برِصغیر پاک و ہند میں افریقی نژاد شیدی برادری

شبیر حسین بلوچ

اگر تاریخ کے اوراق کو دیکھا جائے تو قدیم زمانے میں افریقی افراد کو، جس خطے سے ان کا تعلق ہے، اسی نام سے پکارا جاتا تھا، مثال کے طور پر شیہان ڈی سلوہ کی یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر کے لیے کی گئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایتھوپیا سے تعلق رکھنے والوں کو حبشی، بحیرہ مکران سے تعلق رکھنے والوں کو مکرانی، زنجیبار سے تعلق رکھنے والوں کو زنجی، یہاں تک کے کافر اور بابورا بھی کہا گیا ہے اور ان تمام ناموں میں ایک نمایاں ترین نام شیدی سب سے مقبول ترین ہے۔

اٹھارہویں صدی میں عمانی سلطنت میں یمن، خلیج عمان اور ساحلِ مکران شامل تھے، اس دور میں سلطنت شجرکاری، ہاتھی دانت کی خرید و فروخت کرتی تھی جس کو یقینی بنانے کے لیے غلاموں کی خرید و فروخت کے مطالبات بھی دن بہ دن بڑھ رہے تھے۔ اسی دوران، تقریباً سنہ 1851 کے سمندری ریکارڈ میں ’شیدی‘ لفظ کا استعمال ہونا شروع ہوا، جو عمانی سلطنت سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے استعمال ہوتا تھا، اسی طرح برٹش راج کے دور میں بھی بمبئی میں ملکہ کے لیے بحری جہازوں پر کام کرنے والے لڑکوں کو ’شیدی بوائز‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔

اسی بارے میں ڈی سلوا لکھتے ہیں کہ مغربی انڈیا میں شیدی کا لفظ دراصل عزت یا خطاب کے طور پر ان افراد کو دیا جاتا تھا، جو دکن کے بادشاہوں کے لیے بڑے عہدوں پر فائز تھے، جبکہ اسی دوران مہاراشٹرا اور گجرات میں بحری جہازوں پر کام کرنے والے افریقی نژاد افراد کو بھی شیدی پکارا جاتا تھا، جبکہ باقی کئی ماہرین اور لکھنے والے بتاتے ہیں کہ شیدی لفظ دراصل عربی زبان کے لفظ سید سے لیا گیا ہے، جس میں اس کے معنی استاد یا آقا کے ہیں۔ پاکستان میں افریقی نژاد افراد کو مکرانی، شیدی، سیاہ، غلام، ڈاڈا اور زنجیباری پکارا جاتا ہے۔

تاریخی پس منظر

’شیدی سرسید احمد خاں‘ کہلانے والے محمد صدیق مسافر کی سندھی زبان میں لکھی ہوئی کتاب ’غلامی اور آزادی کے عبرتناک نظارے‘ کو پاکستان کے زیادہ تر افریقی نژاد لوگ اپنی تاریخ کا مستند حوالہ مانتے ہیں، اس کمیونٹی کی بات کرتے ہوئے زیادہ تر لوگ اسی کتاب کا حوالہ بھی دیتے ہیں، اس کتاب میں جہاں ایک طرف محمد صدیق مسافر نے اپنے لوگوں کی عبرتناک غلامی کے دنوں کا احوال لکھا ہے، وہیں انھوں نے برادری کے ہی ایسے لوگ گنوائے ہیں، جو آزادی کی جنگ میں پیش پیش تھے۔

وہ لکھتے ہیں کہ سیاہ فام لوگوں کی غلامی کی تاریخ فرعون کے وقت سے شروع ہوتی ہے، جس کی تصدیق قدیمی مصری فن میں بھی واضح ہے۔ افریقہ کی مشرق وسطی سے قربت کے باعث زیادہ تر لوگ عربستان اور وہاں سے دیگر ملکوں میں غلام کے طور پر لائے گئے، مصری اور عرب لوگوں کو شیدی افراد بطور غلام رکھنے کا دوہرا فائدہ ہوتا تھا، ایک طرف تو ان کو جانور خریدنے سے منافع ملتا تھا، وہیں اس جانور پر خرچ کی جانے والی رقم کا بڑا حصہ سیاہ فام شخص کو بیچنے سے بھی وصول ہو جاتا تھا، اس لئے اس خطے میں ان افریقی غلاموں کی بڑی مانگ تھی۔ اس کا ایک اور اضافی فائدہ یہ بھی تھا کہ ان کو میدان جنگ میں بطور سپاہی بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

