![Urdu-fictions-and-short-stories](https://sangatmag.com/wp-content/uploads/2025/02/Urdu-fictions-and-short-stories-780x470.jpg)
کُشل دبے پاؤں اس طرح گھر میں گھسا تھا، جیسے گھر اس کا اپنا نہ ہو اور کھانسی آنے پر وہ گلی میں جا کر اس طرح جی بھر کر کھانس آیا تھا، جیسے مدن کو نصیحت کرنے کا موقع نہ دینے کے لئے وہ اکثر دکان کے باہر جا کر کھانسا کرتا ہے۔ پھر اس نے سوچا کہ وہ شاید اپنے اچانک آ جانے سے ترپتا کو چونکانا چاہتا ہے۔ یہ سوچ کر وہ مسکرا دیا کہ چونکانے کے لئے یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہی رہ گئی ہیں۔ ترپتا نے کُشل کو دیکھا تو حقیقت میں ہی چونک گئی۔ اس نے کُشل کو دیکھتے ہی کاغذوں کا ایک پلندا ٹرنک میں چھپا دیا، جسے وہ دیوار سے پیٹھ ٹکائے سرگوشیوں میں بڑی محویت سے پڑھ رہی تھی۔ اس کی آواز کے اتار چڑھاؤ کو بھی ہدف بنایا جا سکتا تھا۔ اس نے حال ہی میں دھوئے ہوئے بالوں کو جوڑے کے روپ میں اکٹھا کر کے ان پر اپنا سر اس طریقے سے رکھا ہوا تھا، جیسے بالوں سے تکیے کا کام لے رہی ہو۔ کُشل کو دیکھتے ہی اس کی پیشانی پر ڈھیر سارا پسینہ جمع ہو گیا اور وہ کھڑی ہو گئی۔ اس کے بال کھل کر کندھوں پر بکھر گئے۔ اس نے کارنش سے لال رنگ کا ربن اٹھایا اور بال باندھنے لگی۔ کُشل نے پلنگ پر بیٹھ کر اپنے جوتے اتارے اور بولا، ’’آج مدن دہلی گیا ہے اور میں اٹھ آیا۔‘‘
ترپتا کی قمیض پسینے سے بدن پر چپکتی جا رہی تھی۔ اور گردن سے پسینے کے قطرے نکل کر ہنسلی کی ہڈی پر ایسے رینگ رہے تھے، جیسے بارش کے بعد بجلی کی تاروں پر پانی رینگتا ہے۔ اس نے قمیض کے پلو سے منہ پونچھا اور بولی، ’’آج تو بہت گرمی ہے۔‘‘ پھر اس نے ٹرنک کو پلنگ کے نیچے سرکاتے ہوئے کہا، ’’میں تو سمجھی تھی، پرکاش کھانا لینے آیا ہوگا، آپ اس وقت کیسے آ گئے؟‘‘ پھر اس نے کُشل کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘
کُشل سوچنے لگا کہ اگر وہ ترپتا کی جگہ ہوتا تو اس وقت کیسے آ گئے کی جگہ پر ’کہاں سے ٹپک پڑے‘ کہتا۔ ترپتا کو آہستہ آہستہ سرخ ہوتے دیکھ کر اور ڈھونڈنے پر بھی نہ ملنے کے انداز میں ادھر ادھر گھومتے اور نظریں دوڑاتے دیکھ کر کُشل نے جیب سے ماچس نکال ترپتا کی جانب پھینکتے ہوئے کہا، ’’یہ لو۔‘‘
ترپتا نے ماچس دبوچ لی اور بولی، ’’آپ کیسے جان گئے تھے کہ میں ماچس ڈھونڈ رہی تھی۔‘‘
کُشل کو معلوم تھا کہ ترپتا ماچس نہیں ڈھونڈ رہی تھی، بلکہ چھوٹی سی بات کو لے کر پریشان ہو رہی تھی۔ اس نے صرف اس کی گھبراہٹ کم کرنے کے لئے ہی ماچس پھینکی تھی۔ پھر اس نے کہا، ’’میں جانتا تھا، چولہے پر تمہاری نظر نہیں جائے گی۔ اگرچہ تمہیں معلوم ہے کہ ماچس وہیں پڑی رہتی ہے۔‘‘
ترپتا نے چولہا جلایا اور چائے کا پانی چڑھا دیا اور پھر خود بھی کُشل کے قریب پلنگ پر آ کر بیٹھ گئی اور پاؤں ہلانے لگی۔ کُشل نے کہا، ’’پاؤں کیوں ہلا رہی ہو؟‘‘
