لوڈشیڈنگ: لِفٹ میں پھنسنے کے واقعات بڑھنے لگے، ایسا ہو تو کیا کریں؟

ویب ڈیسک

ملک میں لوڈشیڈنگ کا بھوت ایک بار پھر قابو سے باہر ہے، یوں تو اس سے زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے لیکن بجلی کی بندش سے لفٹ میں لوگوں کے پھنس جانے کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے

پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک کمرشل پلازے کی برقی لفٹ میں بدھ کے روز لفٹ اچانک بند ہونے سے حفیظ نامی شخص جان کی بازی ہار گیا

اسی طرح ایک روز قبل عمر ہسپتال کی لفٹ اچانک بند ہونے سے دل کی مریضہ ایک خاتون لفٹ میں پھنس گئیں جن کو بعدازاں نکال لیا گیا

ادہر بجلی کے بار بار آنے جانے کی وجہ سے میو ہسپتال کی آٹھ لفٹوں کو انتظامیہ نے بند کردیا ہے

میو ہسپتال کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بجلی کی بندش کے باعث مریضوں اور ان کے لواحقین کے لفٹ میں پھنسنے کے واقعات رونما ہورہے تھے، اسی لیے عارضی طور پر لفٹوں کو بند کیا گیا ہے

ماہرین کے مطابق بجلی بندش سے لفٹ میں پھنس جانے والے افراد کی تعداد میں اضافے کی ایک وجہ متبادل انتظام کا درست طور پر کام نہ کرنا بھی ہے

مکینیکل انجینئر محمد احسن سمجھتے ہیں کہ برقی لفٹ عام طور پر ایک محفوظ بندوبست ہوتا ہے۔ ’آج کل کی جدید لفٹ ڈیزائن ہی اس طرح کی جاتی ہے کہ اچانک بجلی بند ہونے کی صورت میں وہ قریبی فلور پر پہنچ جاتی ہے۔ ایک مختصر سا بیک اپ اس کے لفٹ کے مکینکل سسٹم کے ساتھ ہی نصب ہوتا ہے‘

انہوں نے بتایا کہ بلڈنگ رولز کے تحت جہاں بھی لفٹ لگی ہوتی ہے، وہاں بیک اپ بجلی کا بندوبست کرنا اس عمارت کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہوتی ہوتی

محمد احسن کا کہنا ہے ’عام طور پر اچانک بجلی بند ہونے کی صورت کی صورت میں لفٹ میں سوار لوگ گھبرا جاتے ہیں۔ اور لفٹ کے اندر لگے بٹن دبانا شروع کر دیتے ہیں۔ لفٹ کے اندر لگا سسٹم اس کو نئی کمانڈ سمجھ لیتا ہے اور اس کمانڈ کو پورا کرنے کے لیے اس کے پاس بیک اپ بجلی نہیں ہوتی تو لفٹ وہیں رک جاتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا ’اگر لوگ گھبرائیں نہیں تو جیسے ہی بجلی بند ہوتی ہے تو لفٹ ایک دفعہ بند ہو جاتی ہے پھر چند سیکنڈز کے بعد بیک اپ کی مدد سے خود کار طریقے سے قریبی منزل کے دروازے تک پہنچ جاتی ہے اور اس کا دروازہ بھی کھل جاتا ہے۔‘

لاہور پولیس کی جانب سے مئی میں ایمرجنسی کالز کا ریکارڈ جاری کیا گیا ہے، اس ریکارڈ کے مطابق بجلی کی بندش کے سبب لفٹس رک جانے پر کی جانے والی کالز کی تعداد ایک مہینے میں 112 رہی

البتہ پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہی متعلقہ عمارتوں کی انتظامیہ نے پھنسے ہوئے لوگوں کو باہر نکال لیا تھا

پولیس نے لاہور کے ایک کمرشل پلازے کی لفٹ میں ہلاک ہونے والے شخص سے متعلق چھان بین شروع کردی ہے۔ تاہم ابھی تک اس بات کا تعین نہیں کیا جا سکا کہ غفلت بلڈنگ انتظامیہ کی ہے یا بھی یہ ایک حادثہ تھا۔

لفٹ میں پھنس جانے کی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

اکثر افراد لفٹ سےخوف کھاتے ہیں . اس کی وجہ یہ ہے کہ یا تو انہیں اونچائی سے ڈر لگتا ہے یا کسی تنگ جگہ پر پھنس جانے خوف آتا ہے. بعض اوقات بجلی کی ترسیل منقطع ہونے یا کسی فنی خرابی کے سبب لفٹ راستے میں ہی رک جاتی ہے اور لوگ اس میں پھنس کر رہ جاتے ہیں

ایسی صورت میں فوراً ذہن میں زندگی اور موت کا خوف اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ اگر زیادہ دیر لفٹ میں پھنسے رہے تو آکسیجن کی کمی سے موت واقع ہو جائے گی، حالانکہ زیادہ تراموات گھبراہٹ، بےچینی اور خوف کے سبب ہوتی ہیں

ایسی صورت میں خود کو پرسکون رکھنے کی کوشش کریں. اگر آپ لفٹ میں پھنس جائیں تو پہلے گہری سانس لیں اور اپنے موبائل فون کی ٹارچ آن کر دیں، روشنی کا احساس گھبراہٹ کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے. اپنے موبائل کی بیٹری ضرور چیک کرلیں. اگر بیٹری کم ہو تو غیر ضروری لائٹ آن کرنے سے اجتناب کریں تاکہ موبائل پر مدد کے لیے رابطے کی خاطر آپ کے موبائل میں بیٹری موجود ہو

بہت سی لفٹوں میں واکی ٹاکی کی طرح کے فون لگے ہوتے ہیں، جن کا رابطہ ٹیکنیشن یا چوکیدار سے ہوتا ہے، اس پر رابطہ کرنے کی کوشش کریں، اگر یہ کارگر ثابت نہ ہو تو اپنے موبائل فون پر رابطہ کریں اور اپنی لوکیشن سے آگاہ کریں

اس دوران ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہ بیٹھے رہیں بلکہ حواس پر قابو رکھتے ہوئے اپنے جوتوں سے زور زور سے دروازہ پیٹیں، تاکہ چوکیدار یا قریب سے گزرنے والے افراد آپ کی جانب متوجہ ہوں

خود کو پر سکون رکھیں اور اپنے اوپر گھبراہٹ طاری ہونے سے بچائیں

لفٹ کے مختلف بٹن دبا کر چیک کریں تا کہ کسی بٹن کے جام ہونے سے اگر لفٹ رکی ہو تو دوبارہ چل پڑے

خاموش رہنے کے بجائے آپس میں گفتگو شروع کردیں. اگر اکیلے پھنسے ہوں تو اپنے دماغ کو مصروف کرنے کی کوشش کریں. اپنے کام کاج کے متعلق سوچیں یا اخبار یا رسائل دستیاب ہوں تو وہ پڑھنا شروع کردیں، البتہ موبائل فون پر گیم کھیلنے سے پرہیز کریں تاکہ بیٹری کو محفوظ رکھا جا سکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close