اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کے ایک محتاط تخمینے کے مطابق غزہ کی پٹی میں اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے کم از کم سترہ ہزار بچے تقریباً چار ماہ سے لاوارث یا اپنے والدین جُدا ہو گئے ہیں۔
فلسطینی علاقوں میں یونیسیف کے ترجمان جوناتھن کِرکس کا کہنا ہے کہ ”ہر بچے کے پاس کسی اپنے کو کھونے اور اور غم کی دل دہلا دینے والی کہانی ہے۔“
انہوں نے یروشلم سے وڈیو لنک کے ذریعے جینیوا میں ایک میڈیا بریفنگ میں بتایا ”یہ تعداد مجموعی طور پر بے گھر ہونے والی آبادی کے ایک فیصد کے برابر ہے۔“
جوناتھن کِرکس نے کہا کہ بچوں کے بارے میں یہ حقائق جاننا ’انتہائی مشکل‘ کام ثابت ہو رہا ہے، کیونکہ بعض اوقات انہیں ہسپتال لایا جاتا ہے جہاں وہ زخمی یا صدمے کی حالت میں ہوتے ہیں، اور وہ اپنے نام تک نہیں بتا سکتے۔
انہوں نے بتایا، ”میں اس ہفتے غزہ سے واپس آیا ہوں۔ میں نے بہت سے بچوں سے ملاقات کی، جن میں سے ہر ایک کے پاس سنانے کے لیے تباہ کن کہانی تھی۔۔ میں نے جن 12 بچوں سے ملاقات کی یا ان کا انٹرویو کیا، ان میں سے آدھے سے زیادہ نے اس جنگ میں اپنے خاندان کے ایک فرد کو کھو دیا تھا۔ تین نے اپنے والدین کو کھو دیا تھا، جن میں سے دو نے اپنی ماں اور اپنے والد دونوں کو کھو دیا تھا۔ ان میں سے ہر ایک کے پیچھے ایک بچہ ہے۔ جو اس بھیانک نئی حقیقت کو مان رہا ہے۔۔
”گیارہ سالہ رازان اپنے خاندان کے ساتھ اپنے چچا کے گھر میں تھی، جب جنگ کے پہلے ہفتوں میں اس پر بمباری کی گئی تھی۔ اس نے اپنے خاندان کے تقریباً تمام افراد کو کھو دیا تھا۔ اس کی ماں، باپ، بھائی اور دو بہنیں ماری گئی تھیں۔ رازان کی ٹانگ بھی زخمی ہوئی تھی۔ زخمی ہونے کے بعد اسے کاٹنا پڑا۔ سرجری کے بعد، اس کے زخم میں انفیکشن ہو گیا۔ اب اس کی خالہ اور چچا ان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں، جن میں سے سبھی کو رفح منتقل کر دیا گیا ہے۔“
رازان، زیادہ تر بچوں کی طرح جو اس طرح کے تکلیف دہ تجربے سے گزرے تھے، اب بھی صدمے میں ہے۔ جب بھی وہ واقعات کو یاد کرتی ہے، وہ آنسوؤں میں بہہ جاتی ہے اور تھک جاتی ہے۔ رزان کی صورت حال اس لیے بھی خاصی پریشان کن ہے کیونکہ اس کی نقل و حرکت انتہائی محدود اور خصوصی ہے۔ مدد اور بحالی کی خدمات دستیاب نہیں ہیں۔“
”ایک ایسے مرکز میں جہاں غیر ساتھی بچوں کی میزبانی کی جاتی ہے اور ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے، میں نے 6 اور 4 سال کی عمر کے دو بہت چھوٹے بچوں کو بھی دیکھا۔ وہ کزن ہیں اور دسمبر کے پہلے نصف میں ان کے تمام متعلقہ خاندانوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ چار سالہ بچی – خاص طور پر – اب بھی بہت صدمے میں ہے۔“
”میں ان بچوں سے رفح میں ملا۔ ہمیں خدشہ ہے کہ جن بچوں نے اپنے والدین کو کھو دیا ہے، ان کی حالت شمالی اور غزہ کی پٹی کے مرکز میں بہت زیادہ خراب ہے۔“
انہوں نے کہا ”تنازعات کے دوران رشتہ داروں کے لیے لاوارث بچوں کی دیکھ بھال کرنا عام بات تھی۔ تاہم غزہ میں خوراک، پانی یا پناہ کی کمی کی وجہ سے رشتہ دار خود پریشان ہیں اور انہیں فوری طور پر دوسرے بچے کی دیکھ بھال کرنے کے لیے چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ وہ خود اپنے بچوں اور خاندان کی دیکھ بھال کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔“
واضح رہے کہ یونیسیف کی اصطلاح میں جُدا ہونے والے بچے وہ ہوتے ہیں، جن کے پاس والدین نہیں ہوتے یا دیگر رشتہ داروں کے بغیر ہوتے ہیں
