1952 کا عظیم لندن سموگ، جس نے شہر کا دم گھونٹ دیا۔۔

ویب ڈیسک

سن 1952 کا دسمبر کا مہینہ لندن پر گہرا کہر اور سردی کا سایہ لے کر آیا تھا۔ طاقتور سورج کی کرنیں کمزور پڑ کر کثیف کہر کے بوجھل پردے میں دب کر گم ہو گئیں۔ یوں لگتا تھا، جیسے رات کے پردے نے خود کو لندن کی فضاؤں میں گھول دیا ہو اور لندن کی گلیاں، بازار اور بلند و بالا عمارتیں اس دھند کے دبیز لحاف میں دب چکی ہوں۔

یہ عام کہر نہیں تھی، بلکہ کچھ اور تھا؛ ایک بھاری، سانس میں گھل جانے والی دھند، جو لوگوں کے سینے میں ایک گھٹن اور آنکھوں میں جلن پیدا کر رہی تھی۔ لوگ اپنے کپڑوں میں منہ چھپائے، مفلر میں لپٹے، ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے گلیوں سے گزرتے تھے۔ اسکولوں میں بچے خوف کے مارے گھروں کو واپس چلے گئے، اور تھیٹر، سینما گھروں اور دکانوں کو جیسے تالے ہی لگ گئے۔

لندن کے مشہور دریائے ٹیمز کی فضائیں، جو کبھی سورج کی روشنی میں دمکتی تھیں، اب اندھیرے میں ڈوب گئی تھیں۔ یوں محسوس ہوتا کہ لندن کا دل دھڑک تو رہا ہے مگر اس کی دھڑکن کہیں دب کر رہ گئی ہے۔

گھروں کے چولہے، کارخانوں کے بھٹّے، اور کاروں کے انجنوں سے نکلتا ہوا دھواں اس سموگ کی شدت کو بڑھا رہا تھا۔ لوگوں کو سانس لینے میں مشکل پیش آنے لگی۔ کچھ تو اس قدر بوجھل اور تھکاوٹ سے چور ہو گئے کہ بیمار ہونے لگے۔ یہ سموگ چار دن تک لندن کے اوپر جیسے کوئی عذاب بن کر چھایا رہا۔

کئی برس بعد، یہ انکشاف ہوا کہ اس عظیم سموگ نے ہزاروں لوگوں کی جانیں لے لیں۔ اس وقت لندن کا یہ تاریخی لمحہ ایک دردناک یادگار کے طور پر ہمیشہ کے لیے دل و دماغ میں نقش ہوگیا۔

جی ہاں۔۔ 1952 کا عظیم لندن سموگ جدید تاریخ کی سب سے شدید ماحولیاتی آفات میں سے ایک ہے، جس کے عوامی صحت، شہری پالیسی اور ماحولیاتی قانون سازی پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اس کے نتائج نے پارلیمنٹ کو چار سال بعد کلین ایئر ایکٹ پاس کرنے پر مجبور کیا، جو ماحولیات کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔

یہ واقعہ، جس نے برطانوی دارالحکومت کو کئی دنوں تک ایک گھنے، مہلک دھند میں ڈھانپ دیا، ہزاروں افراد کی جانیں لے گیا اور مزید بے شمار لوگوں کو سانس کی بیماریوں میں مبتلا کر دیا۔ اس فیچر میں ہم اس بدنام زمانہ سموگ کی وجوہات، اس کے تباہ کن اثرات اور مستقبل میں ایسی آفت سے بچنے کے لیے کیے گئے اقدامات اور پالیسیوں کا جائزہ لیں گے۔۔ کیونکہ اب ہمارے شہر بھی اس کی لپیٹ میں ہیں، جیسا کہ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔ پنجاب کے بڑے شہر اور دارالحکومت لاہور میں اسموگ اس وقت عروج پر ہے۔ اگرچہ لاہور جیسے شہروں میں سال بھر ایئر کوالٹی خراب رہتی ہے لیکن اکتوبر سے جنوری کے درمیان یہ مہلک حد تک بگڑ جاتی ہے، جہاں اکثر اوقات ایئر کوالٹی انڈیکس 500 سے بھی زائد ریکارڈ کیا جاتا ہے۔

