ترقی اور تباہی کا سفر ساتھ ساتھ (قسط 4)

عاجز جمالی

°بحریہ ٹائون کا سیاسی طوفان

یہ دنیا بھر کا دستور ہے کہ ترقیاتی منصوبے یا میگا پراجیکٹس کے وقت مقامی افراد کو اعتماد میں لیا جاتا ہے ورنہ یہ منصوبے متنازعہ بنتے ہیں اور جب بھی کوئی بڑا منصوبہ کسی بھی خطے میں متنازعہ بنتا ہے تو پھر لازمی طور پر وہ ایک سیاسی مسئلہ بن جاتا ہے، پھر پورے سماج پر اس کے سیاسی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔

سپر ہائی وے کراچی پر شروع ہونے والا بحریہ ٹائون کا بڑا رہائشی منصوبہ اپنے ابتدائی دنوں سے ہی متنازعہ منصوبہ ہے اور سنہ 2014  میں نورمحمد گبول گوٹھ پر پہلی چڑھائی سے یہ منصوبہ مقامی آبادیوں کے لئے متنازعہ بنا۔ ماما فیضو گبول کے نورمحمد گوٹھ پر سات برس قبل بھی چڑھائی کی گئی تھی اور اب دو ہفتے قبل بھی چڑھائی کی گئی۔ سات سال پہلے اور اب  سات سال بعد یہ چڑھائی 56 ایکڑ زرعی اراضی حاصل کرنے کے لئے کی گئی۔ اس وقت بظاہر تو بحریہ ٹائون فی ایکڑ کی قیمت دو کروڑ روپے دینے کے لئے تیار ہے اور بظاہر تو ایسے نظر آ رہا ہے کہ بڑی مشکل زندگی بسر کرنے والا مراد گبول اگر یہ زمین فروخت کرے تو ارب پتی بن سکتا ہے۔ ماما فیضو کو بھی یہ ہی پیشکش تھی جو اس نے مرتے دم تک قبول نہیں کی تھی۔ اب اس کا بیٹا مراد بھی غریب کا غریب رہنا چاہتا ہے۔ آخر مراد گبول ارب پتی کیوں نہیں بننا چاہتا ہے؟ مجھے اکثر شہری نوجوان کہتے ہیں کہ ماما فیضو کی طرح اس کا بیٹا مراد بھی پاگل ہے کیونکہ زمین کو ماں قرار دے کر فروخت نہ کرنا پاگل پنا نہیں تو اور کیا ہے ؟ کمرشل یا کاروباری سوچ کے نقطہ نظر نے دھرتی کے وارثوں کو ہمیشہ پاگل قرار دیا ہے۔ کشمیر، فلسطین، افغانستان میں بھی یہی ہوا۔ جب سیلاب اور طوفان آتے ہیں تب بھی دیہاتی لوگ اپنی جھونپڑیاں چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے،  سمندری طوفانوں کی آمد کے وقت جزائر پر آباد لوگ بھی جزائر چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ 2010ع  میں کیٹی بندر کے قریب حجامڑو کریک کا وہ منظر یاد آ رہا ہے جب بھیانک سمندری طوفان کی پیشگوئی ہو رہی تھی مگر حجامڑو کریک نامی جزیرے پر آباد مقامی ماہی گیر جزیرہ خالی کرنے کے لئے قطعی تیار نہیں ہو رہے تھے. ہم ٹی وی چینلز پر چیخ چیخ کر ٹھٹہ کے ضلعی انتظامیہ کو کوس رہے تھے. بلآخر ضلعی انتظامیہ نے جزیرے میں لاٹھی چارج کرکے مقامی ماہی گیروں کو باہر نکالا۔ لوگ یہ ہی کہہ رہے تھے کہ ہم اپنی جھونپڑیاں خالی کرکے آخر کہاں جائیں گے؟ میں نے اپنے صحافتی فرائض کی انجام دہی کے دوران ایسے کئی مناظر دیکھے ہیں کہ مقامی افراد  اپنی زمین سے پاگل پنے کی حد تک محبت کرتے ہیں. ہم شہری لوگ شاید اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔

مراد گبول کہتا ہے کہ  بھلا میں اپنی زمین نہیں دینا چاہتا تو یہ میری مرضی، کیونکہ نسل در نسل سے یہ زمین ہمارے آبا و اجداد کی ہے. مراد نے کہا کہ اگر میں امیر نہیں بننا چاہتا تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا جائے، مگر بحریہ ٹائون 2014ع سے بضد ہے کہ بحریہ ٹائون کی دیوار کے قریب آباد نور محمد گبول گوٹھ کو اس مقام پر نہیں چھوڑا جائے گا!

