑی ہے
بیروت میں قائم تھنک ٹینک کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر سے تعلق رکھنے والے مشرقِ وسطی کے ماہر مہند حاج علی کا کہنا ہے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے نے مزاحمتی محور کے ارکان کے لیے اپنے سے کئی گنا طاقت ور حریف کے خلاف آئندہ لائحۂ عمل کے انتخاب سے متعلق فیصلہ مشکل میں ڈال دیا ہے
اس سارے منظر نامے میں اب تک کی سب سے بڑی پیش رفت یمن کی تحریک انصاراللہ کی جانب سے دیکھنے میں آئی جس نے ایک اسرائیلی بحری جہاز قبضے میں لیا۔ انصاراللہ کے ترجمان محمد عبدالسلام نے کہا کہ ہم نے آپریشن کرتے ہوئے اسرائيلی بحری جہاز کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری مسلح افواج غزہ کی استقامت کی حمایت اور صیہونی حکومت کے خلاف جنگ میں سنجیدہ ہیں۔ عبدالسلام نے صراحت کے ساتھ کہا کہ جھڑپوں کا دائرہ نہ پھیلنے کا انحصار غزہ پٹی کے خلاف غاصب اسرائیل کی جارحیت بند ہونے پر ہے
یمن کی تحریک انصار اللہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ دنیا کے ہر آزاد انسان پر واجب ہے کہ وہ غزہ کے خلاف اسرائيلی جارحیت رکوانے کے لئے اقدام کرے کیونکہ ایسی دنیا میں مذمتی بیانات کا کوئی فائدہ نہیں ہے، جو صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے
واضح رہے کہ یمن کی بحریہ نے بحیرۂ احمر میں ایک اسرائیلی بحری جہاز کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ اس پر باون افراد سوار تھے جن کو قید کر لیا گيا ہے۔ المیادین نے رپورٹ دی ہے کہ اس بحری جہاز کے عملے اور اس پر سوار تمام افراد سے تفتیش کی جا رہی ہے تاکہ ان کی شہریت معلوم کی جا سکے
ادہر اسرائیل نے حماس کے خاتمے کو اپنی جوابی کارروائیوں کا ہدف قرار دیا ہے۔ اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں چودہ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور غزہ کی پٹی پر حکومت کرنے والی حماس اس وقت بقا کی جنگ لڑ رہی ہے
سات اکتوبر کو حماس کے عسکری کمانڈر محمد ضیف نے اپنے بیان میں مزاحمتی محور کے تمام اتحادیوں سے مدد کی اپیل کی تھی۔ اپنے آڈیو میسیج میں انہوں نے مسلم ’مزاحمتی‘ گروپس کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ یہ وہ دن ہے کہ آپ کو اپنے فلسطینی بھائیوں سے مل جانا چاہیے
ماہرین کے مطابق مطلوبہ مدد اور تعاون نہ ملنے پر حماس کی قیادت کی جانب سے بے چینی کے آثار بھی نمایاں ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ 16 اکتوبر کو ایک انٹرویو میں حماس کے سینئر رہنما خالد مشعل نے حزب اللہ کی کارروائیوں کا شکریہ ادا کیا تھا تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’’جنگ کے لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
مزاحمتی محور کہلانے والے اتحاد میں حزب اللہ سب سے طاقت ور گروپ ہے۔ اس گروپ کے پاس ایک لاکھ جنگجو ہیں۔ گزشتہ ماہ حماس کے حملے کے بعد سے حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان کچھ جھڑپیں تو ہوئی ہیں تاہم حزب اللہ نے بھی اسرائیل کے ساتھ تاحال براہِ راست تصادم سے گریز کیا ہے
مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے ایک سینیئر فیلو فراس مکسد کا کہنا ہے ”اب یہ بالکل واضح ہے کہ حزب اللہ اور ایران دونوں کی ترجیح ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ براہِ راست تصادم سے گریز کریں۔ وہ اس کے بجائے ایسا انتظام کر رہے ہیں، جسے ’گرے زون وارفیئر‘ کہا جا سکتا ہے“
یعنی جنگ تو نہیں، محض جنگ کا تاثر! اسرائیل کے خلاف لفظی گولہ باری۔۔ اور مسلم دنیا کی واہ واہ سمیٹنا اور عملی طور پر کچھ بھی نہیں
ایران کی اس پالیسی کے حوالے سے فراس مکسد کہتے ہیں ”اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ حزب اللہ ایران کی واحد سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے، جو اس نے اپنی سرحدوں سے باہر کی ہے۔ حزب اللہ ایرانی حکومت اور اس کے جوہری پروگرام کے لیے دفاع کی پہلی لائن ہے اور وہ حماس کو بچانے کے لیے اسے ضائع نہیں کرے گا“
جیسا کہ حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے کہا ہے کہ ’تمام آپشن کھلے ہیں‘ تاہم انہوں نے جنگ کا اعلان نہیں کیا۔ فراس مکسد سمجھتے ہیں کہ اس (اعلان) سے متعلقہ فریقوں کی طرف سے علاقائی کشیدگی سے بچنے کے لیے واضح ترجیح کی نشاندہی ہوتی ہے
