ہر تیسرا بندہ ڈپریشن میں کیوں جا رہا ہے؟

حسنین جمال

ہماری گلی میں اکثر کوئی نہ کوئی مکان بن رہا ہوتا تھا، جیسے مڈل کلاس میں ہوتا ہے، پیسے اور بچے بڑھتے ہیں تو دوسری چھت ڈالی جاتی ہے پھر تیسری چھت، تو بس یہ چلتا رہتا تھا۔

مستری مزدور صبح چھ سات بجے آواز لگاتے، ’پردے والو، پردہ کر لئوووو۔‘ اور اس لمبی آواز کے بعد وہ بے غم ہوتے سارا دن لکڑی کی سیڑھیاں چڑھنے اترنے کے لیے۔ ان کے سامان میں بہت سی چیزیں رات کو چھوڑ کر جانا پڑتی تھیں، ریت، مٹی، بجری، سب کچھ باہر گلی میں پڑا ہوتا یا کسی گھر کا صحن کھلا ہوتا تو وہ لوگ ادھر رکھوا دیتے۔

اب جس دن بارش ہوتی، بچوں کی عید ہو جاتی۔ ہم لوگ گیلی ریت میں پاؤں ڈالتے، آس پاس سے تھپکیاں دیتے اور غار نما ایک گھر تیار ہو جاتا۔ اس گھر کی پھر ڈیکوریشن شروع کر دیتے۔ جب تک امی کی آواز یا ابو خود واپس گھر نہ بلاتے، تب تک اپن لوگوں کا دل پسند کام بس یہی ہوتا تھا۔

وہ ریت کے گھر ہم لوگ کیوں بناتے تھے؟ انسان کی عادت ہے، کوئی کام اچھا کرنا، اس پہ مطمئن ہونا، خوش ہونا اور پھر دوسروں کو بُلا کر وہ سب کچھ دکھانا اور ان سے تعریف سمیٹنا۔

تو ان ریت کے گھروں کی تعریف کرنے کے لیے ہمیں کوئی چاہیے ہوتا تھا۔ جو لوگ ہم سے بڑے تھے، ان میں دو قسم کے بندے ہوتے تھے، ایک وہ جو کہتے کہ ’ابے یہ کیا بنایا ہے، ہٹو ہم بنا کے دکھاتے ہیں گھر کیسا ہوتا ہے‘ دوسرے وہ جو سینے پہ بازو باندھے کھڑے ہوتے، جیسے کیمرہ کسی اونچی جگہ سے زمین کا شاٹ دکھاتا ہے، وہ اس طرح ایک نظر کرتے اور مسکرا کے کہتے کہ ’واہ بھئی استاد، کیا ظالم گھر بنایا ہے تم نے۔‘ جس دن ریت کا گھر زیادہ ہی پیارا بن جاتا اور ہم نے ڈیکوریشن میں آس پاس کے درختوں کی ٹہنیاں بھی ٹانگی ہوتیں، تب گھر جا کے زبردستی امی، ابو یا کسی بڑے کو باہر گھسیٹ لاتے، ان کو بھی تعریف پہ مجبور کرتے۔

ہمارے پاس اگر کیمرے ہوتے اور کچھ پیسے، تو کیا ہوتا؟ ان گھروں کی ہم تصویریں کھینچتے، اپنے ماں باپ کو دکھاتے، جاننے والوں کو دکھاتے، رشتے داروں کو ڈاک سے بھیجتے، کوئی پتہ نہیں چوک میں لٹکا دیتے اور ساتھ کھڑے ہو جاتے کہ جو بھی گزرے گا، اس کو بتائیں گے اور دیکھیں گے کہ وہ کیا کہتا ہے ہمارے ’فن‘ کے بارے میں۔

ہماری زندگی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو حاصل کرنے، ان پر خوشی منانے، آگے بڑھنے، رُکنے، جو چیز نہیں ملی اس پہ غمگین ہونے، اور بس اسی طرح چلتے رہنے کا نام ہے۔ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اس خوشی اور غمی کو شیئر کرنے کے لیے بچپن میں ہم لوگوں کو لائیو انسان، زندہ سلامت بندے، دوست یار، محلے دار، رشتے دار سب میسر تھے، اب ایسا نہیں ہے۔

اب کیا ہوتا ہے، تین بچے بیٹھے ہیں، وہ ریت کے تین گھر بنائیں گے، کوئی اپنے انسٹا پہ لگائے گا، کوئی ٹک ٹاک پہ ٹانگے گا، کوئی فیس بک پہ جائے گا اور اپنے اپنے حصے کی داد سب سمیٹ لیں گے، لیکن اس بیچ سے انسان کہاں گئے؟ وہ جو سینے پہ ہاتھ باندھے مسکراتی نظروں سے دیکھ رہے ہوتے تھے؟

سوچیے، بارش ہوتی ہے، آپ سارے دوست کسی پُرفضا مقام پر بیٹھے ہیں، فینسی قسم کی جگہ ہے، چائے کافی چل رہی ہے، غور کریں کہ آپ باتیں کتنی دیر کرتے ہیں اور اپنے اپنے فونوں سے ماحول کی خوبصورتی جذب کرنے میں کتنا وقت صرف کرتے ہیں۔

