
ابھی صبح کے سوا نو بجے ہیں۔
موہت سرکار نے گلے میں ٹائی کا پھندہ ڈالا ہی تھا کہ اس کی بیوی ارونا کمرے میں آئی اور بولی، ”تمہارا فون۔‘‘
’’اس وقت کون فون کر سکتا ہے بھلا۔‘‘
موہت کی ٹھیک ساڑھے نو بجے دفتر جانے کی روٹین رہی ہے۔ اب گھر سے دفتر کے لیے نکلتے وقت ’تمہارا فون‘ سن کر، تیار موہت کی تیوریاں چڑھ گئیں۔
ارونا نے بتایا، ’’وہ کبھی تمہارے ساتھ اسکول میں پڑھتا تھا۔‘‘
’’اسکول میں! اچھا! نام بتایا؟‘‘
’’اس نے کہا کہ جے نام بتانے پر ہی وہ سمجھ جائے گا۔‘‘
موہت سرکار نے کوئی تیس سال پہلے اسکول چھوڑا ہوگا۔ اس کی کلاس میں چالیس لڑکے رہے ہوں گے۔ اگر وہ بڑے دھیان سے بھی سوچے تو بھی زیادہ سے زیادہ بیس ساتھیوں کے نام ہی سوچ سکتا ہے اور اس کے ساتھ اُن کے چہرے بھی۔ خوش قسمتی سے جے یا جے دیو کا نام اور چہرہ اب بھی اسے یاد ہے، لیکن وہ کلاس کے سب سے اچھے لڑکوں میں سے ایک تھا۔ گورا، خوبصورت سا چہرہ، پڑھنے لکھنے میں ہوشیار، کھیل کود میں بھی آگے، ہائی جمپ میں اول۔ کبھی کبھی وہ تاش کا کھیل بھی دکھایا کرتا اور ہاں ’کیسا بلانکا‘ کے اعادے میں اس نے کوئی تمغہ بھی جیتا تھا۔ اسکول سے نکلنے کے بعد موہت نے اس کے بارے میں کبھی کوئی کھوج خبر نہیں رکھی۔
لیکن آج اتنے سالوں کے بعد اپنی دوستی کے باوجود اور کبھی اپنے ہم جماعت رہے اس آدمی کے بارے میں کوئی خاص لگاؤ محسوس نہیں کر رہا تھا۔
خیر موہت نے فون کا ریسیور پکڑا، ’’ہیلو ۔۔۔‘‘
’’کون موہت! مجھے پہچان رہے ہو بھائی، میں وہی تمہارا جے۔۔۔ جے دیو بوس۔ بالی گنج اسکول کا ہم جماعت۔‘‘
’’بھئی اب آواز سے تو پہچان نہیں رہا، ہاں چہرہ ضرور یاد ہے، بات کیا ہے؟‘‘
’’تم تو اب بڑے افسر ہو گئے ہو بھئی۔ میرا نام تمہیں اب تک یاد رہا، یہی بہت ہے۔‘‘
’’ارے یہ سب چھوڑو، بتاؤ بات کیا ہے؟‘‘
’’بس یوں ہی تھوڑی ضرورت تھی۔ ایک بار ملنا چاہتا ہوں تم سے۔‘‘
’’کب؟‘‘
’’تم جب کہو۔۔ لیکن تھوڑی جلدی ہو تو اچھا۔۔۔‘‘
’’تو پھر آج ہی ملو۔ میں شام کو چھ بجے گھر آ جاتا ہوں، تم سات بجے آ سکو گے؟‘‘
’’کیوں نہیں، ضرور آؤں گا۔۔ اچھا تو شکریہ۔ تبھی ساری باتیں ہوں گی۔‘‘