اور تب سے لے کر آج تک اس مسئلے پر احتجاج، مقامی مزاحمت اور سیاست کا سلسلہ جاری ہے۔ بحریہ ٹائون کے خلاف مقامی دیہاتیوں کے احتجاج کے بعد سندھ کی سیاسی، مذہبی، قوم پرست جماعتوں سول سوسائٹی اور میڈیا کا کردار ہمیشہ زیر بحث رہا۔ اس ضمن میں کس نے کیا کردار ادا کیا، کس نے کتنا احتجاج کیا، کس طرح کی سیاست کی اور پھر اس کا کتنا اثر ہوا ؟ ملیر سے منتخب نمائندوں کا اب تک کردار کیا رہا اور مقامی لوگ ان کے بارے میں اس وقت کیا خیالات رکھتے ہیں.. یہ جاننا بہت ضروری ہے، کیونکہ میرا خیال ہے کہ بحریہ ٹائون کے مسئلے پر اٹھنے والا سیاسی طوفان کسی کو بھلے میڈیا کی اسکرین پر نہ دکھتا ہو، لیکن یہ طوفان مستقبل قریب میں ملیر کی سطح پر کئی سیاسی پارٹیوں کو ڈبو دے گا یا پھر سہارا دے گا اس لئے میں نے اس میں سیاسی کردار کے اثرات اور کچھ جماعتوں کے چھپے ہوئے کردار کو ڈھونڈ نکالا اس لئے ان کے کردار کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

انڈیجنئس رائٹس الائنس:
کراچی میں بحریہ ٹائون کے خلاف سب سے پہلے منظم جدوجہد اس تنظیم نے شروع کی، جس کا نام کراچی انڈجینئس رائٹس الائنس رکھا گیا تھا. بعد ازاں نام تبدیل کرکے سندھ انڈیجینئس رائٹس الائنس رکھا گیا. اس تنظیم کے بارے میں ابتدائی میٹنگ کراچی کے دیہی علاقوں کے معروف سماجی کارکن خدا ڈنو شاہ کی اوطاق( بیٹھک) پر ہوئی جس میں خدا ڈنو شاہ، محقق گل حسن کلمتی، پروفيسر ڈاکٹر رخمان گل پالاری، قوم پرست رہنما الاہی بخش بکک وہ ابتدائی لوگ تھے جنہوں نے کوئی تنظیم بنا کر بحریہ ٹائون کے خلاف جدوجہد شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

