وہ محبتیں بانٹنے والا ایک شخص
اس تصویر میں ھم تین لوگ ہیں، یہ مول ندی کی تصویر ہے۔ میرے اور ذوالفقار کلھوڑو کے ساتھ یہ جو تیسرا شخص ہے، کل (2018-09-19) ھم سب کو خاموشی سے چھوڑ کر ایسے دیس چلا گیا، جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا.. اس کی اچانک جدائی اور بن رت کی موت نے اس کے دوستوں، چاہنے والوں اور اس کے خاندان کو کبھی نہ بھرنے والا ایسا زخم دیا ہے جو ہر بیتے لمحے کے ساتھ اور گہرا ھوتا رہے گا۔ اب بس اس کے ساتھ بیتے ہوئے پلوں کی یادیں ہیں اور ھم ہیں۔
اس کے ساتھ میرا تعلق اس وقت جڑا، جب میں کراچی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا. ۱۹۸۰ سے شروع ہونے والا تعلق کل پہیا (ویل) دھشتگردی نے ختم کر دیا! کل جب وہ اپنے بیٹے کی شادی کی تیاری کے سلسلے میں اپنے عزیزوں سے ملنے بحریہ ٹاؤن کراچی کے اندر قید گوٹھ علی نواز گوندر گیا ، واپسی میں بولھاڑی پہاڑی پر بحریہ ٹاؤن میں کام کرنے والے شاول نے اسے ٹکر مار کر زخمی کر دیا، اسپتال لے جاتے ہوئے زخموں کی تاب نہ لا کر وہ چل بسا..
جب بحریہ ٹاؤن کا راکاس اپنے بدبودار وجود کے ساتھ اس علاقے پر قابض نہیں تھا، تو وہ بھی باقی لوگوں کی طرح انہی پہاڑوں، پگڈنڈیوں اور بہتے ہوئے آبشاروں سے بے خوف گذرتا تھا، کیونکہ اس وقت یہ علاقہ اس کا اپنا تھا.. کاش بحریہ ٹاؤن نہ ہوتا نہ یہ تباہی مچانے والے شاول ہوتے اور نہ ہی ھمارا دوست ھمارا ساتھ چھوڑتا-
اس تصویر کی کہانی سے پہلے اس کے ساتھ جڑی ہوئی ایک اور کہانی.. یہ ۸۰ کی دھائی تھی، ھم سب پر کرکٹ کا جنون سوار تھا، ھم نے گڈاپ میں ایک کرکٹ ٹیم بنائی تھی، کھیلتے بھی کوک بال کے ساتھ تھے. یہ شخص جو ھم سب کا پیارا دوست تھا ، ھماری ٹیم کا حصہ تھا. بلا کا فیلڈر تھا، بالر بھی غضب کا تھا. ھمارا در محمد گوٹھ درسانو چھنو کی ٹیم کے ساتھ ھمیشہ کانٹے کا مقابلا ہوتا تھا، ان میچوں کو لوگ بڑی تعداد میں دیکھنے آتے تھے. گڈاپ اور درسانو چھنو کا جب بھی میچ ہوتا تھا تو لوگ اسے انڈیا اور پاکستان سے مشابہت دیتے تھے۔ درسانو چھنو کی ٹیم میں مصطفیٰ بلوچ ، خلیل، واحد ، بچل، حفیظ ھمارے لیے وبال جان تھے، مصطفیٰ جب بھی کریز پر ہوتا تو اس کی دھواں دھار بیٹنگ سے ھم پریشان ہوتے تھے۔
