تلوار کی شکل (ارجنٹینی ادب سے منتخب افسانہ)

خورخے لوئیس بورخیس (ترجمہ: عقیلہ منصور جدون)

اس کے چہرے پر راکھ کے رنگ کا ایک بد نما زخم کا نشان تھا، تقریباً مکمل قوس نما، جس کے ایک طرف کنپٹی اور دوسری طرف رخسار کی ہڈی تھی۔ اس کے اصل نام سے کسی کو کوئی سروکار نہیں تھا۔ ٹاکوریمبو میں سب اسے لاکولوراڈو کا انگریز کہتے تھے۔ کھیتوں کا مالک کارڈوسا اپنے کھیت کسی کو بیچنا نہیں چاہتا تھا، لیکن مجھے بتایا گیا کہ اس انگریز نے ایسی غیر متوقع حکمت عملی اپناتے ہوئے اپنے زخم کے نشان کا راز بتایا کہ مالک نے اسے کھیت بیچ دیے۔ یہ انگریز سرحدی علاقے ریوگرینڈڈی سل سے آیا تھا۔ سب کی رائے تھی کہ وہ برازیل میں اسمگلر تھا۔ خریدے گئے کھیتوں میں ہر وقت گھاس کی بہتات اور پانی موجود رہتا۔ انگریز نے ان خامیوں کو دور کرنے کے لئے اپنے ملازمین کے ساتھ مل کر ان جتنی محنت کی۔ کہا جاتا ہے وہ ظالمانہ حد تک سخت گیر تھا لیکن محتاط حد تک منصف مزاج بھی تھا۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ وہ بہت زیادہ شراب پیتا تھا۔ سال میں کئی دفعہ وہ اپنے موسم گرما کے لئے بنائے گئے گھر کے ایک کمرے میں بند ہو جاتا۔ دو یا تین دن بعد ایسی حالت میں برآمد ہوتا، گویا محاذِ جنگ سے آیا ہو۔ مدہوش، زرد، متزلزل، خوف زدہ اور پہلے جیسا مطلق العنان۔۔ مجھے اس کی جذبات سے عاری آنکھیں، توانائی سے بھر پور دبلا پن، سرمئی مونچھیں یاد ہیں۔ وہ کوئی دوست نہ بناتا۔ ہسپانوی زبان بس واجبی سی جانتا تھا۔ برازیلین ازم کا شکار تھا۔ ماسوائے کبھی کبھار کاروباری فائلوں کے، کوئی ڈاک اس کے نام نہ آتی۔۔

پچھلی دفعہ جب میں شمالی اضلاع کا سفر کر رہا تھا تو کارا گوا ٹا (برازیل کا ایک شہر) میں سیلاب کے باعث مجھے لاکولو راڈو میں شب بسری کے لئے رکنا پڑا۔ کچھ لمحوں بعد ہی میں نے محسوس کر لیا کہ یہاں میری آمد نامناسب تھی۔ میں نے اس انگریز کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے حب الوطنی کے موضوع پر بات شروع کر دی کہ انگریز قوم کو بخشی گئی حب الوطنی کی روح ناقابل شکست ہے۔ جس پر میرے میزبان نے میری بات سے اتفاق کیا لیکن مسکراتے ہوئے مجھے بتایا کہ وہ انگریز نہیں ہے بلکہ ڈنگروان / Dungarvan کا آئرش ہے۔۔ یہ کہتے ہی وہ رک گیا، جیسے وہ اپنا کوئی راز فاش کر بیٹھا ہو۔

کھانے کے بعد ہم کھلے آسمان کے نیچے باہر آ گئے۔ بارش ختم ہو چکی تھی، لیکن جنوبی پہاڑیوں پر بجلی کی کڑک و چمک سے شگاف پڑ رہے تھے۔ ایک اور طوفان کی آمد آمد تھی۔ خستہ حال ڈائینگ روم میں ملازم شراب کی بوتل رکھ آیا تھا۔ کافی دیر ہم خاموشی سے پیتے رہے۔

مجھے صحیح طرح یاد نہیں کہ کیا وقت تھا، جب میں نے محسوس کیا کہ میں مدہوش ہو چکا ہوں۔ نہ ہی مجھے یہ یاد ہے کہ کس تحریک، خوشی یا بوریت کے تحت میں نے زخم کے نشان کی بات کی۔۔ تو انگریز یکدم چوکنا ہو گیا۔ ایک لمحے کے لئے مجھے محسوس ہوا کہ وہ مجھے گھر سے اٹھا کر باہر پھینکنے والا ہے۔ کافی وقفے کے بعد بالآخر اس نے اپنی نارمل آواز میں کہا، ”میں تمہیں ایک شرط پر اپنے زخم کے نشان کی کہانی سناؤں گا کہ تم مجھے حقیقت جاننے کے بعد شرمندگی اور رسوائی سے بچاؤ گے نہیں“
میں راضی ہو گیا۔