ساحلی علاقوں کے ذریعے غلاموں کی تجارت کا سلسلہ صدیوں سے جاری تھا، تجارت دو مراحل میں ہوتی تھی، اس کا ایک عبرتناک مرحلہ آٹھویں سے نویں صدی میں دیکھا گیا، جب سیاہ فام افراد فوجی غلامی کا شکار ہوئے، فوجی غلامی کے تحت جنگ لڑنے کے لیے مقامی لوگوں کی ضرورت ہوتی تھی اور دستے کافی نہیں تھے تو اس مقصد کے لیے سیاہ فام افراد کو مختلف علاقوں جیسے کہ افریقہ، ترکی اور دیگر ممالک سے جنگ لڑنے والے ممالک بھیجا جاتا تھا، ایتھوپیا (حبشہ) سے غلام بنا کر لائے جانے والے سیاہ فام افراد اپنی طاقت اور بہادری کے لیے مشہور تھے۔ قدیم زمانے یعنی دسویں، گیارہویں اور بارہویں صدی تک افریقہ ترک اور جارجیا سے غلاموں کو لایا جاتا رہا۔ محققین کے مطابق ایتھوپین جنگجو عربستان کے جنوب میں رہ گئے اور وہیں کے مقامی علاقوں میں ضم ہو گئے جبکہ عربستان اور مشرق وسطیٰ کے ساحلی راستوں کے ذریعے بہت سے افراد ایشیا میں لائے گئے، جس کے بعد بہت سے جنوبی ایشیائی ممالک میں رہ گئے اور اسی ماحول میں خود کو ڈھال لیا۔

جنوبی ایشیا میں افریقی نژاد افراد کی ایک بہت بڑی آبادی سندھ کے شہروں حیدرآباد اور ٹھٹہ میں موجود ہے، (اس علاقے کو ’لاڑ‘ بھی کہا جاتا ہے اور اس کا شمار سندھ کے زیریں علاقوں میں ہوتا ہے۔ یعنی وہ علاقے جو سندھ کے شہر کراچی سے نزدیک ہیں) انہیں زیادہ تر شیدی کے عرف عام سے جانا جاتا ہے۔ جبکہ اسی برادری سے تعلق رکھنے والے بھی خود کو شیدی کہتے ہیں یا نام کے ساتھ شیدی لگاتے ہیں، تاہم ایسا سب نہیں کرتے۔ سیاہ اور غلام کا لفظ زیادہ تر بلوچستان میں پکارا جاتا ہے، جو ایک توہین آمیز لفظ ہونے کی وجہ سے افریقی نژاد افراد اپنے لیے استعمال نہیں کرتے، جبکہ کافر کا لفظ قدیم زمانے میں افریقی نژاد افراد کو کسی خاص مذہبی طبقے سے تعلق نہ رکھنے کے باعث دیا گیا، پاکستان میں بھی اس طرح کا تاثر بنا جس کے نتیجے میں طالبان کی طرف سے کیے جانے والے حملوں کے ڈر سے برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے خود کو عرب یا مسلمانوں کے ہی ایک شاخ بتایا تاکہ وہ نشانہ نہ بنیں۔

شیدی برادری کی شناخت

افریقی نژاد افراد خطے میں جہاں جہاں آباد ہوئے، وہیں کی تہذیب میں خود کو ضم کر لیا۔ کئی جگہوں پر ان کے لیے وہاں کی روایات اپنانا آسان بنا اور وہ ان کی شناخت کا حصہ بن گیا جبکہ دوسری جگہوں پر ان کی اپنی منفرد شناخت قائم رہی۔ سندھ اور گجرات میں ان روایات کو اپنانے کا تدارک اس طرح سے ہوا کہ شیدی کہلائے جانے والے افراد ایک الگ طبقے میں شامل ہوئے اور اپنی شناخت بنا پائے، دوسری جانب تاریخی مکران کے ساحلی علاقوں میں ایک دوسرے طبقے میں شامل ہو گئے۔

محقق اور پروفیسر حفیظ جمالی اپنی آنے والی کتاب کے ایک باب ’شور لائنز آف میموری اینڈ پورٹس آف ڈیزائر‘ میں لکھتے ہیں کہ سندھ میں افریقی نژاد افراد کو شیدی کہا جانے لگا اور جس کی وجہ سے ایک شیدی شناخت سامنے آئی۔ ان کے اپنے پیر اور مرشد ہیں جیسے پاکستان میں منگھو پیر میں ہیں، انڈیا کے گجرات میں بابا غور کے نام سے بھی موجود ہیں اور جن کے سالانہ عرس باقاعدہ ایک روایتی میلے کی صورت میں منائے جاتے ہیں۔