ابھی حال ہی میں خریدی گئی آسمانی رنگ کی گاڑی میں دفتر جاتے ہوئے، موہت سرکار نے اسکول میں پیش آئے کچھ واقعات یاد کرنے کی کوشش کی۔ ہیڈماسٹر گریندر سر کی گہری نظر اور بے حد سخت مزاج کے باوجود اسکول کے دن بھی کیسی کیسی خوشیوں سے بھرے دن تھے۔ موہت خود بھی ایک اچھا طالب علم تھا۔ شنکر، موہت اور جے دیو، ان تینوں میں ہی مقابلہ چلتا رہتا تھا۔ پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر انہی تینوں کا باری باری قبضہ رہتا۔ چھٹی سے لے کر موہت سرکار اور جے دیو بوس ایک ساتھ ہی پڑھتے رہتے تھے۔ کئی بار ایک ہی بینچ پر بیٹھ کر پڑھائی کی تھی۔ فٹ بال میں بھی دونوں کا برابری کا مقام تھا۔ موہت رائٹ اِن کھلاڑی تھا، تو جے دیو رائٹ آؤٹ۔ تب موہت کو احساس ہوتا تھا کہ یہ دوستی آج کی نہیں، زمانے کی ہے۔۔ لیکن اسکول چھوڑنے کے بعد دونوں کے راستے الگ الگ ہو گئے۔ موہت کے والد ایک رئیس آدمی تھے، کلکتہ کے نامی گرامی وکیل۔ اسکول کی پڑھائی ختم کرنے کے بعد، موہت کا داخلہ ایک اچھے سے کالج میں ہو گیا اور یہاں کی پڑھائی ختم ہو جانے کے دو سال بعد ہی اس کی تقرری ایک بڑی کاروباری کمپنی کے افسر کے طور پر ہو گئی۔ جے دیو کسی دوسرے شہر میں کسی کالج میں داخل ہو گیا تھا۔ دراصل اس کے والد کی نوکری تبادلوں والی تھی۔ سب سے حیرت کی بات یہ تھی کہ کالج میں جانے کے بعد موہت نے جے دیو کی کمی کو کبھی محسوس نہیں کیا۔ اس کی جگہ کالج کے ایک دوسرے دوست نے لے لی۔ بعد میں یہ دوست بھی بدل گیا، جب کالج لائف بھی مکمل ہو جانے کے بعد، موہت کی پیشہ ورانہ زندگی شروع ہو گئی۔ موہت اپنے دفتری دنیا میں چار بڑے افسران میں سے ایک ہے اور اس کے بہترین دوستوں میں اس کا ہی ایک ہم مرتبہ ہے۔ اسکول کے ساتھیوں میں ایک پرگیان سین گپت ہے، لیکن اسکول کی یادوں میں پرگیان کی کوئی جگہ نہیں ہے، تاہم جے دیو جس کے ساتھ گزشتہ تیس سالوں سے ملاقات تک نہیں ہوئی ہے۔ اس کی یادوں نے اپنی کافی جگہ بنا رکھی ہے۔ موہت نے ان پرانی باتوں کو یاد کرتے ہوئے، اس بات کی سچائی کو بڑی گہرائی سے محسوس کیا۔
موہت کا دفتر سینٹرل ایونیو میں ہے۔ چورنگی اور سُریندر بنرجی روڈ کے موڑ پر پہنچتے ہی گاڑیوں کی بِھیڑ، بسوں کے ہارن اور دھویں سے موہت سرکار کی یادوں کی دنیا منہدم ہو گئی اور وہ سامنے کھڑی حقیقی دنیا کے سامنے تھا۔ اپنی کلائی کی گھڑی پر نظر دوڑاتے ہوئے ہی وہ سمجھ گیا کہ وہ آج تین منٹ دیر سے دفتر پہنچ رہا ہے۔
دفتر کا کام نمٹا کر، موہت جب لی روڈ پر واقع اپنے گھر پہنچا، تو بالی گنج گورنمنٹ اسکول کے بارے میں اس کے دل میں رتی بھر یاد نہیں بچی تھی، یہاں تک کہ وہ صبح ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو کے بارے میں بھی بھول چکا تھا۔ اسے اس بات کا خیال تب آیا، جب اس کا نوکر وپن ڈرائنگ روم میں آیا اور اس نے اس کے ہاتھوں میں ایک کاغذ تھمایا۔ یہ کسی کتاب میں سے پھاڑا گیا صفحہ تھا، مڑا ہوا۔ اس پر انگریزی میں لکھا تھا: ’’جے دیو بوس ایز پر اپائونٹمنٹ‘‘
