اگرچہ سجنے سنورنے کے لیے میک اپ کے رجحانات پچھلے چار ہزار سالوں میں تشکیل پائے ہیں، ایک حالیہ مطالعہ بظاہر یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ پرانی کہاوت سچ ہے: سرخ ہونٹوں کی خوبصورتی لازوال ہے۔
وہ لپ اسٹک جو خواتین کے پرس کے نچلے حصے میں پڑی ہے، کیا آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ یہ کتنی پرانی ہے؟ حال ہی میں ایک دریافت کے بعد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انہیں اب تک کی سب سے پرانی لپ اسٹک مل گئی ہے۔ نہیں، کسی خاتون کے پرس میں نہیں، جنوبی ایران میں۔ اٹلی کی یونیورسٹی آف پاڈو کے محققین کا کہنا ہے کہ وہاں سے دریافت ہونے والا ہونٹوں کا ایک گہرا سرخ پیسٹ پانچ ہزار سال پرانا ہے۔ یہ سبزیوں کے تیل اور موم سے بنا ہے، اور یہ ممکنہ طور پر سماجی اشرافیہ کی طرف سے عیش و آرائش کے طور پر مستعمل تھا
اس مضمون کے آخر میں ہم لپ اسٹک کی تاریخ اور اس کے متعلق وہ باتیں، جو ممکنہ طور پر آپ نہیں جانتے، معلوم کریں گے، لیکن پہلے ذکر حالیہ دریافت کا، جس کے مطابق ایران میں پتھر سے بنی ایک چھوٹی ڈبی دریافت کی گئی ہے، جس میں ایسا سرخ رنگ موجود تھا جو ممکنہ طور پر ہزاروں سال قبل ہونٹوں کو رنگنے کا کام کرتا تھا۔
آسان الفاظ میں ماہرین آثار قدیمہ نے جنوب مشرقی ایران میں لگ بھگ پانچ ہزار سال پرانی لپ اسٹک دریافت کی ہے۔
اس حوالے سے جرنل سائنٹیفک رپورٹس میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ ممکنہ طور پر اب تک دریافت ہونے والی دنیا کی قدیم ترین لپ اسٹک ہے۔
لپ اسٹک کے نمونے کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ 80 فیصد مواد گہرے سرخ رنگ فراہم کرنے والے منرلز جیسے hematite پر مبنی ہے ۔
منرلز کے ساتھ ساتھ اس میں سبزیوں اور دیگر نامیاتی اشیا سے بنا موم جیسا مواد بھی دریافت ہوا۔
ماسیمو وڈالے، جو اس تحقیق کے سرکردہ محققین میں سے ایک ہیں اور پاڈوا یونیورسٹی میں آثار قدیمہ کے پروفیسر ہیں، کہتے ہیں کہ سرخ رنگ والے منرلز اور موم جیسے مواد کا موازنہ موجودہ عہد کی لپ اسٹک کی تیاری کے طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔
تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اس کاسمیٹک کو دیگر کاموں کے لیے استعمال کیا جاتا ہو۔
مگر ان کا کہنا تھا کہ گہرا سرخ رنگ، اس میں تیار ہونے والے اجزا اور ڈبی کی ساخت دیکھنے سے عندیہ ملتا ہے کہ اسے ہونٹوں پر استعمال کیا جاتا ہوگا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ سرخ رنگ کے میک اپ کا ایسا قدیم ترین نمونہ ہے، جس پر تحقیق کی گئی۔