پروفیسر جمالی کہتے ہیں کہ اس کے برعکس بلوچستان میں بجائے اپنی شناخت بنانے کے، شیدی برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ پہلے سے موجود قبائل کا حصہ بن گئے، اسی طرح سے ایک درجہ بندی ’لوڑھی‘ کے نام سے بھی ہوئی جن میں شامل افریقی نژاد افراد شادیوں میں گانے بھی گاتے تھے اور لوہار کا کام بھی کرتے تھے، ایسے تمام لوگوں کو مڈل کلاس آبادی خود سے الگ اور نیچے سمجھتی تھی، ایسے تمام لوگوں کو گلام (یعنی غلام) اور نقیب کہا جاتا تھا، بعض جگہ جو مخلوط نسل افراد ہوتے تھے ان کو ”در زادگ“ بھی نام دیا گیا، (راقم الحروف خود بھی اسی نسل سے تعلق رکھتا ہے، جس کے آباء و اجداد کا تعلق مشرقی بلوچستان سے ہے جسے آج ایرانی بلوچستان پکارا جاتا ہے۔)

مکران کے سماجی ڈھانچے میں تین بنیادی خاندان تھے، حکمران خاندانوں سے گچکی، بلیدہ، ہوت اور بزنجو شامل تھے، جنہیں حاکم طبقہ مانا جاتا تھا، پھر مڈل طبقہ تھا جن کو صرف بلوچ کہتے تھے، ان میں زمیندار اور مویشیوں کا کام سنبھالنے والے شامل تھے، پھر حزمت گار (خدمت گار) طبقہ تھا، جن میں لوہار، کارپینٹر، جوتے بنانے اور سلائی کرنے والے شامل تھے، اس تیسرے طبقے میں بلوچستان آنے والے افریقی نژاد افراد کو شامل کیا گیا۔

بلوچستان میں سنہ 1960 اور سنہ 1970 کی دہائی میں مکران اور وسطی بلوچستان میں جاری بلوچ قوم پرست تحریک، جو سوشلزم اور کمیونزم سے متاثر تھی، ابھر کر سامنے آئی، جس کے وجہ سے وہ تمام تر افراد جو درمیانی طبقے کے قبائل اور حزمت گار طبقے میں ضم تھے، ان میں موجود افریقی نژاد نوجوانوں نے غلام اور حاکم درجہ بندی کی مخالفت کی۔ غلامی کے خاتمے کی تحریک کے بعد کئی بڑے شیدی مبصر اور دانشور سامنے آئے، جن میں ایک بڑا نام سندھی دانشور محمد صدیق مسافر کا تھا۔ جس کی وجہ سے شیدی تحریک اور اصلاح کا آغاز ہوا۔ حفیظ جمالی نے کہا کہ ”اس دہائی میں ہم نے دیکھا کہ زیادہ تر لوگوں نے اپنے قبائلی نام چھوڑ کر اپنے نام کے ساتھ صرف بلوچ لگانا شروع کیا۔“

”مرویسوں پر سندھ نہ ڈیسوں“

آزادی کی جدوجہد میں سندھ سے تعلق رکھنے والے جنرل ہوش محمد شیدی کا کیا کردار رہا ہے، اس بارے میں بہت کم لوگ جانتے تھے، اس حوالے سے معلومات تب سامنے آئیں، جب سنہ 1980 کی دہائی میں خود سندھی قوم پرست تنظیموں نے اپنے مقامی ہیروز کی تلاش شروع کی۔ ایلس ایلبینیا اپنی کتاب ’ایمپائرز آف دی انڈس، دی اسٹوری آف اے ریور‘ میں لکھتی ہیں کہ مارچ 1843 میں جنرل ہوش محمد شیدی برٹش افواج اور تالپور قبیلے کے درمیان ہونے والی جھڑپ کے نتیجے میں مارے گئے۔

ان کی قبر آج بھی حیدرآباد کے شمال میں موجود ہے، کئی سال تک ایسے ہی رہنے کے بعد سندھی قوم پرست افراد نے قبر کے ساتھ ساتھ ہوش محمد شیدی کے بارے میں معلومات بھی ڈھونڈ نکالیں اور ساتھ ہی سندھ کو ایک مقامی ہیرو بھی مل گیا۔ ہوش محمد شیدی کے بارے میں بہت کم معلومات منظر عام پر آئیں جبکہ ان کے بارے میں ایلس لکھتی ہیں کہ ان کی پیدائش ایک غلام کے طور پر ایک تالپور گھرانے میں ہوئی۔ انہوں نے سندھی فوج کی سربراہی کی اور کچھ وقت میں جنرل کے عہدے پر پہنچ گئے۔ برٹش راج کے ساتھ جنگ کے دوران ’مرویسوں، مرویسوں پر سندھ نہ ڈیسوں‘ (یعنی ہم لڑیں گے، مریں گے، پر سندھ نہیں دیں گے) کا نعرہ پہلی بار انہوں نے ہی لگایا تھا۔

