اسپیشل اولمپک گیمز میں چار میڈل جیتنے والے سیف اللہ سولنگی: ”امی نے کہا تھا میں سب کچھ کر سکتا ہوں“

ویب ڈیسک

جرمنی کے دارالحکومت برلن میں منعقد ہونے والے اسپیشل اولمپک گیمز کے پاور لفٹنگ مقابلوں میں دو گولڈ، ایک چاندی اور ایک کانسی کا تمغہ حاصل کرنے والے پاکستانی کھلاڑی سیف اللہ سولنگی کا کہنا ہے کہ امی ابو نے کہا تھا کہ اگر تم چاہو تو سب کچھ کر سکتے ہو، تمہیں کوئی نہیں ہرا سکتا

سیف اللہ سولنگی بتاتے ہیں ”جب مقابلے کے دوران میرا نمبر آیا تو بس ایک ہی سوچ تھی کہ میں نے جیتنا ہے اور ہر حال میں جیتنا ہے۔۔ میں خود اعتمادی سے آگے بڑھا اور مقابلہ جیت کر باہر آیا تو سب مجھے مبارک باد دے رہے تھے کہ جتنا وزن میں نے اٹھایا، اتنا اٹھانا اب کسی اور کے بس کی بات نہیں“

واضح رہے کہ سیف اللہ سولنگی نے بیک سکواٹ میں نوے کلو وزن اٹھا کر گولڈ میڈل حاصل کیا، ڈیڈ لفٹ میں ایک سو پندرہ کلوگرام وزن اٹھا کر طلائی تمغہ جیتا اور پھر کمبائنڈ کیٹگری میں دو سو پینتالیس کلوگرام وزن اٹھا کر چاندی کا تمغہ حاصل کیا

سیف اللہ سولنگی سندھ کے دارالحکومت کراچی میں رہتے ہیں، ان کا آبائی ضلع دادو ہے

انہوں نے کامیڈل پہنائے جانے کے جذباتی لمحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ”میڈل پہنتے ہوئے میرے آنسو خوشی کے آنسو تھے۔ مجھے وہاں پر سب نے گلے لگایا، مبارک باد دی۔ امی، ابو اور میری بہنیں خوش تھیں۔ میں نے یہ مقابلے جیتنے کے لیے بہت محنت کی تھی۔ نہ دن دیکھا، نہ رات دیکھی“

سیف اللہ سولنگی مجموعی طور پر چار میڈل حاصل کرکے بہت خوش ہیں۔ انھوں نے بعد میں اپنے ساتھوں کے ساتھ مل کر فتح کا جشن بھی منایا۔ وہ کہتے ہیں ”میں نے پہلی مرتبہ بین الاقوامی مقابلوں میں میڈل جیتے ہیں لیکن اب میری نظریں مستقبل میں ہونے والے مقابلوں پر ہیں۔ اس کے بعد کئی مقابلوں میں میڈل جتینے کی کوشش کروں گا۔ وکٹری اسٹینڈ پر کھڑے ہونے کا اپنا ہی مزہ ہے“

سیف اللہ کو کھیلوں سے رغبت ہے۔ سائیکلنگ، تیراکی۔۔۔ غرض انھوں نے بہت سے کھیلوں میں حصہ لیا، لیکن وہ کہتے ہیں کہ انہیں مزہ پاور لفٹنگ ہی میں آیا کیونکہ یہ طاقت اور تکینک کا کھیل ہے۔ اس میں ہر کھلاڑی اپنی طاقت اور ہنر دکھاتا ہے

دلچسپ بات یہ ہے کہ سیف اللہ سولنگی نے صرف چند سال قبل ہی پاور لفٹنگ شروع کی تھی، اس سوال پر کہ اتنی جلدی یہ سب کیسے سیکھا؟ انہوں نے کہا”میں نے جب پاور لفٹنگ شروع کی اور پاکستان میں مقابلے جیتنا شروع کیے تو میرے ہنر کو سراہا گیا۔ میرے کوچ اور استادوں نے کہنا شروع کر دیا کہ میں اسپیشل اولپمکس میں بھی میڈل جیت سکتا ہوں۔ یہ بات میرے دل و دماغ میں بیٹھ گئی۔ بس اس کے بعد میں نے دن رات محنت کی“

لیکن سیف کی محنت اور لگن کے ساتھ ساتھ گھر والوں اور ساتھیوں کی حوصلہ افزائی نے بھی ان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ بتاتے ہیں ”جب مقابلے کے دوران لفٹنگ کے لیے میرا نام پکارا گیا تو اس وقت مجھے لگا کہ میرے کوچ اور میرے ساتھیوں کو مجھ سے بہت امیدیں ہیں۔ مجھے لگا کہ میرے ماں باپ، بہنیں اور خاندان والے میری طرف دیکھ رہے ہیں“