ریڈیو پر بی بی سی سے آنے والی خبروں کو سننا بند کر کے موہت نے وپن کو کہا، ’’اسے اندر آنے کو کہو۔‘‘
لیکن اس نے دوسرے ہی لمحے یہ محسوس کیا کہ جے اتنے دنوں بعد مجھ سے ملنے آ رہا ہے، اس کے ناشتے کے لیے کچھ منگوا لینا چا ہیے تھا۔ دفتر سے لوٹتے ہوئے پارک اسٹریٹ سے وہ بڑے آرام سے کیک یا پیسٹری وغیرہ کچھ بھی لا ہی سکتا تھا، لیکن اس کو جے کے آنے کی بات یاد ہی نہیں رہی۔ پتہ نہیں، اس کی بیوی نے اس بارے میں کوئی انتظام کر رکھا ہے یا نہیں۔
’’پہچان رہے ہو؟‘‘
اس سوال کو سن کر اور اسے بولنے والے کی طرف دیکھ کر، موہت سرکار کی حالت کچھ ایسی ہو گئی کہ بیٹھک والے کمرے کی سیڑھی پار کرنے کے بعد بھی اس نے نیچے کی طرف ایک قدم اور بڑھا دیا تھا، جبکہ وہاں کوئی قدمچہ نہیں تھا۔
کمرے کی چوکھٹ پار کرنے کے بعد، جو آدمی اندر داخل ہوا تھا، اس نے ایک ڈھیلی ڈھالی سوتی پتلون پہن رکھی تھی۔ اس کے اوپر ایک گھٹیا چَھپائی والی سوتی قمیض۔ دونوں پر کبھی استری کی گئی ہو، ایسا نہیں لگا۔ قمیض کے کالر سے جو صورت جھانک رہی تھی، اسے دیکھ کر موہت اپنی یادوں میں آباد جے دیو سے کوئی مناسبت نہیں بٹھا سکا۔ آنے والے کا چہرہ خشک، گال پچکے، آنکھیں دھنسی، بدن کا رنگ دھوپ میں تپ تپ کر سیاہ پڑ گیا تھا۔ اس کے چہرے پر تین چار دنوں کی کچی پکی مونچھیں اگی تھی۔ پیشانی کے اوپر ایک مسّا اور کنپٹیوں پر بے ترتیب ڈھنگ سے پھیلے ڈھیر سارے پکے ہوئے بال۔
اس آدمی نے یہ سوال مصنوعی ہنسی کے ساتھ پوچھا تھا۔ اس کے دانتوں کی قطار بھی موہت کو نظر آئی۔ پان کھا کھا کر سڑ جانے والے ایسے دانتوں کے ساتھ ہنسنے والے کو سب سے پہلے اپنا منہ ہاتھ سے ڈھانپ لینا چا ہیے۔
’’کافی بدل گیا ہوں نا؟‘‘
’’بیٹھو۔‘‘
موہت اب تک کھڑا تھا۔ سامنے والے سوفے پر اس کے بیٹھ جانے کے بعد موہت بھی اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ موہت کے زمانہء طالب علمی کی تصویر اس کے البم میں پڑی ہے۔ اس تصویر میں چودہ سال کے موہت کے ساتھ آج کے موہت کو پہچان پانا بہت مشکل نہیں ہے۔ تو پھر سامنے بیٹھے جے کو پہچان پانا اتنا مشکل کیوں ہو رہا ہے؟ صرف تیس سالوں میں کیا چہرے مہرے میں اتنی تبدیلیاں آ جاتی ہیں؟