ترپتا نے پیر ہلانے بند کر دیئے اور پاس رکھا تولیہ اٹھا کر رگڑ رگڑ کر منہ صاف کرنے لگی۔ پسینہ خشک گیا تھا اور وہ پھر بھی تولیہ نہیں چھوڑ رہی تھی۔ کُشل نے اسے مطمئن اور پرسکون کرنے کے لئے اپنے لہجے کو ایک دم نارمل بناتے ہوئے کہا، ’’کہانی لکھ رہی تھیں کیا؟‘‘ اس نے ترپتا کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا، ’’مجھے لگتا ہے کہ تم کہانیاں لکھتی رہو تو بہت بڑی مصنفہ بن جاؤ گی۔‘‘
ترپتا، کُشل کی طرف دیکھ کر مسکرائی اور اس کی بوشرٹ پر رینگتی ہوئی ایک چیونٹی پھینکتے ہوئے بولی، ’’شادی کے بعد تو کچھ بھی نہیں لکھا۔ وہی پرانی کہانی پڑھ رہی تھی، جسے سن کر آپ نے میرا بہت مذاق اڑایا تھا۔‘‘ وہ پھر پاؤں ہلانے لگی اور شکایتی انداز میں کُشل کی طرف دیکھنے لگی۔
کُشل نے محسوس کیا کہ کئی بار بیوقوف بنا کر اتنا مزہ نہیں آتا، جتنا بن کر آتا ہے۔ لیکن جب ترپتا بالکل مطمئن ہو گئی کہ کُشل مکمل طور پر بیوقوف بن چکا ہے تو کُشل کو وہ اچھا نہیں لگا۔ اس نے کہا، ’’عجیب بات ہے، ٹانگیں تو میری درد کر رہی ہیں اور ہلا تم رہی ہو۔‘‘ پھر اس نے کچھ دیر خاموش رہ کر کہا، ’’ترپتا! ذرا میری طرف دیکھو۔‘‘
ترپتا نے تولیے کو اوپر سرکا کر تھوڑی سی آنکھ ننگی کی اور پھر فوری طور پر منہ چھپاتی ہوئی بولی، ’’آپ مجھے ڈرا کیوں رہے ہیں؟‘‘
’’ڈرا کِسے رہا ہوں؟‘‘ کُشل کو ہلکی سی مسرت ہوئی۔ اس نے ترپتا کے ہاتھ سے تولیہ کھینچتے ہوئے کہا، ’’دیکھو چولہا شاید بجھ گیا ہے۔‘‘
ترپتا پوری قوت سے بھاگ کر چولہے کی طرف گئی، جیسے دودھ ابل گیا ہو، اور پھر کُشل کی طرف پیٹھ کر کے چولہے کے قریب رکھے پٹرے پر بیٹھ گئی۔
اچانک کُشل کو لگا کہ باتھ روم کا نل کھلا ہے۔ ویسے باتھ روم کا نل تب تک کھلا رہتا ہے، جب تک میونسپلٹی اس کی رگوں کو پانی مہیا کر سکتی ہے۔ اس سے پہلے گلی میں شور کرتے ہوئے بچوں کی آوازیں بھی اسے سنائی نہیں دے رہی تھیں۔ بچوں کا شور سن کر وہ اچانک مسکرا دیا۔ مدن جب کبھی موڈ میں ہوتا ہے تو دکان میں آنے والے گاہکوں کو کبھی کبھی کُشل کا حوالہ دے کر بتایا کرتا ہے کہ ’’ہندوستان میں تبھی چین سے سویا جا سکتا ہے،‘‘ مدن چٹکی بجا کر کُشل کو ہاف سیٹ چائے کا آرڈر دینے کا اشارہ کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھتا، ’’جب رات کو آپ بچوں کے رونے دھونے کو لوری سمجھیں اور صبح گلی کے ننھے منوں کے اجتماعی رونے دھونے سے آپ گھڑی کے الارم کا کام لیں۔‘‘
اتوار کی دوپہر تو کُشل جیسے تیسے کر کے گھر میں ہی گزار لیتا ہے، مگر اس وقت بچوں کی دھینگا مشتی نہ تو لوری کام دے رہی تھی اور نہ گھڑی کے الارم کی۔ اس نے ترپتا سے پوچھا، ’’کیوں ترپتا، گلی کے بچوں کے اسکول کب کھل رہے ہیں؟‘‘
ترپتا نے مسکرا کر پیچھے کی طرف دیکھا، وہ شاید اب تک سنبھل چکی تھی یا شاید مذکورہ سوال کی نوعیت سے متاثر ہو کر اس نے سوچ لیا تھا کہ کُشل کی نظر اتنی گہری نہیں ہے، جتنی کہ وہ سمجھ بیٹھی ہے۔ وہ چولہے سے کیتلی اتارنے لگی۔
اس نے کُشل کے لئے چائے کا کپ تیار کیا اور کُشل کو پکڑاتے ہوئے بولی، ’’آپ شیو بنا لیں، میں اس وقت تک آپ کے کپڑے استری کر دیتی ہوں۔ کتنا اچھا رہے، اگر آج سنیما چلیں۔‘‘
’’میرا خیال ہے سنیما تو ہم مدن کی واپسی تک نہیں جا سکیں گے۔ اسے دہلی جانا تھا، میں نے پیسے نہیں مانگے۔‘‘