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک لبنانی سیاسی تجزیہ کار نے بتایا ”امریکی، ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے جنگ نہیں چاہتے خاص طور پر دوبارہ انتخابات کے سال کے دوران۔ خلیجی ریاستوں کی توجہ اقتصادی ترقی اور تیل کی قیمتوں پر ہے اور اس لیے وہ (جنگ) نہیں چاہتے۔ نہ ایران اور نہ ہی اس کے پراکسیز“
اس تاثر کو تقویت دیتے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ امیر عبداللہ نے کئی بار عوامی سطح پر کہا ہے کہ ایران نہیں چاہتا کہ اسرائیل اور حماس کی جنگ پھیلے
دوسری جانب بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق حماس کے کچھ ارکان نے انکشاف کیا کہ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ کو نومبر کے اوائل میں تہران میں ملاقات کرتے ہوئے واضح پیغام بھیجا تھا کہ وہ حماس کی جنگ میں شرکت نہیں کریں گے کیونکہ حماس نے ایران کو 7 اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے حملے کے بارے میں مطلع نہیں کیا تھا
رپورٹ کے مطابق علی خامنہ ای نے اسماعیل ھنیہ پر زور دیا کہ وہ فلسطینی تحریک میں ان آوازوں کو خاموش کرائیں، جو کھلے عام ایران اور اس کے لبنانی اتحادی حزب اللہ گروپ سے اسرائیل کے خلاف جنگ میں براہ راست شامل ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں
دوسری جانب حزب اللہ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ حماس کی طرف سے گزشتہ ماہ شروع کیے گئے حملے سے وہ بھی حیران تھے اور سرحد کے قریبی علاقوں میں بھی حزب اللہ کے جنجگو اس حملے کے لیے تیار نہیں تھے۔ حزب اللہ کے ایک رہنما نے کہا لیکن اب تو ہم جنگ کے لیے بیدار ہیں لیکن حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر اچانک نے ان سمیت دیگر شراکت داروں کو بھی اپنے سے بہت بڑی اور طاقتور فوج کے سامنے لا کھڑا کیا ہے
یاد رہے غزہ کی پٹی میں اسرائیل پر حماس کے اچانک حملے کے بعد عراق، شام اور لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ کئی دھڑوں اور گروہوں کی طرف سے اسرائیل کو دھمکیاں دی گئیں۔ یمن میں حوثی باغیوں نے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون بھی داغے، حزب اللہ کی جانب سے بھی کارروائیاں کی گئیں۔ لیکن اب ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے۔۔ بس کبھی کبھار کوئی ایک بھڑک سنائی دیتی ہے
حزب اللہ سے توقعات کی بات کی جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس تنظیم کے پاس واقعی اتنی طاقت ہے کہ وہ اسرائیل کو ٹف ٹائم دے سکے۔ اس کا جواب ہے جی ہاں۔ آئیے ہم آپ کو حزب اللہ کی فوجی قوت کا ایک مختصر جائزہ بتاتے ہیں۔
سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے مطابق حزب اللہ کے پاس 130,000 راکٹ اور میزائل ہیں۔
ان ہتھیاروں میں سے زیادہ تر چھوٹے ہیں اور یہ کسی شخص کے لیے قابل نقل و حمل ہیں، یہ زمین سے زمین پر مار کرنے والے ان گائيڈڈ راکٹ ہیں لیکن ان میں طیارہ شکن اور جہاز شکن میزائلوں کے ساتھ ساتھ گائیڈڈ میزائل بھی شامل ہیں جو اسرائیل کے اندر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ ہتھیار حماس کے پاس موجود ہتھیاروں سے زیادہ جدید ہیں۔ جہاں تک افرادی قوت کی بات ہے تو حزب اللہ کے ایک رہنما نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس 100,000 جنگجو ہیں جو شام میں جنگیں لڑنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ یوں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حماس کے مقابلے میں حزب اللہ کے پاس بڑی فوجی قوت ہے، جس میں نمایاں چیز اینٹی ایئرکرافٹ گنیں ہیں جن کی عدم موجودگی حماس کی فوجی طاقت کا سب سے کمزور پہلو ہے۔
اس کے علاوہ حزب اللہ کے کریڈٹ پر 2006 کی جنگ میں اسرائیل کو ٹف ٹائم دینے کا تجربہ بھی ہے۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ حزب اللہ اگر دل سے چاہے تو اس کیلئے اسرائیل کو سرنڈر کرنے پر مجبور کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے، مگر وہ کیوں خاموش ہے اس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ رموز مملکتِ خویش خسروان دانند!
یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ حزب اللہ نے اسرائیل اور امریکا کے ساتھ سودا بازی کر لی ہے، ہاں مگر انتہائی تاسف سے یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ حزب اللہ، ایران اور ترکیہ بھی اپنی خالی بھڑکوں کے ساتھ خود کو عرب اور باقی مسلم حکمرانوں جتنا ہی بے حمیت ثابت کر دیا ہے۔