’’تمہیں پہچان پانے میں کوئی مشکل نہیں ہو رہی ہے۔ راستے میں بھی دیکھ لیتا تو پہچان جاتا۔‘‘ بھلا انسان آتے ہی شروع ہو گیا تھا، ’’دراصل مجھ پر مصیبتوں کا پہاڑ سا ٹوٹ پڑا ہے۔ کالج میں ہی تھا کہ پِتا جی گزر گئے۔ میں پڑھنا لکھنا چھوڑ کر، نوکری کی تلاش میں بھٹکتا رہا اور باقی تم کو معلوم ہے ہی۔ خوش قسمتی اور سفارش نہ ہو تو آج کے زمانے میں ہم جیسے لوگوں کے لیے ۔۔۔‘‘
’’چائے تو پیو گے؟‘‘
’’چائے۔۔ ہاں، لیکن؟‘‘
موہت نے وپن کو بلا کر چائے لانے کو کہا۔ اس کے ساتھ اسے یہ سوچ کر سکون ملا کہ کیک یا مٹھائی نہ بھی ہو تو کوئی خاص بات نہیں۔ اس کے لیے بسکٹ ہی کافی ہونگے۔
’’اوہ!‘‘ اس بھلے انسان نے کہا، ’’آج دن بھر نجانے کتنی پرانی باتیں یاد کرتا رہا۔ تمہیں کیا بتاؤں۔۔۔‘‘
موہت کا بھی کچھ وقت ایسے ہی گزرا ہے، لیکن اس نے ایسا کچھ کہا نہیں۔
’’ا یل سی ایم اور جی سی ایم کی باتیں یاد ہیں؟‘‘
موہت کو اس بارے میں یاد نہیں تھا، لیکن ریفرنس دیتے ہی اسے یاد آ گیا، ایل سی ایم یعنی پی ٹی ماسٹر لال چاند مکھرجی اور جی سی ایم یعنی ریاضی کے ٹیچر گوپندر چندر متر۔
’’اسکول میں ہی پانی کے ٹنکی کے پیچھے ہم دونوں کو زبردستی ایک ساتھ کھڑا کر کے باکس کیمرے سے کسی نے ہماری تصویر کھینچی تھی، یاد ہے؟‘‘
اپنے ہونٹوں کے کونوں پر ایک میٹھی مسکراہٹ چسپاں کر کے موہت نے یہ جتا دیا کہ اسے اچھی طرح یاد ہے۔ حیرت! یہ سب تو سچی باتیں ہیں اور اب بھی اگر یہ جے دیو نہ ہو تو اتنی چیزوں کے بارے میں اسے کیسے پتہ چلا؟
’’اسکول کی زندگی کے وہ پانچوں سال، میری زندگی کے سب سے بہترین سال تھے۔‘‘ آنے والے نے بتایا اور پھر افسوس جتایا، ’’ویسے دن اب دوبارہ کبھی نہیں آئیں گے بھائی!‘‘
’’لیکن تم تو تقریباً میری ہی عمر کے ہو۔‘‘ موہت اس بات کو کہے بغیر رہ نہیں پایا۔
’’میں تم سے کوئی تین چار مہینے ہی چھوٹا ہوں۔‘‘
’’تو پھر تمہاری یہ حالت کیسے ہوئی؟ تم تو گنجے ہو گئے؟‘‘
’’پریشانی اور تناؤ کے سوا اور کیا وجہ ہوگی؟‘‘ اس آنے والے نے بتایا، ’’حالانکہ گنجاپن تو ہمارے خاندان میں پہلے سے ہی رہا ہے۔ میرے باپ اور دادا دونوں ہی گنجے ہو گئے تھے، صرف پینتیس سال کی عمر میں۔ میرے گال دھنس گئے ہیں، ہڈی توڑ محنت کی وجہ سے اور ڈھنگ کا کھانا بھی کہاں نصیب ہوتا ہے؟ اور تم لوگوں کی طرح میز کرسی پر بیٹھ کر تو ہم لوگ کام نہیں کرتے۔ گزشتہ سات سال سے ایک کارخانے میں کام کر رہا ہوں، اس کے بعد میڈیکل، اِدھر اُدھر سیلزمین شپ کی وجہ سے اِدھر اُدھر کی بھاگ دوڑ، بیمے کی دلالی، اِس کی دلالی، اُس کی دلالی۔ کسی ایک کام میں ٹھیک سے جٹے لگے رہنا اپنے نصیب میں کہاں۔ اپنے ہی جال میں پھنسی مکڑی کی طرح اِدھر اُدھر گھومتا رہتا ہوں۔ کہتے ہیں نا، دیہ دھرے کا ڈنڈ۔ دیکھنا ہے یہ جسم بھی کہاں تک ساتھ دیتا ہے۔ تم تو میری حالت دیکھ ہی رہے ہو۔‘‘
وپن چائے لے آیا تھا۔ چائے کے ساتھ سُندیش (ایک بنگالی مٹھائی) اور سموسے بھی۔ ’غنیمت ہے، بیوی نے اس بات کا خیال رکھا تھا۔۔ لیکن میرے ہم جماعت کی اس مجروح حالت کو دیکھ کر وہ کیا سوچ رہی ہوگی۔‘ اس کا اندازہ اسے نہیں ہو پایا۔
’’تم نہیں لو گے؟‘‘ اس بھلے آدمی نے پوچھا۔
موہت نے سر ہلا کر کہا ’’نہیں، ابھی ابھی پی ہے۔‘‘
’’سُندیش تو لے لو۔‘‘
’’نہیں۔۔ تم شروع تو کرو۔‘‘
بھلے آدمی نے سموسہ اٹھا کر منہ میں رکھا اور اس کا ایک ٹکڑا چباتے ہوئے بولا، ’’بیٹے کا امتحان سر پر ہے اور میری پریشانی یہ ہے موہت بھائی، کہ میں اس کے لیے فیس کے روپے کہاں سے جٹاؤں؟ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘
اب آگے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ موہت سمجھ گیا۔ اس کے آنے سے پہلے ہی اسے سمجھ لینا چاہیے تھا کہ کیا ماجرا ہے؟ مالی مدد اور اس کے لیے دعا۔ آخر یہ کتنی رقم کی مدد مانگے گا؟ اگر بیس پچیس روپے دے دینے پر بھی پنڈ چھوٹ سکے تو یہ خوش قسمتی ہی ہوگی اور اگر اس کی مدد نہیں کی گئی تو یہ بلا ٹل پائے گی، ایسا نہیں کہا جا سکتا۔
’’پتہ ہے، میرا بیٹا بڑا ہوشیار ہے۔ اگر اسے ابھی یہ امداد نہیں ملی تو اس کی پڑھائی درمیان میں ہی رک جائے گی۔ میں جب جب اس بارے میں سوچتا ہوں تو میری راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ہے۔‘‘
پلیٹ سے دوسرا سموسہ اڑ چکا تھا۔ موہت نے موقع پا کر نوعمر جے دیو کے چہرے سے اس بھلے آدمی کے چہرے کو ملا کر دیکھا اور اب اسے پورا یقین ہو گیا کہ اس لڑکے کے ساتھ اس ادھیڑ آدمی کا کہیں کوئی میل نہیں۔
’’اس لیے کہہ رہا تھا کہ۔۔‘‘ چائے کی چسکی بھرتے اس نے مزید کہا، ’’اگر تم سو ڈیڑھ سو روپے اپنے اس پرانے دوست کو دے سکو تو ۔۔‘‘
’’ویری سوری۔‘‘
’’کیا؟‘‘
موہت نے دل ہی دل یہ سوچ رکھا تھا کہ اگر بات روپے پیسے پر آئی تو وہ ایک دم ’’نہ‘‘ کر دے گا۔۔ لیکن اب جا کر اسے لگا کہ اتنی رکھائی سے منع کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ چنانچہ اپنی غلطی کی اصلاح کرتے ہوئے اس نے بڑی نرمی سے کہا، ’’سوری بھائی۔ ابھی میرے پاس کیش روپے نہیں ہیں۔‘‘