یہ وہ کہانی ہے، جو انگریزی، ہسپانوی اور کچھ پرتگیزی بھی ملاتے ہوئے اس نے مجھے سنائی:

”1922 میں یا اس کے قریب قریب کناٹ Connaught (آئرلینڈ کے اندر مغرب میں واقع صوبہ) کے ایک شہر میں اپنے بہت سارے ساتھیوں کے ہمراہ میں بھی آئرلینڈ کی آزادی کے لئے جدوجہد کر رہا تھا۔ میرے ساتھیوں میں سے کچھ ’بات چیت برائے امن‘ کے باعث زندہ بچ گئے۔ بقایا حیران کن طور پر برطانوی جھنڈے کے نیچے سمندر اور صحراؤں میں جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک دن ایک بہت ہی نفیس ساتھی کو صبح دم بیرک کے صحن میں نیند کی مدہوشی میں ایک اسکواڈ نے گولی مار دی۔ بہت سارے رفیق خانہ جنگی کے دوران ایسی ہی بدقسمتی کا شکار ہو گئے۔ ہم ریپبلکن کیتھولک تھے۔ مجھے شک ہے کہ ہم رومان پسند تھے، آئرلینڈ ہمارے لئے یوٹوپئین مستقبل اور ناقابل برداشت حال تھا۔۔ بلکہ ایک تلخ، بےوقوفانہ دیو مالائی قصہ بھی تھا۔ آئرلینڈ ہمارے لئے سرخ دلدلیں اور گول مینار تھا۔ یہ پارنیل (آئرش نیشنلسٹ سیاستدان، جس نے گرفتاری کے بعد پرتشدد سیاست سے لا تعلقی اختیار کر لی تھی) کی لاتعلقی اور طویل منظوم کہانیاں تھا۔۔ جن میں بیلوں، مچھلیوں اور پہاڑوں کے قصے بیان کئے گئے، جو کسی دوسرے اوتار میں ہیرو تھے۔ ایک شام، جسے میں کبھی بھول نہیں سکتا۔۔ ہماری تنظیم کا ایک رکن جان ونسنٹ مون جرمنی کے شہر منسٹر سے آیا تھا۔ وہ بمشکل بیس سال کا تھا، نرم اور دبلا پتلا۔۔ اسے دیکھ کر پریشان کن حد تک تکلیف دہ احساس ہوتا کہ کم ہمت ہے۔ اس نے جوش و جذبے سے کمیونسٹ کتابچوں کا ہر صفحہ پڑھ رکھا تھا۔ اس کے نزدیک جدلیاتی مادیت ہر بحث کا اختتام تھا۔ اس کے خیال میں کسی دوسرے انسان سے محبت یا نفرت کرنے کی بے شمار وجوہات ہیں۔ مون دنیا کی تاریخ کو معاشی تنازعہ قرار دیتا۔ اس کا دعویٰ تھا کی آخری فتح انقلاب کی ہوگی۔ میرا جواب تھا کہ کچھ معززین ایسے مقاصد کا پیچھا بھی کرتے ہیں، جو ناقابل حصول ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔

لیکن رات ہو چکی تھی ہماری بحث ہال میں، سیڑھیوں پر اور گلیوں میں مٹر گشت کرتے ہوئے جاری تھی۔ مون کی رائے سے زیادہ میں اس کے غیر متزلزل، اٹل اور بے جھجھک لہجے سے متاثر تھا۔ یہ نیا کامریڈ بحث نہیں کرتا تھا بلکہ تحکمانہ اور غصے سے قانون نافذ کرتا تھا۔
جب ہم آخری گھر تک پہنچے تو غیر متوقع اچانک فائرنگ کی آواز سے ہکا بکا رہ گئے۔ (ہم نے جلد ہی فیکٹری کی بغیر کھڑکی والی دیوار کی اوٹ میں پناہ لے لی۔) ساتھ ہی کچی گلی میں گھوم گئے۔ایک سپاہی جلتی ہوئی جھونپڑی کی چکا چاند روشنی میں منڈلاتا ہوا برآمد ہوا۔ اس نے ہمیں چلّا کر رکنے کا حکم دیا۔ میں چلتا رہا۔۔ لیکن میرا ساتھی میرے ساتھ نہیں آیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا، جان ونسنٹ بے حس و حرکت کھڑا تھا۔ جیسے خوف سے پتھر بن گیا ہو۔ تب میں واپس مڑا، سپاہی کو ایک ہی ضرب سے مار گرایا۔ مون کو جھنجھوڑا، اس کی بےعزتی کرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا، لیکن خوف کی شدت سے وہ وہیں منجمد ہو چکا تھا۔ مجھے اسے پکڑ کر گھسیٹنا پڑا۔