’’سنیما جتنے پیسے میرے پاس ہیں۔‘‘ ترپتا نے پاؤں سے ٹرنک کو پلنگ کے نیچے مزید دھکیلتے ہوئے کہا، ’’کل سوم دے گیا تھا۔‘‘
کُشل کی لمبی ناک چائے کے کپ میں ڈوب گئی، اس نے آخری گھونٹ بھرنے کے بعد خالی کپ ترپتا کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا، ’’پہلے چائے کا ایک اور کپ، بعد میں کچھ اور۔‘‘
کل ہی کُشل، سوم کی باتوں کا لطف اٹھا رہا تھا۔ کل جب سوم گھر کا پتہ جاننے کے لئے دکان پر آیا، تو کُشل جان بوجھ کر سوم کے ساتھ خود نہیں آیا تھا، بلکہ اس نے دکان کے چپراسی کے ساتھ سوم کو گھر بھجوا دیا تھا۔
جب سوم آیا تھا تو کُشل ایک خط ٹائپ کر رہا تھا، جب وہ چلا گیا، وہ پھر ٹائپ رائٹر پر جھک گیا اور ٹائپ کرنے لگا۔ سوم ڈرپوک تھا کہ ترپتا ڈرپوک تھی، نہیں سیانی۔۔ سوم ڈرپوک تھا، سوم ڈرپوک ہے، سوم ڈرپوک رہے گا۔ ترپتا ڈرپوک تھی، ترپتا ڈرپوک۔۔۔
کُشل نے مدن کی طرف دیکھتے ہوئے کاغذ نکالا اور میز کے نیچے لے جا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ شام کو جب وہ گھر واپس آیا تھا، تو سوم جا چکا تھا۔ کھانے کے بعد جب ترپتا طشتری میں آم لے کر آئی، تو اس نے جان بوجھ کر نہیں پوچھا کہ آم کون لایا تھا۔ آم کے چھلکے چوستے ہوئے ترپتا نے کہا تھا، ’’پانچ بجے تک سوم آپ کا انتظار کرتا رہا۔‘‘
کُشل نے جواب نہیں دیا اور ترپتا کو چائے کے لئے کہہ کر نل کی طرف چلا گیا تھا۔
’’سوم کہہ رہا تھا، ماں بہت یاد کر رہی تھیں۔‘‘ نل سے لوٹ کر کُشل نے دیکھا، ترپتا کی گالوں پر آم کا رس لگا تھا۔ اس نے ترپتا کی بات ان سنی کر دی اور تولیے سے اس کے گال پونچھ دیئے۔
چائے کا دوسرا کپ پیتے پیتے کُشل بھی پسینے سے بھیگنے لگا۔ اس نے بوشرٹ اتار پر پلنگ پر رکھ دی اور اپنی چھاتی کے گھنے بالوں میں رینگتا ہوا پسینہ پونچھنے لگا۔ سیاہ بالوں کے درمیان ایک سفید بال پر اس کی نظر گئی تو اس نے اسے انگلی پر لپیٹ کر جڑ سمیت اکھاڑ دیا اور پھر سے سینے پر ہاتھ پھیرنے لگا۔
ترپتا نے ٹیبل گھسیٹ کر کُشل کے آگے کر دی اور اس پر شیو کا سامان سجا دیا۔ کُشل منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے لگا۔
’’آپ اب شیو بنا لیجئے۔‘‘ ترپتا نے کہا اور کُشل کی اتاری ہوئی بوشرٹ کو چوہیا کی دم کی طرح پکڑ کر باتھ روم میں لے گئی۔
کُشل نے استرے میں بلیڈ فٹ کیا اور دیر تک منہ پر صابن کا جھاگ بناتا رہا، لیکن اس کا شیو بنانے کا جی نہیں ہو رہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اگر اس نے شیو بنا لیا تو نہانا بھی پڑے گا اور نہانے کے لئے وہ بالکل تیار نہیں تھا۔ اس کی پنڈلیوں میں درد ہو رہا تھا اور بدن کا ہر جوڑ دکھ رہا تھا۔ یہ صبح سے ہو رہا تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ وہ صبح بھی بغیر نہائے نکل گیا تھا۔ اس شاندار تھکن اور عجیب درد سے نڈھال ہو کر آج صبح اٹھتے ہی ترپتا سے کہا تھا کہ کیا وجہ ہے وہ کل سے بے پناہ لاڈ کر رہی ہے؟ کُشل کو چہرے پر جھاگ بناتے دیکھ ترپتا نے پوچھا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے؟