’’میں کل آ سکتا ہوں۔‘‘
’’میں کلکتہ سے باہر رہوں گا۔ تین دن کے بعد لوٹوں گا۔ تم اتوار کو آ جاؤ۔‘‘
’’اتوار کو؟‘‘
وہ تھوڑی دیر تک چپ رہا۔ موہت نے بھی دل ہی دل میں کچھ ٹھان لیا تھا۔ یہ وہی جے دیو ہے، اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ کلکتہ کے لوگ ایک دوسرے کو ٹھگنے کے ہی ہزار طریقے جان گئے ہیں۔ کسی کے پاس سے تیس سال پہلے کے بالی گنج اسکول کی کچھ واقعات کے بارے میں جان لینا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ وہی سہی۔
’’میں اتوار کو کتنے بجے آ جاؤں؟‘‘
’’سویرے سویرے ہی ٹھیک رہے گا۔‘‘
جمعے کو عید کی چھٹی ہے۔ موہت نے پہلے سے ہی طے کر رکھا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ باروئی پور کے ایک دوست کے یہاں، ان کے باگان باڑی میں جا کر ویک اینڈ منائے گا۔ وہاں دو تین دن تک رک کر اتوار کی رات کو ہی گھر لوٹ پائے گا۔ لہٰذا وہ بھلا آدمی جب اتوار کی صبح گھر پر آئے گا تو مجھ سے مل نہیں پائے گا۔ اسے بہانے کی ضرورت نہیں پڑتی، اگر موہت نے دو ٹوک الفاظ میں اس سے ’’نہ‘‘ کہہ دیا ہوتا۔ لیکن ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو بالکل ایسا نہیں کہہ سکتے۔ موہت ایسے ہی مزاج کا آدمی ہے۔ اتوار کو اس ملاقات کے نہ ہونے کے باوجود وہ کوئی دوسرا طریقہ ڈھونڈ نکالے تو موہت اس سے بھی بچنے کی کوشش کرے گا۔ شاید اس کے بعد کسی دوسری پریشانی کا سامنا کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔
مہمان بھلے آدمی نے آخری بار چائے کی چسکی لی اور کپ نیچے رکھا ہی تھا کہ کمرے میں ایک اور دوست آ گئے۔ یہ موہت کے گہرے دوست تھے، ونی کانت سین۔ دو دیگر دوستوں کے بھی آنے کی بات ہے، اس کے بعد یہیں تاش کا اڈہ جمے گا۔ اس نے اس آدمی کی طرف شک بھری نظروں سے دیکھا۔ موہت اسے بھانپ گیا۔ مہمان کے ساتھ اپنے دوست کا تعارف کرانے کی بات موہت بری طرح ٹال گیا۔
’’اچھا تو پھر ملیں گے، اب چلتا ہوں۔‘‘ کہہ کر اجنبی مہمان اٹھ کھڑا ہوا۔
’’تُو مجھ پر یہ احسان کر دے، میں سچ مچ تیرا شکر گزار رہوں گا۔‘‘
اس بھلے آدمی کے چلے جانے کے بعد ونی کانت سین نے موہت کی طرف حیرانی سے دیکھا اور پوچھا، ’’یہ آدمی آپ سے ’تُو‘ کہہ کر باتیں کر رہا تھا، بات کیا ہے؟‘‘