ہوا یہ ہے کہ وقت کو، کامیابی کو، خوشی کو، بلکہ ناکامی اور غم کو بھی ہم لوگوں نے انسانوں سے بانٹنا چھوڑ دیا ہے اور ٹوٹل موبائل کے پنجرے میں بند ہو کے بیٹھ گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پہ بھی انسان ہوتے ہیں لیکن وہ ڈائریکٹ کنیکشن کہاں ہوتا ہے جو آمنے سامنے بیٹھ کے ہوا کرتا تھا؟

میں غلط کہہ رہا ہوں؟ چلیے، فرض کریں کہ آپ نے امتحان میں ٹاپ کیا ہے، موبائل فون آپ کی زندگی میں نہیں ہے۔ آپ اپنی خوشی کس طرح منائیں گے؟ کون کون ایسا بندہ آپ کے ذہن میں آتا ہے کہ جس کے پاس جائیں اور اسے یہ خوشی کی خبر سنائیں، اس کے ساتھ کہیں بیٹھ کے کھانا وغیرہ کھا لیں؟ اس سے کوئی تحفہ مل جائے آپ کو چھوٹا موٹا سا؟

ہمارے زمانے میں محلے بھر کو مٹھائی بھیجی جاتی تھی ایسے کیس میں، رشتے داروں کا کھانا ہوتا تھا، دور دراز والوں کو خط میں لکھ کے بتاتے تھے، جواب میں شاباشیں ہوتی تھیں۔۔ کبھی خط کے اندر سے ہی ایک دو نوٹ نکل آتے، واہ واہ سبحان اللہ، موج ہو جاتی۔ اب کیا ہوتا ہے؟

آپ نے سرٹیفیکیٹ کی ایک فوٹو نکالی، گاؤن سمیت سر پہ ڈگری والی ٹوپی چڑھا کے تصویر بنائی، ایک سیلفی کھینچی رزلٹ کارڈ کے ساتھ اور ’گائز‘ کو اطلاع کر دی کہ آپ اول نمبر پہ ہیں۔ مبارک سلامت کے ڈھیر وہیں پوسٹ پہ لگ گئے لیکن کتنے لوگ آ کے گلے ملے؟ سر پہ ہاتھ رکھا؟ شاباش خود مل کر کتنے لوگوں نے دی؟

یہ آپ کی زندگی میں سب سے خوبصورت ریت کا گھر تھا، اہم ترین واقعات میں سے ایک تھا لیکن کتنا خوش ہو لیے آپ؟ اور جب کوئی ایک آدھ دوست ملنے آیا بھی تو اس کے ساتھ پھر وہی تصویریں اور فیس بک، وہی ویڈیوز اور ٹک ٹاک، وہی ریلز اور انسٹا ۔۔۔ مطلب کیا ہوا کہ ہم گلی محلے کے بجائے اپنے ورچوئل گھروں میں زیادہ خوش ہیں؟

نقصان کیا ہوا، ذرا سی گردن گھمائیں اور دیکھ لیں دائیں بائیں، ہر تیسرا بندہ ڈپریشن کی پوسٹیں لگا رہا ہے، ہر چوتھا بندہ اکیلے پن کا شکار ہے اور مجھ سمیت ہر ایک انسان کو چوبیس گھنٹے ’کونٹینٹ‘ درکار ہے۔

کس لیے؟ ہوائی تعریف سے پیٹ بھرنے کے لیے؟ وہی جو ریت کے گھر والی خوشی ہوتی تھی، اس جیسا کچھ حاصل کرنے کے لیے؟ سوشل میڈیا اکاؤنٹ میرے، آپ کے، ہم سب کے ریت والے گھر ہیں، گھیر گھار کے ہم لوگوں کو بلاتے ہیں یہاں لیکن ملتا کیا ہے؟ ورچوئل خوشی؟ مصنوعی داد؟ آرٹیفیشل اطمینان؟

یہ ٹھیک نہیں ہے استاد! میں پیشگوئی کر رہا ہوں کہ ایک نئی تحریک چلے گی، جس میں نوجوان موبائل پھینک پھانک کے دوبارہ انسان ڈھونڈنے کی مہم پہ نکل جائیں گے، اور جب تک ایسا نہیں ہوتا تب تک میرا خیال ہے کہ ہمیں کم از کم دس دوست ایسے ضرور بنانے چاہئیں جو ڈی پی یا کونٹینٹ کے بجائے ہماری گرم جوشی کی وجہ سے ہمیں یاد رکھتے ہوں اور جن سے ہمارا تعلق ایسا کہ ہو اگر ہم کبھی ٹاپ کر جائیں یا سانپ سیڑھی والی اس زندگی میں 99 سے صفر پہ آ جائیں تو ان کے پاس جا کے رو سکیں اور وہ ہمیں گلے لگا سکتے ہوں۔

باقی جو ہونا ہے اسے آج تک کون روک سکا جو اب رکے گا!

بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close