’’یہی کہ۔۔۔‘‘ کُشل نے استرے کو پانی میں گیلا کرتے ہوئے کہا، ’’اس پہلی کو ایک نیا پلنگ لے آؤں گا۔‘‘
ترپتا کو مشورہ بڑا فضول لگا، بولی، ’’میں تو بہت کم جگہ گھیرتی ہوں۔‘‘
’’کئی باتیں ابھی تمہاری سمجھ میں نہیں آ سکتیں۔ تم ابھی بچی ہو۔‘‘ کُشل نے آئینے میں سے ترپتا کی طرف کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے کہا، ’’کئی بار تو تمہارے منہ سے دودھ کی بُو بھی آتی ہے۔‘‘
ترپتا کچھ دیر اس کی طرف تکتی رہی، پھر باتھ روم میں چلی گئی۔ جب وہ غسل کر کے واپس آئی تو کُشل تب بھی چہرے پر جھاگ بنا رہا تھا۔ ترپتا کو دیکھ کر اس کے دماغ میں کسی چھایا وادی شاعر کے مصرعے تیرنے لگے، ان کو پکڑنے کی بجائے وہ ترپتا کو انتباہی لہجے میں کہنے لگا کہ وہ مستقبل میں اسے شیو بنانے اور غسل کرنے کے لئے کبھی نہ کہے۔ اس کی مرضی ہوگی تو وہ خود غسل کر لے گا۔
اتنے میں باہر کا دروازہ کھلا اور کسی کے آنے کی چاپ سنائی دی۔ ترپتا نے اچک کر باہر دیکھا اور بولی، ’’سُبّی ہے۔‘‘
سُبّی نیلی آنکھوں والی دبلی سی ترپتا کی ہم عمر لڑکی ہے۔ اس نے آنگن میں آ کر کُشل کو دیکھا تو زبان نکال کر بھاگ گئی۔
’’سُبّی بہت خراب لڑکی ہے۔‘‘ ترپتا نے کہا۔
’’لڑکیاں سبھی خراب ہوتی ہیں۔‘‘ کُشل نے کہا۔ وہ جانتا تھا، ترپتا کی نظروں میں سُبّی کیوں خراب ہے۔
کُشل شیو بناتا رہا۔ ترپتا کچھ پل رک کر بولی، ’’دیکھنے میں کتنی بھولی لگتی ہے، پر موئی کے پاس لڑکوں کے خط آتے ہیں۔‘‘
آئینے میں کُشل کا چہرہ مسکرانے لگا، اس نے ٹھوڑی پر استرا چلاتے ہوئے کہا، ’’دیکھنے میں تو تم بھی بہت بھولی لگتی ہو۔‘‘
ترپتا کے چہرے پر ہوائیاں اڑتے دیکھ اس نے بات کا رخ موڑ دیا، ’’جوان لڑکی کو لوگ ایسے ہی بدنام کر دیتے ہیں۔‘‘
’’میں بھلا اس کی بدنامی کیوں کروں گی۔‘‘ ترپتا نے کلائی میں پہنی چوڑیوں کو انگلیوں سے گھماتے ہوئے کہا، ’’میں نے خود دیکھے ہیں اس کے پاس درشن کے خط۔۔ ناس پیٹی ان کے جواب بھی لکھتی ہے۔‘‘
’’تم کیا خاک کہانیاں لکھتی ہوگی۔۔‘‘ کُشل کے منہ میں صابن چلا گیا تھا، اس نے تولیے سے ہونٹ صاف کئے اور بولا، ’’خط لکھنے میں کیا برائی ہے؟ کہانی لکھنے والی مصنفہ کو کچھ تو کشادہ دل ہونا چاہئے۔‘‘ کُشل نے اپنی ٹانگ سے ٹرنک کو تھوڑا سا سرکا دیا اور پھر وہ ایسے پاؤں ہلانے لگا، جیسے ٹرنک اتفاق سے چھو گیا ہو۔
’’آپ کو کوئی اور مکان دیکھنا چاہئے۔‘‘ ترپتا نے کہا، ’’چیزیں رکھنے کے لئے بھی جگہ نہیں ہے۔ ساری رات ٹرنک میری پیٹھ پر چبھتا رہتا ہے۔‘‘
’’سونے سے پہلے ٹرنک کو پلنگ کے نیچے سے نکال دیا کرو۔‘‘ کُشل نے کہا۔
’’آپ شیو کیوں نہیں بناتے؟‘‘
’’شیو تو اب بن ہی جائے گی۔‘‘ کُشل استرے کو پانی کے گلاس میں گھماتا رہا۔ جب صابن اتر گیا تو اس نے کہا، ’’سُبّی تو ابھی بالکل معصوم ہے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ تم اس کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں کیوں سوچتی رہتی ہو۔‘‘
’’آپ کو بات کا پتہ نہیں ہوتا اور۔۔۔‘‘