محققین کے مطابق یہ اپنی طرز کی پہلی دریافت ہے کیونکہ اس سے قبل پرانے نوادرات میں سرخ لپ اسٹک سے ملتی جلتی کوئی چیز دریافت نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ عموماً زمانہ قدیم کے سلور رنگ کے فاؤنڈیشنز اور آئی شیڈوز ہی اب تک دیکھنے میں آئے تھے۔
کانسی کے زمانے کا نمونہ کاربن کا ہے جس کی تاریخ 1936 قبل مسیح کے درمیان ہے۔ اور 1687 قبل مسیح سائنسی رپورٹس جریدے میں فروری میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، اور اصل میں 2001 میں دریافت ہوا تھا، جب سیلاب نے قدیم قبرستانوں کو ظاہر کر دیا تھا۔
2001 میں دریائے حلیل کی وادی میں آنے والے سیلاب نے، جیروفٹ، ایران سے 25 میل جنوب میں، قدیم کھنڈرات کو آشکار کیا، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کانسی کے دور کی مارہاسی تہذیب ہے، جو ’طاقتور‘ لوگ تھے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ میسوپوٹیمیا کے ساتھ ساتھ پروان چڑھے تھے۔
محققین کا کہنا تھا کہ قدیم لپ اسٹک کی شیشی کے ساتھ ساتھ زیورات، ہتھیار اور باریک تیار کردہ سیرامکس ان نمونوں میں شامل تھے، جنہیں کھنڈرات سے لوٹ لیا گیا تھا اور ایرانی حکام کی جانب سے برآمد ہونے سے قبل قدیم بازاروں میں فروخت کیا گیا تھا۔
محققین نے تحقیق میں کہا، ”کرمان صوبے کے جیروفٹ علاقے میں لوٹے گئے اور برآمد کیے گئے متعدد نمونوں میں سے ایک چھوٹی کلورائٹ شیشی میں ایک گہرا سرخ کاسمیٹک تیار کیا گیا ہے جو ہونٹوں کو رنگنے والا پینٹ یا پیسٹ ہے“
اس شیشی کو ایران کے جیروفٹ آرکیالوجیکل میوزیم کے ایک مجموعے میں شامل کیا گیا تھا اس سے پہلے کہ اس کا تجزیہ اطالوی یونیورسٹی آف پادوا، ایرانی یونیورسٹی آف تہران، اور روم میں بحیرہ روم اور مشرقی علوم کی بین الاقوامی ایسوسی ایشن کے محققین کے ذریعے کیا جائے۔
تحقیق کے مطابق ہاتھ سے تراشی ہوئی پتھر کی شیشی تقریباً دو انچ لمبی، تین چوتھائی انچ چوڑی ہے، جو کہ جدید دور کی لپ اسٹک سے قدرے چھوٹی ہے۔
محققین نے کہا، تحقیق میں سب سے زیادہ قابل ذکر نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ لپ اسٹک آرٹفیکٹ کے معدنی اجزا عصری لپ اسٹک کی ترکیبوں سے حیرت انگیز مشابہت رکھتے ہیں،”
وڈالے کے مطابق، ”اسکیننگ الیکٹران مائیکروسکوپ کے ذریعے جن اجزاء کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں ہیمیٹائٹ، مینگنائٹ اور برونائٹ کے ساتھ سیاہ رنگ، اور گیلینا اور اینگلیسائٹ کے نشانات شامل ہیں، جو سبزیوں کے موم اور دیگر نامیاتی مادوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، یہ بالکل وہی امتزاج ہے، جس کی کوئی ایک جدید لپ اسٹک میں توقع کرے گا“
وڈالے کے لیے یہ دریافت قدیم تہذیب کی خواتین اور آج کے دور کی خواتین کے درمیان گہرا تعلق پیدا کرتی ہے۔
لپ اسٹک کی تاریخ اور وہ معلومات، جو آپ نہیں جانتے!
