وہ خوب صورت اور نازک تھی۔ ملائم گندمی رنگت، سبز بادامی آنکھیں اور کاندھوں کو چھوتے کالے بال۔ اس کے گرد قدامت کا ایسا ہالہ تھا جو انڈونیشی بھی ہو سکتا تھا اور اینڈیز کا بھی۔ اس کے لباس میں بھی نفاست اور نازکی تھی۔ جنگلی بلی کی سُمور والی جیکٹ، راسلک کا بلاؤز جس پر بہت کومل پھول کڑھے تھے، لینن کا پاجامہ اور بوگن ویلا کے رنگ کی باریک پٹی والے جوتے۔ چارلس ڈیگال ائر پورٹ پر پیرس سے نیویارک کی پرواز کے لیے چیک ان کی قطار میں کھڑے کھڑے جب میں نے اسے شیرنی جیسی دبی چال چلتے اپنے پاس سے گزرتے دیکھا تو سوچا، ’’میں نے آج تک جتنی خواتین دیکھی ہیں، یہ ان سب سے خوب صورت ہے۔“ وہ مافوق الفطرت شبیہہ کی طرح سے تھی جو محض ایک لمحے کے لیے قائم رہی اور پھر ٹرمینل کے ہجوم میں غائب ہو گئی۔
اس وقت صبح کے نو بجے تھے۔ تمام رات برف باری ہوتی رہی تھی۔ شہر کی سڑکوں پر ٹریفک عام دنوں سے کہیں زیادہ تھی اور ہائی وے پر، کہ جس کے کناروں پر ٹرک قطار اندر قطار کھڑے تھے، ٹریفک سست رفتار سی تھی۔ گاڑیاں برف باری کی وجہ سے بھاپ خارج کر رہی تھیں تاہم ائر پورٹ کی عمارت کے اندر بہاریہ حدت تھی۔
میں ایک بوڑھی ولندیزی خاتون کے پیچھے کھڑا تھا، جس نے اپنے گیارہ عدد سوٹ کیسوں کے وزن پر بحث کرتے کرتے گھنٹہ بھر گزار دیا۔ میں اس سب بحث پر بے زار سا ہو رہا تھا کہ جب میں نے اس حیرت زدہ کر دینے والی شبیہہ کو دیکھا۔ اسی وجہ سے میں یہ بھی نہ جان سکا کہ جھگڑا کس طرح ختم ہوا۔ تبھی ٹکٹ کلرک نے میری توجہ کے اس بھٹکنے پر میری سرزنش کرتے ہوئے مجھے بادلوں سے نیچے لا پھینکا۔ معذرت خواہانہ انداز میں میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ پہلی نظر کی محبت کی قائل ہے۔ وہ کہنے لگی، ’’یقیناً! کیوں کہ کوئی دوسری صورت نا ممکن ہے۔‘‘ اس نے اپنی نظریں کمپیوٹر اسکرین پر جمائے رکھیں اور پوچھا کہ آیا میں سگریٹ نوشی والے حصے میں نشست چاہتا ہوں کہ اس سے ممنوعہ حصے میں۔
”اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ میں نے واضح بغض کے ساتھ کہا، ”جب تک کہ میں ان گیارہ سوٹ کیسوں کے ساتھ نہ ہوں۔“
اس نے کاروباری مسکراہٹ کے ساتھ روشن اسکرین سے نظریں ہٹائے بغیر میری بات کو سراہا اور پھر مجھے کہا، ”تین، چار اور سات میں سے کون سا نمبر چاہیں گے؟‘‘
میں نے چار نمبر کے لیے کہا۔ خوشی کے احساس سے اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور کہنے لگی، ”میری یہاں پندرہ سالہ ملازمت کے دوران آپ پہلے شخص ہیں، جنہوں نے نمبر سات کا چناؤ نہیں کیا۔“
اس نے میرے داخلے کے کارڈ پر سیٹ نمبر لکھا اور اسے میرے باقی کا غذات کے ساتھ واپس کرتے ہوئے پہلی مرتبہ اپنی انگوری آنکھوں سے مجھے دیکھا۔ مجھے یہ نظر اس وقت تک کے لیے ایک سہارا محسوس ہوئی کہ جب میں اس حسین مجسم کو دوبارہ دیکھ سکوں۔ تبھی اس خاتون نے مجھے بتایا کہ ائر پورٹ بند کر دیا گیا ہے اور تمام پروازیں ملتوی کر دی گئی ہیں۔