’’اتنی دیر تک تو تم ہی کہتا رہا تھا۔ بعد میں تمہیں سنانے کے لیے ہی اچانک تُو کہہ گیا۔‘‘
’’کون ہے یہ آدمی؟‘‘
موہت کوئی جواب دیے بغیر کتابوں کے شیلف کی طرف بڑھ گیا اور اس پر سے ایک پرانا فوٹو البم نکال لایا۔ پھر اس کا ایک صفحہ الٹ کر ونی کانت سین کے سامنے بڑھا دیا۔
’’یہ تمہارے اسکول کا گروپ ہے شاید؟‘‘
’’جی ہاں، بوٹونکس میں ہم سب پکنک کے لیے گئے تھے۔‘‘ موہت نے بتایا۔
’’یہ پانچوں کون کون ہیں؟‘‘
’’مجھے نہیں پہچان رہے؟‘‘
’’رکو، ذرا دیکھنے تو دو۔‘‘
البم کو اپنی آنکھوں کے تھوڑا نزدیک لے جاتے ہی بڑی آسانی سے ونی کانت سین نے اپنے دوست کو پہچان لیا۔
’’اچھا، اب میری بائیں جانب کھڑے اس لڑکے کو اچھی طرح دیکھو۔‘‘
تصویر کو اپنی آنکھوں کے کچھ اور نزدیک لا کر ونی کانت سین نے کہا، ’’ہاں، دیکھ لیا۔‘‘
’’ارے یہی تو ہے وہ بھلا آدمی، جو ابھی ابھی یہاں سے اٹھ کر گیا۔‘‘ موہت نے بتایا۔
’’اسکول سے ہی تو جوئے کی لت نہیں لگی ہے اسے؟‘‘ البم تیزی سے بند کر اسے سوفے پر پھینکتے ہوئے ونی کانت سین نے پھر کہا، ’’میں نے اس آدمی کو کم از کم تیس بتیس بار ریس کے میدان میں دیکھا ہے۔‘‘
’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔‘‘ موہت سرکار نے حمایت کی اور اس کے بعد اس کے ساتھ کیا کیا باتیں ہوئیں، اس بارے میں بتایا۔
’’ارے، تھانے میں خبر کر دو۔‘‘ ونی کانت سین نے اسے مشورہ دیا، ’’کلکتہ اب ایسے ہی چوروں، ڈاکوؤں اور اچکّوں کا گڑھ ہو گیا ہے۔ اس تصویر والے لڑکے کا ایسا پکا جواری بن جانا ناممکن ہے، ناممکن۔‘‘
موہت ہولے سے مسکرایا اور پھر بولا، ’’اتوار کو جب میں اسے گھر پر نہیں ملوں گا تو پتہ چلے گا۔ مجھے لگتا ہے اس کے بعد یہ اس طرح کی حرکتوں سے باز آجائے گا۔‘‘
اپنے باروئی پور والے دوست کے یہاں پوکھر کی مچھلی، مرغی کے تازہ انڈے اور درختوں میں لگے آم، امرود، جامن، ناریل کھا کر اور سینے سے تکیہ لگائے تاش کھیل کر، تن من کی ساری تھکان اور تناؤ دور کر کے موہت سرکار، اتوار کی رات گیارہ بجے جب اپنے گھر لوٹا تو اپنے نوکر وپن سے اسے خبر ملی کہ اُس دن شام کو جو شریف آدمی آئے تھے، وہ آج صبح بھی گھر آئے تھے۔
’’کچھ کہہ کر گئے ہیں؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘ وپن نے بتایا۔
چلو جان بچی۔ ایک چھوٹی سی جگت سے بڑی بلا ٹلی۔ اب وہ نہیں آئے گا۔ جان چھوٹی۔