بعد میں علاقے کے معززین سے رابطے کیئے گئے اور تب مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی اور ملیر کے اہم سیاسی رہنما عبدالحکیم بلوچ کی رہائش گاہ پر ایک وسیع اجلاس ہوا۔ موجودہ ایم پی اے سلیم بلوچ چونکہ عبدالحکیم بلوچ کے قریبی ساتھی ہیں، وہ بھی شامل ہوئے. اس اجلاس میں دیگر برادریوں کے دیگر افراد نے بھی شرکت کی اور باقاعدہ تنظیم بنانے کا فیصلہ ہوا، جس کے بعد سلیم بلوچ کی میزبانی میں رمادا ہوٹل میں ایک اجلاس ہوا جس میں عبدالحکیم بلوچ، ایم پی اے شفیع محمد جاموٹ، جام عبدالکریم جوکھیو، گل حسن کلمتی، خدا ڈنو شاہ، یوسف مستی خان، رخمان گل پالاری، الاہی بخش بکک، حنیف دلمراد بلوچ، حفیظ بلوچ سمیت پیپلز پارٹی کے مقامی افراد نے بھی شرکت کی تھی. اس ہی اجلاس میں کراچی انڈیجینئس رائٹس الائنس کا اعلان کیا گیا اور سلیم بلوچ کو تنظیم کا صدر منتخب کیا گیا۔ مذکورہ تنظیم نے احتجاجی مظاہرے اور سیمنارز کروائے، ہینڈبل، پمفليٹ اور کتابچے چھپوائے، پریس کانفرنسز اور آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا، کراچی یونیورسٹی، حبیب یونیورسٹی میں طلبہ اور طالبات کے ساتھ سیمنارز کیئے اور پوری موبلائیزیشن کی گئی. اسی تنظیم نے بحریہ ٹائون کو نیب کے متعلق ثبوت فراہم کیئے، یہ تنظیم آہستہ آہستہ کام کرتی رہی۔ کراچی میں جب بلدیاتی انتخابات کا وقت آیا تو ملیر میں پیپلز پارٹی کے خلاف الائنس بنایا گیا. بلدیاتی الیکشن میں اسی تنظیم کے امیدواروں نے مذکورہ الائنس کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیا اور اس کے کونسلرز اور یوسی چیئرمین بھی منتخب ہوئے۔ ضلع کونسل کراچی کے چیئرمین کے لئے پیپلز پارٹی کے سلمان عبداللہ مراد کے مقابلے میں الائنس نے مقابلہ کیا لیکن سلمان عبداللہ مراد چیئرمین منتخب ہوگئے۔ جس کے بعد ملیر کی سیاست نے کروٹ بدلی۔ ایم این اے عبدالحکیم بلوچ نے مسلم لیگ سے استعفی دے کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ سلیم بلوچ جو کہ انڈیجنئس رائٹس کا صدر تھے، وہ بھی پیپلز پارٹی میں چلے گئے، بلکہ ضلع کونسل میں جام عبدالکریم کا گروپ بھی پیپلز پارٹی کا اتحادی بن گیا. بعد میں جام عبدالکریم نے بھی پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور 2018ع کے انتخابات میں ان تمام لوگوں نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا۔ عبدالحکیم بلوچ کے علاوہ دیگر تمام لوگ کامیاب ہوئے۔ جام عبدالکریم جوکھیو ایم این اے، سلیم بلوچ ایم پی اے منتخب ہوئے. شفیع محمد جاموٹ کے انتقال کے بعد ان کا بھتیجا بھی ایم پی اے بنا جو کہ پیپلز پارٹی میں چلا گیا، یعنی جن تمام  سرکردہ لوگوں نے 2015ع  میں بحریہ ٹائون کے خلاف جدوجہد شروع کی تھی، وہ سب 2018ع  میں پیپلز پارٹی کے منتخب نمائندے بن گئے اور بحریہ ٹائون کا مقدمہ بھی سپریم کورٹ میں چلنے لگا۔ تنظیم کے اندر مایوسی کا عالم تھا، تب معروف قوم پرست رہنماؤں یوسف مستی خان، عبدالخالق جونیجو، عثمان بلوچ نے ڈھارس بندھائی اور ایک بار پھر بحریہ ٹائون کے خلاف جدوجہد شروع ہوئی۔

روز اوّل سے سرگرم رہنما محقق گل حسن کلمتی نے اس حوالے سے بتایا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہم لوگوں نے مایوس ہوکر تنظیم ختم کرنے کا سوچا، لیکن بعد میں یوسف مستی خان اور عبدالخالق جونیجو نے سہارا دیا۔ ہم نے آل پارٹیز کانفرنس کرائی اس میں تمام سیاسی پارٹیوں نے شرکت کی اور دیہاتیوں کی حمایت کا اعلان کیا، لیکن کوئی عملی نتیجہ نہیں نکلا۔ انڈیجنئس رائٹس وہ تنظیم ہے جس نے تب مظاہرے کیئے،  جب میں اے آر وائی نیوز میں تھا لیکن ہمارے لئے اس طرح کے مظاہرے ٹی وی پر چلانا مشکل ہی نہیں، بلکہ نا ممکن تھا۔ کراچی پریس کلب کے سامنے ہونے والے مظاہروں کو ہم صرف کیمرا دکھاتے تھے اور کچھ بھی نہیں۔ گذشتہ برس جب میں اخبار میں چلا گیا، تو ہم نے انڈیجنئس رائٹس کے مظاہروں کی خبریں شایع کرنا شروع کردیں۔ لیکن یہ میری پختہ رائے ہے کہ یہ تنظیم مستقل مزاجی کے ساتھ گذشتہ چھ برسوں سے مقامی آبادیوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ آج ہم سب میڈیا والے اس جانب متوجہ ہیں۔ مقامی چینلز میں بحریہ ٹائون کے مظالم پر خبریں بھی چلتی ہیں۔ سندھی اخبارات نے اس مسئلے پر بہت کچھ لکھا ہے۔ اس کی وجہ انڈیجنئس رائٹس کی جدوجہد ہی ہے۔ (جاری ہے)

بحریہ ٹائون کے متعلق یہ مضمون روزنامہ عوامی آواز میں قسط وار شایع ہوا، جس کا اردو ترجمہ قارئین کے لئے یہاں  مصنف کی اجازت اور مصنف اور عوامی آواز کے شکریے کے ساتھ شایع کیا جا رہا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close