’’کب تک کے لیے ؟‘‘
’’یہ خدا ہی جانے“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’آج صبح ہی ریڈیو پر بتایا جا رہا تھا کہ یہ سال کا بدتر برفانی طوفان ہوگا۔“
اس نے غلط کہا تھا۔ یہ اس صدی کا بدتر طوفان ثابت ہوا۔
تاہم درجۂ اول کی اس انتظار گاہ میں گملوں کے تازہ گلاب بہار کی نوید سنا رہے تھے، حتیٰ کہ بانسری کے سروں والی موسیقی بھی اپنے تخلیق کاروں کی توقع کے عین مطابق ایک عجیب پُر ہیبت سکون بخش احساس دے رہی تھی۔ اچانک میرے ذہن میں آیا کہ ایسا ماحول ہی اس حسن مجسم کے لیے مناسب پناہ گاہ ہو سکتا ہے اگر چہ میں اپنی اس حرکت پر حیران بھی تھا، پھر بھی میں نے اس کو دوسری انتظار گاہوں تک تلاش کیا مگر زیادہ تر لوگ حقیقی دنیا سے تعلق رکھنے والے ایسے مرد تھے جو انگریزی اخبار پڑھ رہے تھے، جب کہ ان کی بیویاں شیشوں سے پار برف میں کھڑے ساکن جہازوں پر نظریں جمائے کسی اور کی سوچوں میں گم تھیں۔ دوپہر تک بیٹھنے کے لیے کوئی جگہ نہ بچی اور گرمی اس قدر شدید ہو چکی تھی کہ میں تازہ ہوا کے لیے وہاں سے نکل آیا۔
باہر میں نے ایک حیران کن نظارہ دیکھا۔ ہر قسم کے لوگ انتظار گاہوں میں جمع ہو چکے تھے اور تنگ برآمدوں حتیٰ کہ سیڑھیوں میں بھی اپنے جانوروں، بچوں اور سامان سمیت آرام کر رہے تھے۔ شہر سے رابطہ بھی منقطع ہو چکا تھا اور شفاف شیشوں کا وہ محل طوفان میں پھنسے ہوئے ایک بڑے سے خلائی جہاز سے مشابہ محسوس ہوتا تھا۔ میں یہ سوچے بنا نہ رہ سکا کہ وہ حسنِ مجسم بھی یہیں کہیں اس ہجوم میں موجود ہو گا۔ اس خیال نے مجھے انتظار کا نیا حوصلہ بخشا۔
دو پہر کے کھانے تک سب جان گئے تھے کہ وہ پھنس گئے ہیں۔ سات کے سات ریستوران، کیفے ٹیریا اور پر ہجوم شراب خانوں کے باہر نہ ختم ہونے والی قطاریں تھیں اور تین گھنٹے سے بھی کم وقت میں ان سب کو بھی بند کرنا پڑا کیوں کہ کھانے پینے کی کوئی چیز نہ بچی تھی۔ بچوں نے، کہ جو ایک لمحے کے لیے تو دنیا جہان کے تمام بچے محسوس ہوتے تھے، اکٹھے رونا شروع کر دیا اور ہجوم میں جانوروں کے ریوڑ کی طرح کی بے چینی سی محسوس ہونے لگی۔ یہ جبلت سے کام لینے کا وقت تھا۔ اس سب دھکم پیل میں وہ واحد چیز، جو میں کھانے کے لیے حاصل کر سکا، وہ بچوں کے لیے مخصوص دکان سے ونیلا آئس کریم کے آخری دو کپ تھے۔ گاہکوں کے جانے کے بعد ویٹر کرسیوں کو میزوں پر الٹا کر رکھ رہے تھے جب کہ میں گتے کے اس کپ اور چمچ کو ہاتھ میں پکڑے، آئینے میں اپنے اوپر نظریں جمائے اور اس حسنِ مجسم کے بارے میں سوچتے ہوئے کاؤنٹر پر کھڑا آہستہ آہستہ کھاتا رہا۔