ایسا ہی ایک میچ گڈاپ میں کونکر اسکول کے گراؤنڈ پر ہوا. اس سے پہلے درسانو چھنو کی ٹیم نے ھم سے دو میچ مسلسل جیتے تھے۔ پہلے ھم نے بیٹنگ کی ، رنس اتنے کم تھے کہ درسانو چھنو کی جیت یقینی تھی. ان کی بیٹنگ لائین کا میں سہارا مصطفیٰ اور خلیل تھے۔ زاھد ھمارا کیپٹن تھا ۔درسانو چھنو کے اوپننگ پلیئر جلدی ہی پولین لوٹ گئے. ھمارے رنس بہت کم تھے ، اسی موقع پر مصطفیٰ بیٹنگ کے لیے آیا، میدان کے گرد بیٹھنے کی جگہ تماشائیوں سے کھچاکھچ بھری ہوئی تھی ، سارا کراؤڈ ھمارے حق میں تھا. مصطفیٰ جب کریز پر پہنچا، اوور ختم ہو چکا تھا. زاھد نے بال باؤلنگ کے لئے مجھے تھما دی، سامنے چھکے اور چوکے مارنے کے لیے مشہور مصطفیٰ تھا۔ میری تو سٹی گم ہوگئی تھی، میں نے اپنی فیلڈ ترتیب دی ، مجھے مصطفی کی کمزوری کا پتہ تھا، وہ ھمیشہ لانگ آن پر اونچا کھیلتا تھا ، میں نے اپنے اس دوست سمیت تین بہترین فیلڈر اس طرف کھڑے کیے۔ فیلڈ تیار تھی.. میں نے دوڑنا شروع کیا، پورے میدان میں خاموشی چھا گئی، میری پہلی ہی بال کو مصطفی نے لانگ آن کی جانب اونچا اڑا دیا، یہ شخص جس کا میں ذکر کر رہا ہوں، بلکل باؤنڈری لائین پر کھڑا تھا.. سامنے سورج تھا، ھم سب کی نظریں گیند اور اس دوست پر تھیں کہ کیا ہوگا.. اگلے ہی لمحے بال عین باؤنڈری لائین پر اس دوست کے ہاتھ میں تھی، اس نے مضبوطی سے بال کو دبوچ کر کیچ کر لیا تھا ، پورا گراؤنڈ تالیوں سے گونج اٹھا اور پھر سب نے اس دوست کو کاندھوں پر اٹھا لیا، میں نے ہاتھ ہلا کر اسے کہا
”تھینکس عباس! تم نے میری لاج رکھ لی“
یہ میچ آج بھی گڈاپ والوں کو یاد ہوگا۔اس کیچ کی بدولت ھم ایک ھارے ہوئے میچ کو جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
یہ دوست عباس گوندر تھا، جس نے میچ کا پانسہ پلٹ دیا اور کل بحریہ ٹاؤن کے ایک شاول نے اس کی زندگی کا پانسہ پلٹ دیا اور اس کی زندگی کے چراغ کو گُل کر دیا.. اس کی زندگی کی شام ہوئی اور نو محرم کی رات اس کے گھر میں شام غریباں تھی.. اب تو زندگی بھر اس کے گھر میں ھر شام، شامِ غریباں ہوگی۔
اب کہانی اس تصویر کی، جس میں عباس گوندر میرے اور ذوالفقار کلھوڑو کے ساتھ مول ندی میں بھوجن کر رہا ہے۔ چار مختلف آرکیالوجیسٹک سائیٹس کے وزٹ میں عباس ھمارے گائیڈ تھے، یہ سخت گرمیوں کے دن تھے لیکن اس دوست کے دلچسپی کے موضوع نہ ہوتے ہوئے بھی وہ ھمارے ساتھ تھے۔
اب کی بار نومبر میں جب ذوالفقار آئیں گے اور عباس گوندر کا پوچھیں گے تو میں کیا جواب دونگا؟
حقیقت یہ ہے کہ ھم اپنے کسی دلبر دوست کو جب کھو دیتے ہیں تو اس صورت میں ایسا لگتا ہے کہ ھم اپنے وجود کے اھم ترین حصے سے محروم رھے جاتے ہیں۔