انہوں نے کہا ”جنگ سے غزہ کے بچوں کی ذہنی صحت شدید متاثر ہو رہی ہے۔ ان بچوں کو مسلسل بے چینی، بھوک کی کمی اور سونے میں مشکل پیش آ رہی ہے اور جب بھی وہ بم دھماکوں کی آواز سنتے ہیں تو وہ چیختے ہیں یا ان پر گھبراہٹ طاری ہو جاتی ہے۔“
خیال رہے کہ رہے کہ اسرائیل کی جارحیت شروع ہونے سے قبل یونیسیف نے اندازہ لگایا تھا کہ غزہ کی پٹی میں پانچ لاکھ سے زیادہ بچوں کو ذہنی صحت اور نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے۔
جوناتھن کِرکس نے کہا کہ یونیسف کے خیال میں اب تقریباً تمام بچوں کو اس طرح کی مدد کی ضرورت ہے۔ جن کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے۔
یونیسیف اور اس کے شراکت داروں نے اسرائیل کی جارحیت کے آغاز سے اب تک 40,000 سے زیادہ بچوں اور 10,000 دیکھ بھال کرنے والوں کو ذہنی صحت اور نفسیاتی مدد فراہم کی ہے، لیکن جب ہم ضروریات کے پیمانے کو دیکھتے ہیں تو یہ کافی نہیں ہے
جوناتھن کِرکس نے کہا ”اس سے پہلے کہ میں اپنی بات ختم کروں، میں صرف ایک بات کا اضافہ کرنا چاہوں گا۔ ان بچوں کا اس تنازعہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ پھر بھی وہ ایسے مصائب کا شکار ہیں جن سے کسی بچے کو کبھی شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ایک بھی بچہ نہیں۔۔ چاہے اس جا تعلق کسی بھی مذہب، قومیت، زبان، نسل سے ہو۔۔ کسی بھی بچے کو اس تشدد کی سطح کا سامنا نہیں کرنا چاہیے، جس کا ہم نے اب تک سے مشاہدہ کیا ہے۔“
انہوں نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا تاکہ یونیسیف ایسے بچوں کی صحیح گنتی کر سکے، جن کے پاس کوئی اپنا نہیں یا وہ جدا ہوئے ہیں، ان کے رشتہ داروں کا پتہ لگا سکے اور ان کو ذہنی صحت کی مدد فراہم کر سکے۔
اس سے قبل بھی امدادی ادارے کہہ چکے ہیں کہ غزہ کے بچوں کو ناقابلِ تصور شرح سے قتل کیا جا رہا ہے۔ جو بچ جاتے ہیں، انہیں ایک بھیانک مستقبل کا سامنا کرنا پڑتا ہے
اسرائیلی جارحیت کے ابتدائی عرصے میں امدادی گروپوں کا کہنا تھا کہ غزہ میں ہلاک ہونے والوں میں سے تقریباً نصف بچے تھے۔ ڈاکٹروں کے مطابق فضائی حملوں میں زندہ بچ جانے والوں کا علاج مناسب بے ہوشی کے بغیر کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ بچے نئے یتیم ہو کر ہسپتال پہنچ رہے ہیں۔
یہ صورت حال اب پہلے سے بھی بدتر ہو چکی ہے ۔ جو لوگ زندہ بچے ہیں، انہیں مستقبل میں جسمانی اور دماغی صحت کے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،
تھرٹل کے مطابق ان بچوں کے لیے جو زندہ رہیں گے، صحت یابی کے امکانات کے ساتھ آگے کی مشکل زندگی ’انتہائی محدود‘ ہے۔
تھرٹل نے کہا، ”جب دماغ ترقی کر رہا ہوتا ہے اور تنازعات کی سطح کے صدمے سے دوچار ہوتا ہے، تو یہ نقصان بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے اور حقیقت میں یہ ایسی چیز نہیں ہے، جس سے لوگ آسانی سے واپس آسکیں، یہاں تک کہ ایک اعلٰی کام کرنے والے نظام میں بھی جہاں مناسب دماغی صحت کی معاونت ہو۔ ان بچوں کے پاس وہ نہیں ہے اور جو اب ان کے پاس ہے وہ تباہ ہو چکا ہے۔ اس لیے صحت یاب ہونے کا امکان انتہائی محدود ہے۔“
واضح رہے کہ اسرائیل نے حماس کے اقتدار سنبھالنے کے بعد غزہ پر سولہ سال سے فضائی، سمندری اور زمینی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ اسرائیل اور مصر نے جنوبی سرحد پر ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ حماس ایک فلسطینی عسکری اور سیاسی گروپ ہے جس نے 2006 میں وہاں قانون سازی کے انتخابات جیتنے کے بعد سے غزہ کی پٹی میں اقتدار حاصل کیا ہے۔