کراچی اور لیاری

کراچی کے علاقے لیاری کو سندھ اور بلوچستان کے درمیان ایک رابطے کی کڑی سمجھا جاتا ہے، یہاں پر رہائش پذیر بہت سے لوگوں کے رشتہ دار ان دو صوبوں میں بھی رہتے ہیں، جبکہ سندھ اور بلوچستان میں ہونے والی کسی بھی تحریک کا براہِ راست اثر لیاری پر رہا ہے۔

سنہ 1989 میں شائع ہونے والی فیروز احمد کی تحقیق ’افریقہ آن دی کوسٹ آف پاکستان‘ کے مطابق برٹش دور میں کراچی کے میئر اللہ بخش گبول کی والدہ افریقی نژاد تھیں جبکہ انہوں نے خود ایک شیدی خاتون سے شادی کی۔ ان کے وکالت سے منسلک بیٹے عبدالستار سنہ 1970 کے انتخابات میں لیاری سے پاکستان پیپلز پارٹی کی نشست پر منتخب ہوئے تھے۔

سنہ 1989 میں کراچی شہر کی آبادی میں تقریباً ساڑھے تین لاکھ بلوچ بستے تھے، برٹش دور میں بھی کئی ایسے سیاسی نمائندے سامنے آئے، جن کے خاندان کے افراد کی جڑیں افریقہ سے ملتی ہیں یا ان کے آبا و اجداد وہاں سے ہجرت کر کے کراچی اور پھر لیاری میں آباد ہوئے ہیں۔ کراچی کو جب انگریزوں نے بندرگاہ کی حیثیت سے ترقی دی تو اس شہر میں روزگار کے مواقع زیادہ ہونے کی وجہ سے شیدی افراد بھی بڑی تعداد میں یہاں آئے جبکہ بہت سے افریقی غلام بھی انگریز حکمران اپنے ساتھ لے کر آئے۔

بندرگاہ کے قریب ترین اور اس دور کی سب سے بڑی آبادی لیاری تھی، جہاں یہ جفاکش اور محنتی مزدور آباد ہوئے، جن کی نسلیں آج بھی لیاری سمیت شہر کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں۔ لیاری میں بغدادی سیفی لین کے علاقے میں ایک سڑک کا نام ہی ’ممباسا اسٹریٹ‘ ہے، جبکہ لی مارکیٹ کی جانب سے آتے ہوئے شیدی ولیج کی آبادی تھی جو ابھی تک موجود ہے اور لیاری کے مشہور زمانہ آٹھ چوک تک جاتی ہے۔ لیاری میں شیدی افراد کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے جبکہ ایک بڑی تعداد کیماڑی میں گجراتی بولنے والی شیدی آبادی کی ہے، ان کے علاوہ ملیر، جہانگیر روڈ، پرانا گولیمار اور گارڈن ویسٹ سے محلقہ علاقے میں بھی شیدی آبادی موجود ہے، اندرون سندھ میں حیدرآباد، ٹنڈو باگھو، ٹنڈو آدم، شکارپور، سکھر سمیت پورے سندھ میں شیدی آبادی موجود ہے۔

شیدی کمیونٹی کو اللہ تعالٰی نے بڑی صلاحیتوں سے نوازا ہے، جسمانی طور پر مضبوط ہونے کے باعث ہر طرح کی محنت مشقت کے کاموں میں ہمیشہ آگے رہے ہیں، تاہم ان کی ذہانت کا بھی کوئی جواب نہیں، شیدی کمیونٹی کے سرسید کہلانے والے بابا صدیق مسافر نے انگریزوں کے عہد میں نہ صرف خود اعلیٰ تعلیم حاصل کی بلکہ اپنی کمیونٹی میں تعلیم کے فروغ کے لئے جگہ جگہ تعلیمی ادارے قائم کیے اور اعلٰی درجے کی کتابیں بھی تحریر کیں، آپ کا تعلق سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر ٹنڈو باگھو سے تھا جو آج کل ضلع بدین میں ہے، ان کی اولاد میں سے شیدی کمیونٹی سے پہلی خاتون رکن صوبائی اسمبلی محترمہ تنزیلہ امِ حبیبہ نے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے اپنے علاقے کی منتخب رکن صوبائی اسمبلی ہیں، سیاسی اعتبار سے یہ برادری ترقی پسند رہی ہے۔ مکران میں شیدی مختلف بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی بلوچ قوم پرست جماعتوں جبکہ سندھ میں بڑی حد تک پیپلز پارٹی کے ووٹرز رہے ہیں۔