لیکن نہیں۔ آفت رات بھر کے لیے ہی ٹلی تھی۔ دوسرے دن صبح یہی کوئی آٹھ بجے، موہت جب اپنی بیٹھک میں اخبار پڑھ رہا تھا، تو وپن نے اس کے سامنے ایک اور تہہ کیا ہوا کاغذ لا کر رکھ دیا۔ موہت نے اسے کھول کر دیکھا۔ وہ تین لائنوں والا ایک خط تھا۔
’’بھائی موہت، میرے دائیں پاؤں میں موچ آ گئی ہے، اس لیے بیٹے کو بھیج رہا ہوں۔ مدد کے طور پر جو تھوڑا بہت بن سکے، اس کے ہاتھ میں دے دینا، بڑی نوازش ہو جائے گی۔ مایوس نہیں کرو گے، اس امید کے ساتھ، فقط۔ تمہارا جے‘‘
موہت سمجھ گیا اب کوئی چارہ نہیں ہے۔ جیسے بھی ہو، تھوڑا بہت دے کر جان چھڑانی ہے۔ یہ سوچ کر اس نے نوکر کو بلایا اور کہا، ’’ٹھیک ہے، چھوکرے کو بلاؤ۔‘‘
تھوڑی دیر بعد ہی، ایک تیرہ چودہ سال کا لڑکا دروازے سے اندر داخل ہوا۔ موہت کے پاس آ کر اس نے اسے پرنام کیا اور پھر کچھ قدم پیچھے ہٹ کر خاموشی سے کھڑا ہو گیا۔
موہت اس کی طرف کچھ دیر تک بڑے غور سے دیکھتا رہا۔ اس کے بعد کہا، ’’بیٹھ جاؤ۔‘‘
لڑکا تھوڑی دیر تک کسی ادھیڑ بن میں پڑا رہا، پھر سوفے کے ایک کنارے اپنے دونوں ہاتھوں کو گود میں رکھ کر بیٹھ گیا۔
’’میں ابھی آیا۔‘‘
موہت نے اوپر جا کر اپنی گھروالی کے آنچل سے چابیوں کا گچھا کھولا۔ اس کے بعد الماری کھول کر، پچاس روپے کے چار نوٹ باہر نکالے، انہیں ایک لفافے میں رکھا اور الماری بند کر کے نیچے بیٹھک میں واپس آیا۔
’’کیا نام ہے تمہارا؟‘‘
’’جی، سنجے کمار بوس۔‘‘
’’اس میں روپے ہیں۔ بڑی احتیاط سے لے جانا ہوگا۔‘‘
لڑکے نے سر ہلا کر حامی بھری۔
’’کہاں رکھو گے؟‘‘
’’ادھر، اوپر والی جیب میں۔‘‘
’’ٹرام سے جاؤ گے یا بس سے؟‘‘
’’جی پیدل۔‘‘
’’پیدل؟ تمہارا گھر کہاں ہے؟‘‘
’’مرزا پور اسٹریٹ میں۔‘‘
’’بھلا اتنی دور پیدل جاؤ گے؟‘‘
’’پِتا جی نے پیدل ہی آنے کو کہا ہے۔‘‘
’’اچھا تو پھر ایک کام کرو۔ تم ایک گھنٹہ یہیں بیٹھو، ٹھیک ہے۔ ناشتا کر لو۔ یہاں ڈھیر ساری کتابیں ہیں، انہیں دیکھ سکتے ہیں۔ میں نو بجے دفتر نکلوں گا۔ مجھے دفتر چھوڑنے کے بعد میری گاڑی تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دے گی۔ تم ڈرائیور کو اپنے گھر کا راستہ بتا سکو گے نا؟‘‘ موہت نے پوچھا۔
لڑکے نے سر ہلا کر کہا، ’’ہاں۔‘‘
موہت نے وپن کو بلایا اور اس لڑکے سنجے بوس کے لیے چائے وغیرہ لانے کا حکم دیا۔ پھر دفتر کے لیے تیار ہونے، اوپر اپنے کمرے میں چلا آیا۔
آج وہ اپنے آپ کو بہت ہی ہلکا محسوس کر رہا تھا اور ساتھ ہی بہت خوش بھی۔
جے کو دیکھ کر پہچان نہ پانے کے باوجود، اس کے بیٹے سنجے میں اس نے اپنا تیس سال پرانا ہم جماعت پا لیا تھا۔