’’اور کیا؟ خط لکھنے میں مجھے تو کوئی برائی نظر نہیں آتی۔‘‘ کُشل نے جان بوجھ کر ترپتا سے آنکھ نہیں ملائی۔ ترپتا کو کچھ سوچتے ہوئے دیکھ کر اس نے کہا، ’’خط لکھنے کے علاوہ بھی کچھ کرتی ہو، میں سوچ نہیں سکتا۔ تم اس بات کو کیوں بھول جاتی ہو کہ اکثر لڑکیاں ڈرپوک ہوتی ہیں۔‘‘
’’آپ کو اسی دن پتہ چلے گا، جب اس کے فرار کی خبر ملے گی۔‘‘
’’اگر سُبّی ایسی لڑکی ہے، تو تم اس کے ساتھ تعلق کیوں رکھے ہو؟‘‘
’’میں تو اسے سمجھاتی رہتی ہوں۔‘‘
’’کیا سمجھاتی رہتی ہو؟‘‘ کُشل کے گال پر ایک کٹ آ گیا۔
’’یہی کہ درشن خط لکھتے ہیں تو وہ جواب کیوں دیتی ہے؟‘‘
کُشل نے تولیے سے گلا صاف کیا۔ دوسرے ہی لمحے خون کا ایک اور قطرہ چمکنے لگا۔
ترپتا بھاگ کر ’ڈیٹول‘ لے آئی۔ روئی سے اس کے گال پر لگاتے ہوئے بولی، ’’میں نے اسے یہ بھی سمجھایا ہے کہ وہ درشن سے کہے کہ جب تک وہ اس کے پچھلے خط نہیں لوٹائے گا، وہ اس سے بات نہیں کرے گی۔‘‘
کُشل نے قہقہہ لگایا اور بولا، ’’تم ضرور اسے پھنساؤ گی۔‘‘
’’پھنساؤں گی کیسے؟‘‘
’’اس سے نہ تو خطوں کو جلاتے ہی بنے گا اور اگر سنبھال کر رکھے گی تو کسی وقت بھی راز کھل سکتا ہے۔‘‘ کُشل نے کہا۔
’’بھاڑ میں جائے سُبّی اور اس کے خط۔۔ اگر آپ سینما نہیں جائیں گے، تو میں آپ کے لئے کچھ خرید کر لاؤں گی۔‘‘
’’اتنا پیار نہ کیا کرو، تپّو۔‘‘ کُشل نے ترپتا کی کلائی پکڑی لی اور اسی روئی کو ترپتا کے گال پر گھستے ہوئے بولا، ’’پہلے تو تم اتنی۔۔۔‘‘
’’بس بس۔۔۔‘‘ ترپتا نے بات درمیان میں ہی کاٹ دی، ’’بتائیے آپ کے لئے کیا لاؤں؟‘‘
’’میرے لئے ایک پلنگ لاؤ۔‘‘ کُشل کی پنڈلیوں میں پھر زوروں کا درد ہونے لگا تھا۔
ترپتا جیسے محبت کی زیادتی میں مچل اٹھی، گنگنانے لگی، ’’نہیں، پلنگ نہیں۔ ایک نئی بوشرٹ، ایک آپ کی پسندیدہ کتاب، نیا ٹوتھ برش اور۔۔۔‘‘ اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا، ’’اور ٹافیاں لالی پاپ!‘‘
’’تم صرف ٹافیاں لالی پاپ لے آؤ۔‘‘
’’نہیں، میں سب چیزیں لاؤں گی۔‘‘
’’تمہارے پاس کتنے پیسے ہیں؟‘‘
’’پانچ روپے۔‘‘ ترپتا نے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
’’پانچ روپیوں سے تو یہ سب نہیں آئے گا، تمہارے پاس ضرور اور پیسے ہوں گے۔‘‘
’’قسم سے، اتنے ہی ہیں۔‘‘ ترپتا نے کہا، ’’آپ سوم سے پوچھ لیں، وہ پانچ روپے ہی دے کر گیا تھا۔‘‘
کُشل شیو بنا چکا تھا، لیکن فوری طور پر نہانا نہیں چاہتا تھا، بولا، ’’بھلا تم نے سوم سے پیسے کیوں لئے؟‘‘
ترپتا کا چہرہ چھلے آلو کی طرح ہو گیا، بولی، ’’آپ نے منع کیا ہوتا تو کبھی نہ لیتی۔‘‘
’’پیسے لینے میں تو کوئی حرج نہیں تھا۔۔۔‘‘ کُشل نے کہا، ’’کیوں ناحق اس کا خرچ کروایا جائے۔ اس دن دکان پر آیا تو بہت سے پھل بھی لیتا آیا تھا۔‘‘ جھوٹ بول کر اسے خوشی ہوئی۔
’’آپ نے بتایا کیوں نہیں؟‘‘
’’بھلا اس میں بتانے کی کیا بات تھی۔ اور پھر تم نے بھی تو نہیں بتایا تھا کہ وہ پیسے بھی دے گیا ہے۔‘‘
’’بتا تو دیا ہے۔‘‘
’’خیر۔۔‘‘ کُشل نے بات ختم ہوتے دیکھ کر چٹکی بھری، ’’سوم تمہارا کیا لگتا ہے؟‘‘
’’پھوپھی کا لڑکا ہے۔ آپ کو کئی بار تو بتایا ہے۔‘‘ اس نے چڑ کر کہا۔