ہر سال 29 جولائی کو لپ اسٹک کا عالمی دن منایا جاتا ہے، لیکن کیا آپ نے کبھی ہونٹوں کو سجانے والی اس آرائشی چیز کی تاریخ کے بارے میں سوچا ہے، جس سے کسی خاتون کا بیگ خالی نہیں ہوتا۔
دنیا بھر میں خواتین میک اپ میں لپ اسٹک کو خاص اہمیت دیتی ہیں،تاہم اس کی موجودہ شکل کو پہلی مرتبہ قریباً ایک سو برس پہلے متعارف کروایا گیا تھا۔ تب سے لپ اسٹک نے نہ صرف عورت کی ظاہری شکل کو تبدیل کیا ہے بلکہ اس کے معاشرتی کردار پر بھی اثر انداز ہوئی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ ملک غریب ہو یا امیر، دنیا بھر میں خواتین میک اپ میں لپ اسٹک کو خاص اہمیت دیتی ہیں اور یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والا میک اپ کا آئٹم ہے۔
لپ اسٹک کی تاریخ تقریباً 5000 سال قبل دو دریاؤں دجلہ اور فرات کے درمیان واقع علاقے سے وابستہ ہے۔ اس زمانے میں خواتین قیمتی پتھروں کو پیس کر ایسا سفوف حاصل کرتی تھیں، جس سے اپنے ہونٹوں کو رنگ سکیں۔ قدیم مصریوں نے گہرے سُرخ رنگ کی لپ اسٹک نکالی جو سمندری جڑی بوٹیوں، آئیوڈین اور برومن سے تیار کی جاتی تھی۔ مصر کی ملکہ قلوپطرہ اس کو سنگھار میں استعمال کرتی تھی۔
ایک ہزار عیسوی کے آغاز پر اندلس کے سائنس داں ابوالقاسم الزہراوی نے پہلی ٹھوس لپ اسٹک تیار کی۔ سولہویں صدی عیسوی میں برطانیہ میں لپ اسٹک کا استعمال شروع ہوا، جہاں اس کو شہد کے چھتے کے موم سے تیار کیا جاتا تھا۔
دوسری عالمی جنگ عظیم کے دوران اُن خواتین میں لپ اسٹک کا استعمال پھیل گیا جو سینیما کی اداکاراؤں سے مشابہت اختیار کرنے کی خواہش رکھتی تھیں۔ وقت کے ساتھ یہ خواتین کی جانب سے بناؤ سنگھار میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ضرورت بن گئی۔
1884ء میں یورپی ملک فرانس کے دارالحکومت پیرس میں پہلی مرتبہ لپ اسٹک کو میک اپ کے ایک اہم جزو کے طور پر کمرشل انداز میں متعارف کروایا گیا تھا۔ شروع میں اس کو مشکوک نظروں سے دیکھا گیا اور اس کا استعمال صرف تھیٹر یکل اداکارائیں کرتی تھیں۔
1983ء وہ سال ہے، جب پہلی مرتبہ لپ اسٹک کی موجودہ شکل کو ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں ہونے والی ایک عالمی نمائش میں متعارف کروایا گیا۔ ایمسٹرڈم کی نمائش کے چند ماہ بعد لپ اسٹک کی تجارتی بنیاد پر دریافت میں پیرس کے خوشبو ساز ادارے کے دو ماہرینِ کاسمیٹک شامل تھے۔ایمسٹرڈم میں انیسویں صدی کی فرنچ اداکارہ سارا بیرنارٹ بھی موجود تھیں اور انہوں نے لپ اسٹک والے پین کو ’محبت کا قلم‘ قرار دیا۔
ابتدا میں لپ اسٹک نہ صرف مہنگی بلکہ ایک لگژری آئٹم تھی۔ عوامی سطح پر اس کو پذیرائی گزشتہ صدی میں بیس کی دہائی میں ’خاموش فلموں‘ کے دور میں ملی۔ عام طور پر ایک لپ اسٹک کا 60 فیصد حصہ موم اور تیس فیصد مختلف آئلز پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں مختلف خوشبوئیں اور رنگ بھی استعمال کیا جاتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق 1912ء میں امریکا کی فیشن ایبل خواتین نے لپ اسٹک کو قبول کر لیا تھا۔ یورپ میں فیشن ایبل خواتین نے امریکی خواتین کے لپ اسٹک استعمال کرنے کے نو سال بعد اسے اپنانا شروع کیا تھا۔