شیدی میلہ اور مگرمان

مگر مان ڈھول کی تھاپ پر افریقی زبان سواحلی اور دیگر مقامی زبانوں کے ملاپ سے بنی مخصوص گیت گاتی اور ناچتی ریلی منگھو پیر کے علاقے سے نکالی جاتی رہی ہے، جہاں کئی سال تک ان گیتوں اور ورد کرنے میں سواحلی کے الفاظ شامل رہے، وہیں اب کچھ حد تک اس میں عربی کے الفاظ جیسے کہ ’لا الہ الا اللہ‘ شامل کر دیے گئے ہیں تو اب جب مگرمان بجانے والا کہتا ہے ’لا الہ الا اللہ‘ تو باقی سب جواب میں کہتے ہیں ’محمد الرسول اللہ۔‘ اس میں ہر ایک شخص کا منفرد انداز دیکھنے کو ملتا ہے۔

جہاں بچے سر پر لال دوپٹے سے ڈھکی ہوئی تھالیاں اٹھائے اور سجاوٹ کا سامان پکڑے سب سے آگے موجود ہوتے ہیں، وہیں بزرگ اور خواتین چھ سے آٹھ فٹ لمبے علم اٹھائے خدا کا نام لیے جھوم رہے ہوتے ہیں۔ انہی میں خواتین چہرے پر دوپٹہ اوڑھے سواحلی زبان میں ورد کرتی ہیں جبکہ ان کے آس پاس موجود علاقے کے لوگ ان کے لیے راستہ بناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بدین اور ٹنڈو بھاگو کے علاقوں میں کوئلے کو آگ لگا کر بچھایا جاتا ہے اور اس پر رقص کیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ آگ پر رقص کرتے ہوئے انسان ایک خاص روحانی بلندی پر پہنچ جاتا ہے اور اسے احساس نہیں رہتا کہ وہ کہاں ہے اور اس مخصوص کیفیت میں اس پر یہ دہکتے ہوئے انگارے کوئی تاثر نہیں چھوڑتے۔

برادری کی شادی بیاہ کی رسومات میں آج بھی افریقی تہذیب کے رنگ نمایاں ہیں تاہم مقامی تہذیب و ثقافت کے زیرِ اثر اب یہ رنگ پھیکے پڑ رہے ہیں۔ کئی سال تک سندھ کے شہروں کراچی، حیدر آباد اور ٹھٹہ میں مقیم افریقی نژاد افراد کا یہی طریقہ کار رہا ہے اور یہ منگھو پیر کا میلہ ان کی پہچان رہا ہے۔ شیدی میلے کا انعقاد عام طور پر چار گھرانوں کے ذمہ ہوتا تھا، جن میں حیدر آبادی، کھارا دری، لاسی اور بیلڑا گھرانے شامل ہیں۔

غلام اکبر شیدی بہت سالوں تک اس میلے کے مہتمم رہے ہیں، کراچی میں منگھو پیر کے علاقے میں موجود شیدی گوٹھ سے یہ میلہ شروع ہو کر سخی سلطان کی درگاہ تک پہنچتا تھا، لیکن اکبر شیدی کے انتقال کے بعد اب ایک مختلف گھرانا اس کے انعقاد کی ذمہ داری لے چکا ہے جبکہ مختلف علاقوں میں قمبرانی اور بلالی کے نام سے بھی اس کا انعقاد کیا جاتا رہا ہے لیکن بدلتے حالات کے تناظر میں اب شیدی برادری گھرانوں کے تصور سے باہر آنا چاہتی ہے۔ مخصوص سیاسی اور سماجی مسائل کی وجہ سے یہ شیدی میلہ اب محدود ہو گیا ہے لیکن اب بھی اسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا گیا اور برادری کے بزرگوں کا یہ کہنا ہے کہ حالات کے بہتر ہوتے ہی ایک بار پھر انشاء اللہ اس سلسلے کو دوبارہ روایتی انداز میں منایا جائے گا۔

بشکریہ ’ہم سب‘
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close