’’میں ہر بار بھول جاتا ہوں۔‘‘ کُشل نے ہنستے ہوئے کہا، ’’اپنے بیاہ میں سب سے الگ تھلگ کھڑا جس طریقے سے رو رہا تھا، اس سے تو میں نے اندازہ لگایا تھا کہ ضرور رقیب ہوگا۔‘‘
’’رقیب کا مطلب کیا ہوتا ہے؟‘‘ ترپتا نے فوراً پوچھا۔
’’عربی میں پھوپھی کے لڑکے کو رقیب کہتے ہیں۔‘‘ کُشل نے کہا اور کندھے پر تولیہ رکھ کر باتھ روم میں چلا گیا۔
کُشل نے باتھ روم کا دروازہ بند کیا، تو اسے پلنگ گھسیٹنے کی آواز آئی۔ اس نے محسوس کیا کہ غسل سے پہلے سگریٹ مزہ دے سکتی ہے۔ وہ خود سگریٹ اٹھا لاتا، مگر جب اسے چور ہاتھوں سے تالا لگانے کی آواز آئی تو اس نے خود جانا مناسب نہیں سمجھا۔ اس نے ترپتا کو آواز دی کہ وہ ایک سگریٹ دے جائے۔ ترپتا نے دوسرے ہی لمحے جھروکے سے سگریٹ اور ماچس پکڑا دی۔ سگریٹ پکڑتے ہوئے اس کے دل میں ترپتا کے لئے پیار امنڈنے لگا۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ اپنی تفریح کے لئے ترپتا کو پریشان کر رہا ہے۔
یہ تفریح کا ذریعہ بھی اچانک اس کے ہاتھ لگ گیا تھا۔ اُس دن ایک کتاب ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ ترپتا کے ٹرنک کی بھی چھان بین نہ کرتا، تو شاید اس سے محروم ہی رہتا۔ کتاب نہ ملنے پر اس نے محسوس کیا تھا کہ ٹرنک میں وقت کاٹنے کے لئے دلچسپی کا بہت سا مواد بھرا پڑا ہے۔ ٹرنک میں کپڑوں کے نیچے ایک عام سا پرس پڑا تھا، پرس میں میٹرکولیشن کا سرٹیفکٹ، تڑی مڑی سی دو ایک تصویریں، جن میں ترپتا کی ایک تصویر تھی، مالا سے بکھرے ہوئے کچھ موتی، ایک میلا پکچر پوسٹ کارڈ، ایک سینٹ کی تقریباً خالی شیشی بہت حفاظت سے رکھی ہوئی تھی۔ میٹرکولیشن کا سرٹیفکٹ دیکھ کر کُشل سرد ہو گیا تھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے انجانے میں اس سے چوزہ ذبح ہو گیا ہو۔ سرٹیفکیٹ کے مطابق ترپتا کی عمر اس سے نو سال کم بیٹھتی تھی۔ اس نے سرٹیفکیٹ سے ترپتا کے نمبرز بھی نہ پڑھے تھے کہ واپس پرس میں رکھ دیا۔ ٹرنک میں سب سے نیچے اخبار کا ایک بڑا کاغذ بچھا تھا، مگر صاف پتہ چلتا تھا کہ کاغذ کے نیچے کچھ ہے، کیونکہ کاغذ ایک جگہ سے ایسے اٹھا ہوا تھا، جیسے اس کے نیچے ایک بڑا مینڈک پڑا ہو۔ کُشل نے بڑی احتیاط سے وہ مینڈک نکالا۔ کاغذوں کا ایک خستہ پلندا تھا، جس میں دونوں کے خطوط تھے۔ سوم کے بھی اور ترپتا کے بھی، جو شاید ترپتا نے چالاکی سے واپس لے لیے تھے یا سوم نے شرافت سے لوٹا دیئے تھے۔ خط پڑھتے پڑھتے کُشل، کتنی دیر تک ہنستا رہا تھا۔ ترپتا نے وہی باتیں لکھی تھیں، جو کبھی کبھی جذباتی ہو کر اس سے بھی کیا کرتی ہے۔ سوم کے خط پڑھ کر تو ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گیا تھا۔ سوم کی شکل دیکھ کر تو اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اتنا جذباتی ہو سکتا ہے اور ہجوں کی اتنی غلطیاں کر سکتا ہے۔ اس بار جب سوم آیا تھا تو اس نے تھوڑی تھوڑی مونچھیں بھی بڑھائی ہوئی تھیں۔ کُشل کو یہ بات بڑی عجیب لگی کہ مونچھیں بڑھا کر بھی آدمی جذباتی ہو سکتا ہے۔ مونچھوں والا جذباتی!