تو چلیے بات کرتے ہیں کہ عظیم لندن سموگ کے دوران ہوا کیا تھا؟

5 دسمبر سے 9 دسمبر 1952 تک، لندن ایک زردی مائل سیاہ، بدبودار دھند میں ڈوبا رہا جو اتنی گہری تھی کہ کچھ علاقوں میں حد نگاہ نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ لندن کے بعض علاقوں میں حد نگاہ اتنی کم ہو گئی کہ پیدل چلنے والے اپنے پیروں تک کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ زیر زمین ریل کے علاوہ، ٹرانسپورٹ کا نظام تقریباً مفلوج ہو گیا۔ ایمبولینس سروس بھی متاثر ہوئی، اور لوگوں کو سموگ میں خود اسپتال پہنچنا پڑا۔ بہت سے لوگوں نے سڑک پر ہی اپنی گاڑیاں چھوڑ دیں۔ اندرونی کھیل اور کنسرٹس منسوخ کر دیے گئے کیونکہ شائقین اسٹیج کو دیکھنے کے قابل نہیں تھے، اور جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا۔ نمونیا اور برونکائٹس سے متعلق موت اور اسپتال داخلے کی تعداد میں اضافہ ہوا، اور اسمتھ فیلڈ میں مویشیوں کے گلنے کی اطلاعات ملیں۔ یہ دھند پانچ دن تک جاری رہی اور آخرکار 9 دسمبر کو ختم ہوئی، لیکن اس کی شدت کا صحیح اندازہ تب ہوا جب چند ہفتے بعد رجسٹرار جنرل نے اموات کی تعداد شائع کی۔

یہ عام دھند نہیں تھی بلکہ آلودگیوں سے بھری ہوئی تھی، خاص طور پر کوئلے کے جلنے سے پیدا ہونے والی آلودگیوں سے۔ اس وقت لندن گھروں کی حرارت اور کارخانوں کو چلانے کے لیے کم معیار، سلفر سے بھرپور کوئلے پر انحصار کرتا تھا، جو دسمبر کے اوائل میں سردی کی لہر کے دوران بڑھ گیا تھا۔ یہ، بجلی گھروں اور موٹر گاڑیوں کے اخراج کے ساتھ مل کر، ایک مہلک آمیزہ بناتا تھا۔ ایک موسمیاتی مظہر جسے ’درجہ حرارت کی الٹی پھیر‘ کہا جاتا ہے، ٹھنڈی ہوا اور آلودگی کو زمین کے قریب پھنساتا تھا اور سموگ کو بکھرنے سے روکتا تھا۔

عظیم لندن سموگ کے نتیجے میں ایک ہفتے کے دوران تقریباً 4,000 افراد کی وقت سے پہلے موت ہوئی۔ تاہم، بعد کی تحقیقات اور رپورٹس میں طویل المدتی اثرات کی نشاندہی کی گئی، اور چند ہفتوں اور مہینوں کے دوران کل اموات کی تعداد 12,000 تک پہنچ گئی۔ موت کی بنیادی وجوہات سانس اور قلبی نظام کی پیچیدگیاں تھیں، جنہیں زہریلے سموگ نے مزید بگاڑ دیا تھا۔ جبکہ اس کے دور رس اثرات اس کے علاوہ ہیں۔

لوگ شدید حالات کا شکار ہوئے جیسے کہ برونکائٹس، نمونیا، اور دیگر سانس کی بیماریاں۔ بزرگ، شیر خوار بچے، اور وہ افراد جنہیں پہلے سے صحت کے مسائل تھے، خاص طور پر خطرے میں تھے۔ اندازہ ہے کہ تقریباً 100,000 افراد سموگ کی وجہ سے شدید بیمار پڑے۔ ہسپتالوں میں سانس لینے میں دشواری اور دیگر متعلقہ مسائل کے مریضوں کی بھرمار ہو گئی۔