صبح گیارہ بجے کے لیے نیو یارک کی پرواز اس رات آٹھ بجے روانہ ہوئی۔ جب تک کہ میں جہاز پر سوار ہونے میں کامیاب ہوا، درجۂ اول کے دوسرے مسافر پہلے ہی اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تھے۔ ایک فضائی مہمان دار نے میری نشست تک میری رہ نمائی کی۔ میرا دل رُک سا گیا۔ میری نشست کے ساتھ کھڑکی کی طرف وہی حسنِ مجسم ایک تجربہ کار مسافر کی طرح اپنی نشست سنبھال رہی تھی۔ میں نے سوچا، اگر میں نے کبھی اس بارے میں لکھا تو کوئی میرا یقین نہیں کرے گا۔ میں محض ایک ہکلاہٹ آمیز، غیر یقینی سلام ہی کر سکا کہ جسے اس نے سنا ہی نہیں۔
ہر چیز اس کی مناسب جگہ پر ترتیب سے رکھتے ہوئے اور اپنی نشست کو ایک مکمل گھر کی طرح ترتیب دے کر کہ جہاں ہر چیز پہنچ میں تھی، وہ اس طرح سے نشست سنبھالے بیٹھی تھی جیسے کہ اس نے وہاں سالوں رہنا ہو۔ اسی دوران میں ایک فضائی مہمان دار ہمارے لیے شیمپین لے آیا۔ میں نے اسے پیش کرنے کے لیے ایک گلاس اٹھایا مگر عین وقت پر رک گیا کیوں کہ وہ صرف سادہ پانی چاہتی تھی۔ پھر اس نے اس فضائی مہمان دار سے، پہلے تو غیر واضح فرانسیسی اور پھر کسی حد تک رواں انگریزی میں کہا کہ خواہ کوئی بھی وجہ ہو، پرواز کے دوران اسے زحمت نہ دی جائے۔ اس کی بھرپور قسم کی سنجیدہ آواز میں مشرق کی اداسیت کی آمیزش تھی۔
جب وہ پانی لے کر آیا تو اس نے میک اپ بکس کو کہ جس کے کونے دادی ماں کے صندوقچے کی طرح تابنے جڑے تھے، اپنی گود میں رکھا اور ایک ڈبیا سے کہ جس میں مختلف رنگ کی کئی گولیاں تھیں، دو سنہری گولیاں کھائیں۔ وہ ہر کام کچھ اس طور لگے بندھے اور منظم انداز میں کرتی تھی کہ جیسے اپنی پیدائش سے آج تک اس کے ساتھ کوئی غیر معمولی واقعہ پیش نہ آیا ہو۔ بالآخر اس نے کھڑکی پر پردہ کھینچ دیا، اپنی نشست کی پشت آخری حد تک پیچھے لے گئی، جوتے اتارے بغیر کمر تک کمبل کھینچ لیا، چہرے پر نیند کے لیے مخصوص خول چڑھایا، میری طرف پشت کی اور نیو یارک کی اس پرواز کے آٹھ طویل گھنٹوں اور بارہ منٹوں تک بغیر کسی وقفے، آواز یا حالت کی تبدیلی کے مسلسل سوتی رہی۔
یہ ایک بھرپور سفر تھا۔ میں نے ہمیشہ سے اس بات میں یقین رکھا ہے کہ فطرت میں ایک خوب صورت خاتون سے زیادہ کچھ بھی خوب صورت نہیں۔ اس روز میرے لیے اپنے نزدیک سوئی اس دیو مالائی مخلوق کے سحر سے ایک لمحے کے لیے بھی نکلنا نا ممکن ہو گیا۔
جیسے ہی جہاز اڑا وہ فضائی میزبان چلا گیا اور اس کی جگہ ایک دوسرا میزبان آ گیا، جس نے ایک چھوٹا سا میک اپ باکس اور موسیقی سننے کے لیے ہیڈ فون دینے کے لیے اُس حسنِ مجسم کو جگانا چاہا۔ میں نے اس کے ساتھی میزبان کو دی گئی اس کی ہدایات کو دہرا دیا مگر وہ اُس حسنِ مجسم کے اپنے ہونٹوں سے سننے پر مُصر تھا کہ وہ رات کا کھانا بھی نہیں کھانا چاہتی۔ بالآخر اس کے ساتھی میزبان نے ہی اس کی ہدایات کی تصدیق کی مگر پھر بھی اس نے جتا ہی دیا کہ اس حسنِ مجسم نے ’’پریشان مت کریں‘‘ کا چھوٹا سا گتے کا ٹکڑا اپنی گردن میں نہیں ڈالا ہوا تھا۔
میں نے اپنے آپ سے وہی باتیں کرتے ہوئے جو اس کے جاگتے ہونے کی صورت میں اس سے کرتا، تن تنہا ہی کھانا کھایا۔ اس کی نیند اس قدر بھرپور تھی کہ ایک لمحے کے لیے مجھے یہ خوف ناک خیال بھی آیا کہ جو گولیاں اس نے کھائی تھیں، وہ سونے کے لیے نہیں بلکہ مرنے کے لیے تھیں۔ مشروب کے ہر جام کو بلند کرتے ہوئے میں نے اس حسنِ مجسم کے لیے جامِ صحت تجویز کیا۔