شام کو جب ترپتا بازار سے واپس آئی تو اس نے کہا، ’ترپتا، تم تیس برس کی کب ہوگی؟‘
’آپ کیوں مجھے بوڑھی دیکھنا چاہتے ہیں؟‘
’نہیں بوڑھی نہیں، لیکن بچی بھی نہیں۔ کاش! تم تیس سال کی ہوتیں۔‘ کُشل ہنس پڑا تھا۔
کُشل غسل خانے سے لوٹا تو کمرے کی شکل بالکل بدلی ہوئی تھی۔ پلنگ، جو اس سے پہلے کمرے کے ٹھیک درمیان میں موجود تھا، اب دوسرے کمرے میں کھلنے والے دروازے کے ساتھ ٹکا دیا گیا تھا۔ اور اس پر انگوری رنگ کی ایک نئی چادر بچھی تھی۔ پلنگ کے ساتھ ہی دیوار کے ساتھ ترپتا کا ٹرنک رکھا تھا، جس پر اسی کی طرح کا کڑھا ہوا ایک خوبصورت میز پوش بچھا تھا اور جس کے اوپر بیٹھی ترپتا کروشیئے سے کچھ بُنائی کر رہی تھی۔ اس نے آنکھوں میں کاجل کی گہری لکیریں کھینچ لی تھیں۔ ہونٹ لپ اسٹک کے ہلکے سے لمس سے کشمشی ہو گئے تھے۔ کُشل نے یہ تبدیلی دیکھی تو مسکرا دیا۔ اسے مسکراتا دیکھ کر ترپتا نے پوچھا، ’’آپ مسکرا کیوں رہے ہیں؟‘‘
ترپتا کروشیئے سے پیٹھ کھجلانے لگی، جس سے اس کا بلاؤز کندھے کے نیچے سے غبارے سا پھول گیا تھا۔ کُشل کے من میں لمحے بھر کے لئے یہ خیال آیا کہ وہ باہر کا دروازہ بند کر آئے، لیکن غسل کرنے سے اس کی پنڈلیوں کو تھوڑا سا سکون ملا تھا، جسے وہ کچھ دیر مزید برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ اس نے سر پر کنگھی پھیرتے ہوئے کہا، ’’تم کہتی ہو تو نہیں مسکراتا۔‘‘
’’آپ کچھ سوچ رہے ہیں۔‘‘ ترپتا کروشیئے پر نظریں گڑا کر بولی، ’’کیا سوچ رہے ہیں؟‘‘
کُشل نے کچھ سوچنے کی کوشش کی اور فرضی گرل فرینڈ کا پرانا قصہ لے بیٹھا، بولا، ’’در اصل مجھے شیلا یاد آ رہی تھی۔ جب میں ہنستا تھا، تو وہ بھی تمہاری طرح ٹوک دیتی تھی۔ جب میں سگریٹ پیتا تھا، وہ مجھ سے دور جا بیٹھتی تھی۔ جب کبھی اس کے گھر جاتا تو نوکر کو بھیج کر سگریٹ منگوا دیتی۔ عجیب لڑکی تھی شیلا۔۔۔‘‘
کُشل نے سگریٹ سلگائی اور خالی پیکٹ ڈرامائی انداز میں دور پھینک دیا۔ ترپتا نے کروشیئے سے نظریں نہیں اٹھائیں۔ کُشل نے ترپتا کا نشانہ لے کر دھوئیں کا ایک گہرا بادل اس کی طرف پھینکا۔ اسے امید تھی کہ تازہ لپ اسٹک پر تھوڑا سا دھواں ضرور جم جائے گا۔ اپنی بات کا اثر نہ ہوتے دیکھ کر اس نے بات آگے بڑھائی کہ کیسے وہ شیلا کے ساتھ پکنک پر جایا کرتا تھا اور۔۔۔
’’بس۔۔۔۔ بس میں اور نہیں سنوں گی۔‘‘ ترپتا نے کروشیئے سے آنکھیں اٹھا کر کُشل کی طرف غیر یقینی سے دیکھتے ہوئے کہا، ’’آپ مجھے بیوقوف بنا رہے ہیں۔‘‘
کُشل نے ایک لمبا کش لیا اور بولا، ’’اچھا، اب تم مجھے بیوقوف بناؤ۔‘‘ اس بار اس نے ناک سے دھواں چھوڑا۔ ترپتا کو خاموش دیکھ کر اس نے کہا، ’’بناؤ بھی۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’یہی بیوقوف۔‘‘ اس نے ترپتا کی طرف سرکتے ہوئے کہا، ’’تم شاید سمجھتی ہو کہ میں پہلے ہی بیوقوف ہوں۔‘‘
