پچھتر سال بعد راولپنڈی اپنے گھر لوٹنے کی امید لیے بھارتی خاتون کیا کہتی ہیں

ویب ڈیسک

مئی 1947ع میں رینا ورما کے خاندان نے تقسیم ہند سے قبل ہونے والے فسادات کی وجہ سے مجبور ہو کر پاکستان کا شہر راولپنڈی چھوڑ کر بھارت ہجرت کی تھی، اس وقت رینا کی عمر پندرہ سال تھی

رینا ورما اب نوے برس کی ہو چکی ہیں، لیکن راولپنڈی چھوڑنے کے پچھتر سال بعد بھی اپنے آبائی گھر اور پرانے محلے میں بسی یادوں کو پیچھے چھوڑنے کو تیار نہیں

دو سال قبل سوشل میڈیا پر رینا ورما کی وڈیو وائرل ہوئی، جس میں وہ اپنے بچپن کی یادوں اور راولپنڈی میں واقع اپنے آبائی گھر کے بارے میں بات کر رہی تھیں

ان کی اس وڈیو پر راولپنڈی میں مقیم سجاد کی نظر پڑی اور انہوں نے رینا ورما کا ’پریم گلی‘ میں واقع گھر ڈھونڈ نکالا اور رینا ورما کو اس گھر کی تصاویر بھی ارسال کیں

رینا ورما، جو اس سے قبل دل تھام کر اپنے دیار کی یادوں میں کھوئی ہوئی تھیں، ان تصاویر کو دیکھ کر خود پر مزید ضبط نہ کر سکیں

اپنے پرانے آبائی گھر اور محلے اور وہاں بسی یادوں نے رینا ورما کو مجبور کیا کہ وہ واپس اس علاقے میں جائیں، جہاں ان کا خوبصورت بچپن گزرا تھا

نوے سالہ خاتون کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے بھارت میں گڑگاؤں میں موجود ان کی بیٹی سونالی نے پچھلے سال ان کی مدد کرنے کی کوشش کی اور پاکستان کے ویزے کے لیے اپلائی کردیا لیکن ان کی درخواست مسترد ہوگئی

ویزے کی درخواست مسترد ہونے کے باوجود رینا ورما نے ہمت نہیں ہاری بلکہ ایک پاکستانی صحافی کے مشورے پر ایک اور وڈیو بناکر سوشل میڈیا پر ڈالی اور اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھا

بھارتی خاتون کی جانب سے بنائی گئی یہ وڈیو جب پاکستان کی وزارت خارجہ کے نوٹس میں آئی تو رینا ورما کو فوراً نوے دن کا ویزا جاری کردیا گیا

ویزے ملنے کے بعد رینا ورما اپنے پیدائشی شہر راولپنڈی آنے کے لیے بیتاب ہیں اور جولائی کے مہینے میں پاکستان آنے کا اردہ رکھتی ہیں

انہوں نے ’ٹائمز آف انڈیا‘ کو بتایا کہ ’مجھے نہیں پتہ میرے گھر میں اب کون رہتا ہے لیکن مجھے امید ہے کہ وہ مجھے میرا گھر دیکھنے کی اجازت دیں گے‘

تقسیم ہند سے پہلے کا وقت یاد کرتے ہوئے نوے سالہ خاتون کہتی ہیں کہ فسادات کے وقت رالپنڈی میں ان کے علاقے میں موجود ایک درزی نے ان کی والدہ کو پناہ دی تھی اور انہوں نے اس کی دوکان میں تقریباً چھ گھنٹے گزارے تھے

انہوں نے بتایا ’ہم نے کبھی بھی برادری سے نفرت نہیں کی۔ جب تقسیم ہوئی تو ڈر تھا اور افراتفری تھی۔ ہماری گلی کی لڑکیوں نے اپنی حفاظت کے لیے فوجی کیمپ میں پناہ لی تھی‘

رینا کہتی ہیں ’وہ ایک افسوسناک صورتحال تھی لیکن میں جو پیچھے چھوڑ آئی ہوں، مجھے اس سے اب بھی محبت ہے اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لوگوں کے دلوں میں نفرت کیوں ہے‘

رینا نے مزید کہا کہ گزر جانے والی دہائیوں میں ان کے ساتھ بہت کچھ ہوچکا ہے اور پانچ سال قبل ان کے شوہر فالج کا شکار ہوگئے اور ان کے بیٹے بھی انتقال کر گئے

لیکن پاکستان آنے کی خوشی ان کے تمام غموں پر بھاری نظر آتی ہے۔ ان کا کہنا ہے ”میرے دل میں کہیں راولپنڈی ہمیشہ زندہ رہا ہے اور مجھے کوئی ڈر نہیں کیونکہ میں اپنے گھر واپس جارہی ہوں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close