جب کھانے کا دور ختم ہو گیا تو روشنی مدھم کر دی گئی اور ایک فلم دکھائی جانے لگی جسے شاید کوئی نہیں دیکھ رہا تھا۔ ہم دونوں اس تاریک دنیا میں اکیلے تھے۔ اس صدی کا بد تر طوفان تھم چکا تھا اور بحر اوقیانوس کی رات طویل اور روشن تھی۔ طیارہ ستاروں کے درمیان ساکن محسوس ہوتا تھا۔ پھر میں نے گھنٹوں اس کے تمام جسم کا مشاہدہ کیا۔ زندگی کا واحد نشان جو میں اس میں پاسکا، خوابوں کے وہ سائے تھے جو پانی پر بادلوں کے عکس کی طرح سے اس کے ماتھے پر سے گزر رہے تھے۔ اس کی گردن میں ایک زنجیر سی تھی جو اس قدر باریک تھی کہ اس کی سنہری جلد پر بہ مشکل دکھائی دیتی تھی۔ اس کے خوب صورت کان چھدے ہوئے نہ تھے۔ اس کے ناخنوں میں صحت مندانہ گلابی پن تھا اور اس کے الٹے ہاتھ میں ایک سادہ سی انگوٹھی تھی۔ چوں کہ وہ بیس برس سے زائد کی دکھائی نہیں دیتی تھی، میں نے اپنے آپ کو اس خیال کے تحت تسلی دی کہ یہ شادی کی انگوٹھی نہیں بلکہ عارضی بندھن کی نشانی ہے۔
میں نے شیمپین کی جھاگ والی سطح کو دیکھتے اور جیرارڈ وڈیگو کے خوب صورت گیت کو دوہراتے ہوئے سوچا۔ ’میں تمہاری قطع تعلقی کے تعلق کے ساتھ یہ سوچ کر پُر یقین، مطمئن اور پُر امید ہوں کہ تم میرے بھنچے ہوئے بازووں کے اس قدر نزدیک سو رہی ہو۔‘ پھر جب میں نے اپنی نشست کی پشت اس کی نشست کے برابر تک پیچھے کی تو ہم ایک شادی شدہ جوڑے سے کہیں نزدیک ایک دوسرے کے برابر لیٹے ہوئے تھے۔ اس کے سانسوں کی خوش بو بھی اس کی آواز جیسی ہی تھی اور اس کی جلد سے ایسی دل آویز مہک آتی تھی جو صرف اس کے حُسن کی خوش بو ہی ہو سکتی تھی۔ یہ سب نا قابلِ یقین سا لگتا تھا۔
پچھلی گرمیوں میں میں نے کیوٹو کے ان قدیمی بورژوا طبقوں کے بارے میں یا سوہاری کو ابتہ کا ایک خوب صورت ناول پڑھا تھا جو شہر کی خوب صورت ترین لڑکیوں کا برہنہ بے ہوشی کے عالم میں رات بھر نظارہ کرنے کے لیے بڑی بڑی رقوم ادا کرتے اور خود بھی اسی بستر پر پیار کی شدت سے تڑپتے رہتے۔ وہ انہیں نہ تو جگا سکتے تھے اور نہ ہی چھو سکتے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ اس کے لیے کوشش بھی نہ کرتے تھے۔ کیوں کہ ان کے لیے انہیں سوتے میں دیکھنا ہی اصل لذت تھا۔ اس رات جب کہ میں اس حسنِ مجسم کو سوتے ہوئے دیکھتا رہا میں نہ صرف اس ضعیف العمری کی سوچ والی نفاست کو سمجھ گیا بلکہ اس سے بھر پور لطف بھی اٹھایا۔
شیمپین نے میرے اندر کے جھوٹ کو دو آتشہ کر دیا تھا اور میں نے سوچا، ’کس نے یہ سوچا ہوگا کہ میں آج کے زمانے میں ایک قدیم جاپانی بن جاؤں گا۔‘