وہ سندھ کی قومی تحریک کا بھی سپاہی رہا، جب وہ روزگار کے سلسلے میں کراچی شہر گیا تو لیاری میں جیئے سندھ محاذ کے یونٹ کو فعال کیا ، یونٹ کے جنرل سیکریٹری رھا- جیئے سندھ محاذ اور ترقی پسند پارٹی کا کارکن رہا، جی۰ایم سید، آریسر اور دودو مھیری اس کے آئیڈیل تھے، دو وقت کی روٹی کے حصول نے اس کے یہ آدرش چھین لیے۔
کل جب تھدو ڈیم کے ساتھ امام بخش گوندر گوٹھ سے اس جنازہ اٹھا تو اس غریب لیکن دل کے امیر شخص کے آخری سفر میں سینکڑوں لوگ تھے، کیونکہ وہ ھر ایک کا ھر دلعزیز دوست تھا، ھر ایک کے کام آنے والا، ھر ایک کی مدد کرنے والا… جب اس کا آخری دیدار ہوا تو اس آخری سفر میں اس کے چہرے پر ھمیشہ کی طرح ایک مسکراہٹ تھی، اس نے مسکراتے ہوئے روتے ہوئے دوستوں کو الوداع کیا۔
اس کی کچہری میں وقت گذرنے کا احساس بھی نہیں رہتا تھا۔ ایک وقت ایسا تھا کہ ہم ھر رات ھمارے گوٹھ کی اوطاق میں گھٹنوں کچہری میں مصروف رھتے تھے، عباس کچہری کا مور تھا، ھر وقت ہنسی مذاق.. جب بھی عباس ملتا تھا ہر سُو قہقے گونجتے تھے۔ پھر ایسا وقت آیا کہ ھم سب زندگی کے جھمیلوں میں ایسے الجھے کہ دس سال تک ھم دور رہے، لیکن روح کا رشتہ کبھی بھی نہیں ٹوٹا-
سندھ پولیس میں سپاھی بھرتی
ہوا، لیکن یہ نوکری اس کے مزاج کے مطابق نہیں تھی، یہ نوکری چھوڑ کراس نے اُتھل لسبیلہ بلوچستان میں کاٹن فیکٹری میں مزدوری کی، پھر سول ھسپتال کراچی میں نوکری کی تو غریبوں کا مسیحا اور مددگار بن گیا
سن 2000ع میں عباس گوندر مزدوری کے لیے حب اور کراچی شہر کی خاک چھان کر جب واپس گڈاپ آیا،تو زاھد، قادر، بہرام، ایوب اور آدم شاھ کے ساتھ پھر سے محفلیں جمیں.. چھانگا ھوٹل ھمارے ماضی کا مرکز پھر سے آباد ہوا، اور کل ایک شاول نے اس محفل کے ایک مور کو اپنے پہیوں تلے ھمیشہ کے لیے روندھ ڈالا… اور عباس گوندر کو ماضی کا حصہ بنا دیا..
بقول امداد کے:
پلڪ جھلڪ جو ميلو آھي،
پوء ھر ڪو اڪيلو آھي…
عباس یاروں کا یار، محبت کرنے اور محبتیں بانٹنے والا، ھر ایک کے کام آنے والا شخص تھا۔
محبوب کو اس کی سارے اچھائیوں، برائیوں ،خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ قبول کرنا محبت اور دوستی کی انتہا ہے، ھم سب دوست ایسے ہی دوست تھے۔
اب بس اس کی ان گنت یادیں ہیں ، دلوں میں ہر سو خاموشی ہے، اس کے گھر میں سسکیوں کی آوازیں ہیں اور ساتھ میں ڈمپر اور شاولوں کے چلنے کی آوازیں ہیں، جو اس اذیت کے لمحوں کی یاد ھمیں دلاتے رہینگے..
ھماری یہ دعا ہے کہ ﷲ ھمارے دوست کو اپنے جواررحمت میں جگہ دے
(آ مین)