دھند کا یہ سلسلہ فطرتی فضائی تشکیل نہیں تھی۔ پانی کے بخارات کوئلہ جلانے والی فیکٹریوں سے نکلنے والے ذرات پر چپک جاتے، جس سے اندھیرے اور بھاری بادل بنتے اور حد نگاہ میں کمی آتی۔ اس طرح کی دھند کو بعد میں ’سموگ‘ کہا جانے لگا (یعنی دھواں اور دھند کا ملاپ)، جو 20ویں صدی کے اوائل میں ایک لندن والے نے وضع کیا تھا۔

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق ’لندن کی دھند‘ کا مظہر 1950 کی دہائی کے اوائل کے بحران سے بہت پہلے کا تھا۔ 19ویں صدی تک یہ گہری، زردی مائل دھند، جسے ’مٹر کے سوپ‘ کی طرح کہا جاتا تھا، لندن کی پہچان بن چکی تھی۔ لیکن لندن میں آلودہ دھند کا مسئلہ 13ویں صدی سے ہی کوئلے کے جلانے کے سبب شروع ہو چکا تھا، اور شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ صورتحال مزید بگڑتی گئی۔ 1600 کی دہائی میں دھوئیں اور آلودگی سے متعلق شکایات میں اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں بادشاہ جیمز اول کے دور میں کوئلے کے جلانے کو محدود کرنے کے لئے قانون سازی کی گئی، جو آخرکار غیر مؤثر ثابت ہوئی۔ 1700 کی دہائی کے آخر میں تیزی سے بڑھتی ہوئی صنعتکاری نے حالات کو اور بھی بدتر بنا دیا۔

دراصل ہوا کی آلودگی کا بحران 19ویں صدی میں صنعتی انقلاب کے پھیلاؤ اور شہر کے تیزی سے بڑھنے کے ساتھ شدت اختیار کر گیا۔ عمومی طور پر، 20ویں صدی میں لندن کی دھند کم ہوتی گئی تھی، کیونکہ فیکٹریاں شہر سے باہر منتقل ہونے لگیں۔ تاہم، 5 دسمبر کو ایک اینٹی سائیکلون لندن پر چھا گیا، جو ایک ہائی پریشر موسمی نظام تھا جس نے سرد ہوا کو اوپر کی گرم ہوا کے نیچے قید کر دیا۔ نتیجتاً، فیکٹریوں اور گھریلو آگ سے نکلنے والے اخراج فضاء میں نہیں جا سکے اور زمین کے قریب محصور ہو گئے۔ اس کا نتیجہ شہر کی تاریخ کی بدترین آلودگی پر مبنی دھند کی صورت میں سامنے آیا۔

اس سموگ کی بنیادی وجوہات کی بات کی جائے تو بطور ایندھن استعمال ہونے والے کوئلے کے جلنے سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی تھی۔ لندن کا کوئلے سے چلنے والے ہیٹنگ سسٹمز اور صنعتی فیکٹریوں پر انحصار، جو زیادہ سلفر والے کوئلے جلاتی تھیں، کا مطلب تھا کہ بڑی مقدار میں سلفر ڈائی آکسائیڈ اور ذرات ہوا میں خارج ہو رہے تھے۔ موسم سرما کے دوران لندن میں دھند کی موجودگی، جو ایک عام بات تھی، نے ان آلودگیوں کے جذب ہونے میں مدد دی، جس سے ہوا میں سلفیورک ایسڈ بننے لگا۔ یہ صنعتی آلودگی اور ہائی پریشر موسمی حالات کے امتزاج کی وجہ سے ہوا تھا ۔

یہ ماحولیاتی آفت ناقص قوانین سے مزید پیچیدہ ہو گئی جو صنعتی ذرائع اور گھریلو کوئلے کے استعمال سے ہونے والی آلودگی کو کنٹرول کرنے میں ناکام تھے۔ مزید برآں، شہری ترقی اور صنعتی نمونے اس نقصان کے پنپنے میں اہم کردار تھے اور بنیادی ڈھانچہ اسے سنبھالنے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔

عظیم لندن سموگ نے پالیسی سازوں کے لیے ایک زوردار انتباہ کا کام کیا، جس کی وجہ سے ماحولیاتی پالیسی اور شہری منصوبہ بندی میں اہم اصلاحات کی گئیں۔ 1952 کے واقعات کے بعد، لندن کی فضائی آلودگی کی سنگینی کو نظر انداز کرنا ممکن نہ رہا۔ برطانوی حکومت نے ابتدا میں سست ردعمل دکھایا، لیکن بالآخر 1956 میں ’کلین ایئر ایکٹ‘ منظور کیا گیا، جو اس مہلک دھند کا براہ راست جواب تھا۔ اگرچہ تبدیلی آہستہ آئی اور 1962 میں ایک اور سموگ بحران سامنے آیا، لیکن کلین ایئر ایکٹ کو ماحولیاتی تحریک کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ سمجھا جاتا ہے۔

اس ایکٹ نے کئی اقدامات متعارف کروائے، بشمول:

● اسموک کنٹرول ایریاز کا قیام: اس ایکٹ نے ایسے علاقوں کی تشکیل کو لازمی قرار دیا جہاں صرف دھوئیں سے پاک ایندھن کا استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اس سے فضا میں چھوڑے جانے والے آلودہ ذرات کی مقدار کم کرنے میں مدد ملی۔

● کوئلے کے استعمال کی ضابطہ بندی: ایسی پالیسیاں بنائی گئیں جن کے تحت زیادہ سلفر والے کوئلے کے استعمال کو ختم کیا گیا اور متبادل، صاف ہیٹنگ سسٹمز کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

● صاف توانائی کے ذرائع کی تشہیر: حکومت نے ماحول دوست توانائی کی ٹیکنالوجیز کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی، جس سے ماحولیاتی پائیداری پر مرکوز جدید توانائی پالیسیوں کی بنیاد رکھی گئی۔

● اور سب سے اہم گرین بیلٹس کا تحفظ اور شہری منصوبہ بندی: فضائی آلودگی سے نمٹنے کے علاوہ، برطانوی حکومت نے لندن کے گرد سبز علاقوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے تاکہ شہری پھیلاؤ کو روکا جا سکے اور فضائی معیار کو بہتر بنایا جا سکے۔ گرین بیلٹ کا تصور، جو ایک شہر کے گرد محفوظ کھلی زمین کا علاقہ ہوتا ہے، شہری منصوبہ بندی کے اقدامات کا حصہ بن گیا۔

ان اقدامات کے درجِ ذیل مقاصد تھے:

● لندن کے گرد قدرتی مناظر اور جنگلات کا تحفظ۔
● شہری علاقوں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک حفاظتی بفر زون بنانا، جس سے عوامی صحت اور تفریح کے لیے بڑے سبز مقامات برقرار رہیں۔
● کم فوسل فیول انحصار کے ساتھ پائیدار شہری علاقوں کی ترقی کی حوصلہ افزائی۔

1952 کا عظیم لندن سموگ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ حکومتیں اور معاشرے فضائی معیار اور عوامی صحت کا انتظام کرنے میں کتنے اہم ہیں۔ ہزاروں جانوں کا ضیاع اور آلودگی سے گھری ایک شہر کے المناک مناظر نے پالیسیوں میں ایسی تبدیلیوں کو جنم دیا جنہوں نے نہ صرف لندن کو صاف کیا بلکہ عالمی سطح پر ماحولیاتی قانون سازی کو بھی متاثر کیا۔ یہ واقعہ فضائی معیار کے بہتر معیارات اور پائیدار شہری ترقی کی طرف عالمی تحریک کی بنیاد بنا۔

آج، عظیم سموگ سے حاصل کردہ سبق زیادہ متعلقہ ہیں، کیونکہ دنیا بھر کے شہر اب بھی آلودگی، شہری ترقی، اور ماحولیاتی تحفظ سے نبرد آزما ہیں۔ سموگ کے بعد متعارف کروائی گئی پالیسیاں اور اقدامات صنعتی ترقی، عوامی صحت، اور ماحولیاتی تحفظ کے درمیان توازن کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close