مقابلہ سخت تھا لیکن سیف کو اپنی صلاحیت اور ٹریننگ پر اعتماد تھا۔ وہ بتاتے ہیں ”مجھے پتا چل گیا تھا کہ کتنا وزن اٹھانا ہے تو فتح مل سکتی ہے۔ مجھے لگا کہ میں یہ کر سکتا ہوں۔ میں خود اعتمادی سے آگے بڑھا اور پھر پورے اعتماد کے ساتھ مقابلہ جیت کر باہر آیا تو سب مجھے مبارک باد دے رہے تھے کہ جتنا وزن میں نے اٹھایا، اتنا اٹھانا اب کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی“

سیف اللہ سولنگی کے والد سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان کی تربیت اور دیکھ بھال مکمل طور پر ان کی والدہ زاہدہ سفیر نے کی۔ زاہدہ سفیر تین بچوں کی ماں ہیں۔ سیف اللہ کے علاوہ ان کی دو بیٹیاں ہیں اور سیف اللہ کا نمبر دوسرا تھا

وہ بتاتی ہیں ”سیف کے بچپن میں ہمیں علم نہیں ہوا کہ وہ اسپیشل ہے۔ یہ جب بچپن میں بولتا نہیں تھا تو سب کہتے کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، اسکول جائے گا تو بولنے لگے گا۔ لیکن اسکول شروع ہوا تو بھی سیف چپ ہی رہا۔ یہ کوئی دوست نہیں بناتا تھا، بس الگ تھلگ سا رہتا تھا“

زاہدہ سفیر نے بتایا ”اس کے اسکول کے اساتذہ اور پرنسپل نے ہمیں کہا کہ سیف عام بچوں کے اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کر سکے گا، اس کو اسپیشل بچوں کے اسکول میں داخل کروایا جائے۔ وہ اس کی تعلیم و تربیت کریں گے تو یہ بہتر ہو جائے گا اور بولنا شروع کر دے گا“

پھر زاہدہ سفیر نے سیف کو نمائش چورنگی کے اسکول ایس آر سی ایس میں داخل کروایا۔ یہ ایک مشکل مرحلہ تھا

زاہدہ بتاتی ہیں ”شروع میں پابندی تھی کہ مجھے اسکول ہی میں موجود رہنا ہوگا۔ میں صبح آٹھ بجے جاتی اور دو بجے تک اسکول ہی میں رہتی تھی۔ کافی عرصے تک اس طرح چلتا رہا۔ کچھ عرصے کے بعد انہوں نے کہا کہ اب ضرورت نہیں رہی مگر مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ میرے بیٹے کو میری ضرورت ہے جس کے بعد میں نے اس کو تنہا نہیں چھوڑا“

زاہدہ سفیر کہتی ہیں ”میں نے اس کو گھر سے کبھی باہر نہیں نکلنے دیا۔ اس کو گھر میں مصروف رکھنے کا انتظام کیا۔ اس کو خود پارک لے کر جاتی تھی۔ میری زندگی کا مقصد سیف کی ایسی تربیت کرنا تھا کہ وہ معاشرے کے لیے کار آمد بنے“ ان کی اس توجہ کے تنائج جلد ہی نظر آنا شروع ہو گئے

وہ بتاتی ہیں ”سیف نے اسکول میں بہت کچھ سیکھا۔ اسکول والوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی، جس کے بعد اس نے کھیلوں میں بہتر سے بہتر کارگردگی دکھانا شروع کی۔ مجھے بھی لگا کہ یہ اس کے لیے بہت اچھا ہے اسی لیے ہم نے اس کو ہر ممکن سہولت فراہم کی۔ خاندان نے بھی ان کی حوصلہ افزائی کی۔ ہم نے سیف اللہ کو سمجھایا کہ تم بہت باصلاحیت ہو۔ جب وہ ملکی سطح پر یا مقامی سطح پر بھی کھیلوں میں کوئی مقابلہ جیت لیتا تو ہم سب خاندان والے اس کو انعام دیتے تھے۔“

اور پھر وہ دن بھی آ گیا، جب سیف اللہ کو اسپیشل اولپمک مقابلوں کے لیے منتخب کیا گیا

زادہ بتاتی ہیں ”اسپیشل اولمپک کے لیے اس کا انتخاب ہوا تو اس کے والد اس کو روز فون کرکے کہتے کہ تم نے یہ مقابلہ جیتنا ہوگا۔ میں بھی کہتی کہ جب تم جیتو گے تو ہم بہت جشن منائیں گے۔ وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ میں جیت کر ہی واپس آؤں گا، سر دھڑ کی بازی لگا دوں گا۔ اب وہ بہت خوش ہے اور ہمیں بھی لگتا ہے کہ ہماری اور اس کے استادوں کی محنت رنگ لے آئی ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close