ہم آگ اگلتی رات میں کھیتوں میں چھپ گئے، لیکن گولیوں کی بوچھاڑ نے ہمیں ڈھونڈ لیا۔ ایک گولی مون کے دائیں کندھے کو چھوتی ہوئی نکل گئی۔ جب ہم درختوں کی آڑ لینے کے لئے بھاگ رہے تھے تو مون ہلکی آواز میں کراہ رہا تھا۔

1922 کے موسمِ خزاں میں جنرل بارکلے کے مضافاتی مکان میں مجھے جگہ مل گئی (میں جنرل سے کبھی نہیں ملا تھا) اس وقت جنرل وہاں نہیں تھا۔ وہ سرکاری کام سے بنگال گیا ہوا تھا۔ وہ عمارت صدی سے کچھ کم ہی پرانی تھی، لیکن مخدوش اور تاریک تھی۔ بہت سے بے مقصد ہال اور پیچیدہ روشیں تھیں۔ لائبریری اور میوزیم پورے گراؤنڈ فلور پر پھیلے ہوئے تھے۔ متنازعہ اور بے مقصد کتابیں، جو انیسوی صدی کی جنگوں کی تاریخ پر مبنی تھیں۔ نیشا پوری تلواریں، جن کے نامکمل دائروں میں آج بھی ہوا اور خون ریزی ٹھہری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔۔ ہم وہان داخل ہو گئے۔ مون کو آواز دی۔ اس نے کانپتے خشک ہونٹوں سے سرگوشی کی کہ رات کے واقعات دلچسپ تھے۔ میں نے اسے طبی امداد دی، چائے کا پیالہ پکڑایا اور اس کا زخم دیکھا، جو بلکل سطحی تھا۔ یکدم وہ پریشانی سے بڑ بڑایا، ’تم نے خوف ناک خطرہ مول لیا‘ میں نے اسے سمجھایا کہ پریشان نہ ہو۔ خانہ جنگی نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا کہ تنظیم کے ایک بھی رکن کی گرفتاری ہمارے مقصد کے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔

اگلے دن تک مون کے حواس بحال ہو چکے تھے۔ اس نے مجھ سے سگریٹ لیتے ہوئے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی، کہ ہماری انقلابی تنظیم کے مالی وسائل کیا ہیں؟ اس کے سوالات قابلِ غور تھے۔ میں نے، جو سچ تھا، اسے بتا دیا کہ صورتحال بہت نازک ہے۔بندوق کا ایک فائر پورے جنوب کو ڈسٹرب کر سکتا ہے۔ ہمارے ساتھی ہماری واپسی کے منتظر ہیں۔ میرا اوور کورٹ اور ریوالور کمرے میں تھے۔ جب میں واپس آیا تو مون کو صوفے پر آنکھیں بند کئے لیٹا پایا۔ اسے شک تھا کے اسے بخار ہے، ساتھ ہی کندھے میں تکلیف دہ درد کی شکایت بھی کی۔ تب مجھے احساس ہوا کہ اس کی بزدلی ناقابلِ علاج ہے۔ میں نے اسے اپنا خیال رکھنے کا کہا اور نکل پڑا۔

مجھے اس خوف زدہ آدمی پر شرم آ رہی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا شاید ونسنٹ نہیں میں بزدل ہوں۔ ایک انسان کا عمل پوری انسانیت کا عمل ہے۔ اس لئے یہ غیر منصفانہ نہیں کہ بہشت میں ایک کی حکم عدولی پوری انسانی نسل کو ناپاک کر دے۔ اسی طرح ایک یہودی کا مصلوب ہونا سب کو بچانے کے مترادف ہے۔ شاید شوپن ہار یہ کہنے میں حق بجانب تھا کہ میں ہر ایک ہوں اور ہر آدمی سب آدمی ہیں۔۔ اسی طرح شیکسپئیر بد نصیب جون ونسنٹ مون ہے۔