’’بیوقوف تو آپ مجھے بنا رہے ہیں۔‘‘ ترپتا کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا اور تلخی پی جانے سے اس نے روہانسی سی ہو کر کہا، ’’رقیب کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘
’’پھوپھی کا لڑکا۔‘‘ کُشل نے سگریٹ کے ٹکڑے کو پاؤں سے مسل دیا، ’’عظیم مصنفہ ہو کر بھی اس کا مطلب نہیں جانتیں؟‘‘ کُشل کو معلوم تھا کہ اب وہ کہانیوں کی مصنفہ کا لبادہ اوڑھنے پر مجبور ہے۔
’’آپ کو میرا کچھ پسند بھی ہے؟‘‘ ترپتا کی آنکھوں میں پانی چمکنے لگا تھا۔
وہ چاہتا تو آسانی سے ترپتا کو رلا سکتا تھا، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ ادھر ادھر سگریٹ کا کوئی بڑا ٹکڑا ڈھونڈتے ہوئے اس نے نہایت سادگی سے کہا، ’’یقیناً مجھے تمہاری تخلیقات پسند آ سکتی ہیں، لیکن تم سناؤ، تب ہی تو۔‘‘
ترپتا نے کُشل کی طرف نہیں دیکھا، اس کی بات بھی اَن سنی کر دی اور گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھ گئی۔ پہلے تو کُشل کے جی میں آیا کہ ترپتا کو چپ کروایا جائے اور اسی بہانے پیار بھی کیا جائے، لیکن اس نے محسوس کیا کہ بغیر سگریٹ کے کش کھینچے، پیار نہیں کیا جا سکتا، پر جوش تو بالکل نہیں ہوا جا سکتا۔ کُشل جانتا ہے کہ ترپتا جذباتیت سے مبراء پیار کو قبول نہیں کرے گی۔ اس نے گھٹنوں پر جھکی ترپتا کی طرف دیکھا اور پاؤں میں چپل پہننے لگا۔ ترپتا کے جھک کر بیٹھنے سے اس کی پیٹھ بھری پوری اور صحت مند لگ رہی تھی۔ سفید وائل کے بلاؤز میں سے اس کے برا کی کَسی ہوئی ڈوریاں نظر آ رہی تھیں۔
ترپتا نے کُشل کو چپل گھسیٹتے ہوئے باہر جاتے دیکھا تو سسکیاں بھرنے لگی۔ کُشل کے ذہن میں ترپتا کے لئے ہمدردی امڈ رہی تھی۔ اسے دکان سے اس طرح اٹھ آنے میں کوئی تُک نظر نہیں آ رہی تھی۔ اسے معلوم ہے کہ اب وہ ترپتا کو جتنا بھی منانے کی کوشش کرے گا، وہ اتنا ہی روٹھتی چلی جائے گی۔ منانے کے اس لمبے سلسلے سے تو دکان میں دن بھر ٹائپ کرنا کہیں زیادہ آسان ہے، کُشل نے سوچا اور پنواڑی سے سگریٹ کا پیکٹ لیا۔ وہ لوٹا تو بھرے ٹب میں پانی گرنے کی وہی مانوس آواز سنائی دی۔ اسے لگا، جیسے اچانک کسی نے دیر سے اس کے کانوں میں رکھی روئی نکال کر پھینک دی ہو یا وہ برسوں پرانے ماحول میں لوٹ آیا ہو۔ اس نے دیکھا، ترپتا پلنگ پر اوندھی لیٹی تھی اور اس نے اپنا منہ تکیے میں چھپا رکھا تھا۔ چولہے پر پانی ابل رہا تھا اور جلے ہوئے کاغذ چولہے پر رکھے پانی میں تیر رہے تھے۔ کُشل نے بڑی احتیاط سے ایک سیاہ کاغذ اٹھایا اور ترپتا کی پشت پر پاپڑ کی طرح چورا کرتے ہوئے بولا، ’’کہانی جلا ڈالی کیا؟ اٹھو۔۔۔ بیاہتا عورتیں بچوں کی طرح نہیں رویا کرتیں۔‘‘
ترپتا جو ہولے ہولے سسک رہی تھی، پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ کُشل پلنگ کے قریب پڑے ٹرنک پر بیٹھ گیا اور کھلے تالے سے کھیلنے لگا، جو میز پوش پر پیپر ویٹ سا پڑا تھا۔ سگریٹ سلگا کر بھی وہ ترپتا کو خاموش کرانے کی ہمت نہ بٹور سکا، اسے لگ رہا تھا، ترپتا کا رونا بالکل جائز ہے۔