1921ء ایک ایسا سال تھا، جب اس وقت کے تجارتی اور سیاسی منظر پر اجارہ داری کے حامل ملک گریٹ برٹن کے دارالحکومت لندن کی خواتین نے اسے پسند کرنا شروع کیا اور یہی اس کی عام مقبولیت کا باعث بنا۔ انیسویں صدی کی پہلی چوتھائی کے دوران لندن فیشن کا گھر خیال کیا جاتا تھا۔ جب کہ ہزاروں سال پہلے قدیمی مصری تہذیب میں فراعین کی ملکائیں بھی ہونٹوں پر سرخ رنگ کا استعمال کر تی تھیں۔ ان میں قلوہ پطرہ اور نفراتیتی بھی شامل ہیں۔ اس وقت سرخ رنگ کو چھوٹی چھوٹی ڈبیوں میں محفوظ رکھا جاتا تھا اور انگلی یا پھر برش کی مدد سے ہونٹوں پر لگایا جاتا تھا۔ اس وقت یہ عقیدہ تھا کہ ہونٹوں پر رنگ لگانے سے شیطانی قوتیں انسان کے جسم میں نہیں گھس سکتیں۔ سولہویں صدی میں انگلستان میں سفید پاوڈر سے چہرے کو سفید اور سرخ رنگ سے ہونٹ رنگنا اشرافیہ طبقے کا معروف فیشن تھا۔
کیا مرد نے سب سے پہلے ہونٹوں کی سُرخی کا استعمال کیا؟
قدیم زمانے میں شکاریوں نے سب سے پہلے اپنے شکار کے اسفار کے دوران ہونٹوں کی سُرخی کو استعمال کیا۔ علاوہ ازیں نجومی اس کو مذہبی مقاصد اور نوجوان مخالف جنس کو کشش دلانے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ اس کا مطلب ہوا کہ تقریبا 5000 ق م میں مرد نے عورت سے قبل ہونٹوں کی سُرخی کو سماجی اور آرائشی وجوہات کے لیے استعمال کیا۔
خواتین نے ہونٹوں کی سُرخی کا استعمال 2500 سے 1000 ق م کے درمیانی عرصے میں شروع کیا جب عراقی تمدن میں خواتین قیمتی پتھروں کے سفوف کو ہونٹوں کو رنگ دار بنانے کے واسطے استعمال کیا کرتی تھیں۔ اس کے بعد فرعونی تہذیب میں مال دار خواتین نے ہونٹوں کی سُرخی کا استعمال کیا۔ یہ سُرخی گہرے سرخ رنگ والے بھنورے کے پاؤڈر یا مچھلی کے چھلکوں سے نکالے گئے چمک دار PERLESSENT مواد سے بنی ہوتی تھی۔
آٹھویں صدی عیسوی میں اندلس سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر آرائش ابو القاسم الزہراوی نے پہلی مرتبہ ٹھوس شکل میں ہونٹوں کی سُرخی ایجاد کی۔ یورپ میں سولہویں صدی اور ملکہ برطانیہ الزبتھ اوّل کے دور میں پہلی مرتبہ چمک دار لپ اسٹک کا فیشن نمودار ہوا۔ اس کو شہد کے چتھے کے موم اور سُرخ پودوں کے عرق سے تیار کیا جاتا تھا۔ اس کا استعمال اداکاراؤں اور اعلی طبقے کی خواتین تک محدود تھا۔
سال 1884 میں Guerlain وہ پہلی تجارتی کمپنی تھی جس نے ہرن کے پارچوں، شہد کے موم اور کیسٹر آئل سے لپ اسٹک تیار کی۔
1920 میں فوٹو گرافی پھیل جانے کے ساتھ ہی یورپ اور شمالی امریکا میں لپ اسٹک کا استعمال بھی پھیل گیا۔
1923 میں پہلی مرتبہ اسطوانہ نما لپ اسٹک تیار کی گئی جس کو قابل حرکت نوک سے لیس کیا گیا۔ اس برانڈ کا اندراج اس کے موجد کے نام جیمس بروس میسن کے نام سے ہوا۔
سال 1930 میں Max Factor کمپنی نے پہلا پالشڈ لِپ گلوس تیار کیا۔ تاہم 1939 میں دوسری جنگ عظیم کے دوران لپ اسٹک کا وجود نادر ہو گیا۔ 1950 میں طویل دورانیے تک باقی رہنے والی سرخی منظر عام پر آئی اور اسی زمانے میں ہالی وڈ کی اداکاراؤں کے درمیان بھی گہرے سرخ رنگ کی لپ اسٹک کا فیشن پھیل گیا۔
1973 میں پہلوں کے ذائقے کے ساتھ لپ اسٹک کو متعارف کرایا گیا جو نوجوان لڑکیوں میں بڑا مقبول ہوئی۔ سال 2000 میں لپ اسٹک دنیا بھر میں سب سے زیادہ بکنے والی کاسمیٹک بن گئی۔ یہ اپنے جمال کا خیال رکھنے والی ہر عورت کے بیگ کی بنیادی ضرورت بن گئی۔ اس حوالے سے سرخ رنگ ابھی تک پر کشش اور جاذبِ نظر آنے والی خواتین کے لیے لپ اسٹک کا پسندیدہ رنگ ہے۔