نو دن تک ہم جنرل کے وسیع گھر میں ٹھہرے رہے۔ اس وقت میں جنگ کی اذیتوں اور شان و شوکت کے حوالے سے کوئی بات نہیں کروں گا۔ میرا مقصد صرف اس توہین آمیز زخم کی کہانی سنانا ہے۔ یہ سارے نو دن، ماسوائے آخری سے پہلے دن کے، ایک جیسے تھے۔ اس خاص دن ہمارے ساتھیوں نے بیرک میں گھس کر ایک شخص سے ان سولہ کامریڈوں کا، جنہیں ایلفن (آئرلینڈ کا ایک مقام) کے مقام پر مشین گن کا نشانہ بنایا گیا تھا، انتقام لیا۔ ان دنوں میں طلوع فجر کے وقت گھر سے نکلتا اور رات گئے گھر واپس آتا۔ میرا ساتھی اوپری منزل پر میرا انتظار کرتا۔ وہ اپنے زخم کی وجہ سے نیچے نہیں آتا تھا۔ مجھے یاد ہے اس کے پاس ایف این، ماؤڈ آف کلوز وٹس کی حکمت عملی کے بارے میں کوئی کتاب ہوتی تھی۔ ایک رات اس نے میرے سامنے تسلیم کیا، ’میں جس ہتھیار کو ترجیح دیتا ہوں، وہ توپ خانہ ہے۔‘ وہ اکثر ہمارے ارادوں کے بارے میں پوچھتا، ان پر تنقید یا ترمیم کرتا۔ وہ ہماری افسوسناک مالی حالت کی مذمت کرتا۔ اپنے مخصوص نظریاتی اداس لہجے میں ہمارے تباہ کن انجام کی پیش گوئی کرتا، ’یہ بہت حساس معاملہ ہے‘ وہ بڑبڑایا۔ یہ دکھانے کے لئے کہ وہ اپنی بزدلی پر نادم نہیں، وہ اپنی دماغی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا۔ اس طرح، اچھے یا برے، دس دن گزر گئے۔۔

دسویں دن شہر ہمیشہ کے لئے سیاہ فاموں کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ لمبے خاموش گُھڑ سوار شہر کی سڑکوں پر گشت کرتے رہتے۔ ہوا راکھ اور دھویں سے بھری رہتی۔ گلی کی نکڑ پر پڑی لاش سے زیادہ مجھے عوامی چوک میں موجود اس ڈمی میں دلچسپی تھی، جسے سپاہی نشانہ بازی کی مشق
کے لیے استعمال کرتے تھے۔

اس دن میں حسبِ معمول طلوع آفتاب کے ساتھ گھر سے نکل گیا تھا، لیکن دوپہر میں واپس آ گیا۔ مون لائبریری کے فون سے کسی سے بات کر رہا تھا، کچھ توقف سے میں نے اپنا نام سنا، پھر یہ سنا کہ میں سات بجے تک واپس آؤں گا۔۔ اور پھر مجھے گرفتار کرنے کی ہدایات۔۔ میرا دوست مجھے بیچ رہا تھا۔۔! میں نے اسے اپنی ذات کی حفاظت کی گارنٹی مانگتے سنا۔ یہاں سے میری کہانی الجھ جاتی ہے۔

مجھے معلوم ہے میں نے مخبر کا تاریک، ڈراؤنے، خواب ناک برآمدوں اور کھڑی سیڑھیوں میں تعاقب کیا۔ مون مجھ سے زیادہ گھر کا واقف تھا۔ ایک دو دفعہ تو میں نے اسے کھو ہی دیا، لیکن آخر کار سپاہیوں کے مجھے گرفتار کرنے سے قبل میں نے اسے گھیر ہی لیا۔ جنرل کے ایک زرہ بکتر سے میں نے ایک چھوٹی چوڑی سی تلوار کھینچ لی، اس آدھے چاند کی شکل کے سٹیل سے میں نے اس کا چہرہ ہمیشہ کے لئے نشان ذدہ کر دیا۔

بورجس! تم ایک مکمل اجنبی ہو جس کے سامنے میں اعتراف کر رہا ہوں۔۔۔ تمہاری نفرت سے مجھے زیادہ دکھ نہیں ہو گا۔“

یہاں تک پہنچ کر وہ رک گیا۔میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔

”اور مون؟“ میں نے پوچھا

”اس نے غداری کی قیمت وصول کی اور برازیل چلا گیا“

میں نے کہانی جاری رہنے کا انتظار کیا۔۔ پھر میں نے اسے کہانی جاری رکھنے کا کہا، اس نے گہری آہ بھری، نرم اور میٹھے لہجے میں مجھے خم دار زخم دکھایا۔

”کیا تمہیں مجھ پر اعتبار ہے؟“ وہ ہکلایا، ”تم دیکھ نہیں رہے کہ بدنامی کا وہ داغ میرے چہرے پر ہے۔۔ میں نے تمہیں کہانی جان بوجھ کر اس انداز سے سنائی تا کہ تم اسے آخر تک سنو۔۔ میں نے اپنے محسن، جس نے مجھے پناہ دی، کو دھوکا دیا۔۔۔ میں ونسنٹ مون ہوں۔۔ اب مجھ سے نفرت کرو۔“

English Title: The shape of the sword
In Spanish, by: Jorge Luis Borges
English Translation: Angeles Flores

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close