میرا خیال ہے کہ شیمپین اور فلم کی آوازوں کے زیرِ اثر میں گھنٹوں سوتا رہا۔ جب میں جاگا تو میرا سر پھٹ رہا تھا۔ میں غسل خانے تک گیا۔ میری نشست سے دو نشستیں پیچھے گیارہ سوٹ کیسوں والی خاتون میدانِ جنگ میں پڑی بے آسرا لاش کی طرح سے ایک عجیب بے ہنگم انداز میں سوئی پڑی تھی۔ رنگین موتیوں کی لڑی والا اس کا مطالعے کا چشمہ نشستوں کے درمیانی راستے کے عین وسط میں گرا پڑا تھا۔ اسے اٹھا کر واپس اس کی گود میں نہ رکھ کر میں نے ایک عجب بغض آمیز خوشی محسوس کی۔
جب میں شیمپین کی باقیات کے بوجھ سے نجات پا چکا تو میری نظر آئینے میں اپنے بد صورت و قابل نفرت عکس پر پڑی۔ میں اس بات پر حیران تھا کہ محبت کی لائی ہوئی تباہی اس قدر خوف ناک بھی ہو سکتی ہے۔
جہاز نے اچانک بلندی کم کی، دوبارہ بحال کی اور پوری رفتار سے چلتا رہا۔ ’اپنی نشست پر واپس پہنچیں۔‘ کا اشارہ جل اٹھا اور میں اس امید کو لیے تیزی سے باہر لپکا کہ ہو سکتا ہے خدائی آفت ہی اُس حسنِ مجسم کو جگا دے اور پھر اسے اپنے خوف پر قابو پانے کے لیے میری ہی بانہوں میں پناہ لینا ہوگی۔ اپنی جلدی میں میں نے ولندیزی خاتون کے چشمہ پر پاؤں تقریباً رکھ ہی دیا تھا۔ اگر ایسا ہو جاتا تو مجھے خوشی ہوتی مگر میں واپس پلٹا، چشمہ اٹھایا اور اپنے سے پہلے سیٹ نمبر ۴ نہ چننے پر اس کے لیے امنڈنے والے احساسِ تشکر کے ساتھ چشمہ اس کی گود میں رکھ دیا۔
حسنِ مجسم کی نیند نا قابلِ شکست رہی تھی۔ جب پرواز ہموار ہو گئی تو مجھے کسی نہ کسی طور جھنجھوڑ کر اسے اٹھانے کی اپنی خواہش کو دبانا پڑا کیوں کہ اس پرواز کے آخری گھنٹے میں اس کی ناراضگی کی قیمت پر بھی میں اسے جاگتے دیکھنا چاہتا تھا تا کہ میں اپنی آزادی بحال کر سکوں اور شاید اپنی جوانی بھی لیکن میں ایسا نہ کر سکا۔ میں نے شدید غصے کے عالم میں اپنے آپ سے کہا۔ ’دفع کرو! میں Taurus پیدا کیوں نہیں ہوا تھا۔‘
جب اتران کے وقت روشنیاں جلیں تو وہ خود بہ خود ہی جاگ گئی۔ وہ اتنی ہی خوب صورت اور تروتازہ تھی جیسے کہ وہ کسی گلاب باغ میں سوئی رہی ہو۔ اس وقت مجھے یہ احساس بھی ہوا کہ بوڑھے شادی شدہ جوڑوں کی طرح ہوائی جہازوں کی قریبی نشستوں پر بیٹھے لوگ بھی جاگنے پر ایک دوسرے کو صبح بخیر نہیں کہتے۔ اس نے بھی ایسا کچھ نہیں کیا۔ بس اپنے چہرے والا خول اتارا، اپنی چمک دار آنکھیں کھولیں، نشست کی پشت سیدھی کی، کمبل ایک طرف کیا، اپنے بالوں کو ہلایا جو خود بہ خود اپنی جگہ پر سیدھے ہو گئے۔ میک اپ بکس اپنے گھٹنوں پر رکھا اور تیزی سے ایک غیر ضروری قسم کا سنگھار کیا۔ اس سب عمل میں تقریباً اتنا ہی وقت لگا کہ دروازہ کھلنے تک اس نے میری طرف نہیں دیکھا۔ پھر اس نے جنگلی بلی کی کھال سے بنی اپنی جیکٹ پہنی اور جب اس کا قدم تقریباً مجھ پر پڑ ہی گیا تو خالص لاطینی امریکی ہسپانوی لہجہ میں محض رسمی سی معذرت کی اور پھر مجھے خدا حافظ کہے بغیر یا کم از کم اس سب کے لیے میرا شکریہ ادا کیے بغیر کہ جو کچھ میں نے اس رات کو خوش گوار بنانے کے لیے کیا تھا، چل دی اور نیویارک کے ایمیزون جنگل میں غائب ہو گئی۔