سائنس دانوں نے ایک بہت عام پیڑ (شرب) سے کینسر کے خلاف مؤثر مرکب (کمپاؤنڈ) حاصل کیا جو اس سے پہلے دواسازی کے سانچے میں ڈھل نہیں پا رہا تھا
پوردوا یونیورسٹی اور اسکرپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے بہتات میں اگنے والے جیٹروفا کرکاس (Jatropha curcas) سے ایک نیا مرکب نکالا ہے جو ایسے کینسر پروٹین کو لگام دیتا ہے، جو اس سے قبل کسی بھی دوا سے قابو نہیں آرہا تھا
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ کینسر کے مرض میں خلیات مرتے نہیں بلکہ گچھے اور رسولی کی صورت میں جمع ہوجاتے ہیں، اس کے بعد وہ بدن کے دوسرے حصے میں پھیلتے جاتے ہیں۔ اپنی تعداد بڑھانے کے لیے کینسر کے خلیات دیگر صحت مند خلیات کے ڈی این اے پر حملہ آور ہوتے ہیں
بعض اقسام، مثلاً دماغ، چھاتی، آنت، پھیپھڑے اور جگر کے کینسر میں بی آر اے ٹی ون یا BRAT1 نامی پروٹین ہی ڈی این اے کے تباہی اور مرمت کے تمام معاملات کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس پروٹین کا علاج کرکے ان اقسام کے کینسر کو بڑی حد تک کنٹرول کیا جاسکتا ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اب تک اس پروٹین پر اثر کرنے والی کوئی دوا نہیں بنائی جا سکی ہے
اس دریافت کے اہم سائنسدان پروفیسر منگجائی ڈائی کا کہنا ہے کہ جہاں تک کینسر خلیات کو مارنے اور انہیں دوسرے مقام تک پہنچنے سے روکنے کا تعلق ہے تو اس کے لیے ہمارے پاس بہت سے مرکبات ہیں، لیکن بی آر اے ٹی ون کو روکنے والا کوئی ادویاتی مرکب ہمارے پاس نہ تھا
جیٹروفا کرکاس امریکا بھر میں عام پایا جاتا ہے جو اس سے قبل بایوفیول کی تیاری میں عالمی شہرت رکھتا ہے۔ اس پیڑ سے ’کرکیوسونس‘ نامی کئی مرکبات حاصل ہوئے ہیں۔ اپنی ساخت کی بنا پر یہ دیگر مرکبات سے بہت مختلف ہیں اور ان میں کئی طرح کی حیاتیاتی سرگرمیاں بھی دیکھی گئی ہیں۔ توقع ہے کینسر کے خلاف لڑائی میں نئے ہتھیار اسی پیڑ سے حاصل ہوسکیں گے
اگلے مرحلے میں سائنسدانوں نے کرکیوسون اے، بی، سی اور ڈی کو تجربہ گاہ میں بریسٹ کینسر کے خلیات پر آزمایا۔ اس میں کرکیوسون ڈی بہت مؤثر دیکھا گیا جس نے سرطانی رسولی کو چھوٹا کر دیا۔ جب اسے ایک دوا ایٹوپوسائڈ کے ساتھ ملا کر استعمال کیا گیا، تو مزید اچھا نتیجہ نکلا
واضح رہے کہ یہ دوا بریسٹ کینسر میں عام استعمال ہوتی ہے اور ایف ڈی اے سے منظور شدہ بھی ہے
لیکن فی الحال ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ جیٹروفا کی جڑوں سے کرکیوسون ڈی کو نکالنا جان جوکھوں کا کام ہے، کیونکہ بہت ساری جڑوں سے اس کی معمولی مقدار ہی نکل پاتی ہے۔ اگلے مرحلے میں اسے تجربہ گاہ میں تالیف (سنتھیسائز) کرنے کی کوشش کی جائے گی
سائنسداں پرامید ہیں کہ اس طرح مرکب کی قدرے خاص حالت مل سکے گی لیکن ان حوصلہ افزا نتائج کے بعد بھی ماہرین کو ابھی مزید تحقیق کی ضرورت پڑے گی.