الیکشن ہو رہے ہیں یا منہ پے مارے جا رہے ہیں؟

وسعت اللہ خان

سپریم کورٹ کو الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے پہلے تو متعلقہ اداروں کے سر آپس میں ٹکرانے پڑے۔ جب عدالتِ عظمیٰ کے بے حد اصرار پر آٹھ فروری کی تاریخ کا اعلان ہو گیا تب بھی آنا کانی ہیرا پھیری کی کوشش جاری رہی اور معزز عدالت کو ایک بار پھر آٹھ تاریخ کو کھونٹے سے باندھنے کے لیے مداخلت کرنا پڑی۔

چنانچہ مرتا کیا نہ کرتا۔ بالکل نوے نکور ناتجربہ کار دو کروڑ پینتیس لاکھ فرسٹ ٹائمر ووٹروں سے خائف اسٹیبلشمنٹ الیکشن کروانے پر آمادہ تو ہے مگر اب تک کی حرکتیں بتا رہی ہیں کہ گویا یہ الیکشن منعقد نہیں ہو رہے، قوم کے منہ میں مارے جا رہے ہیں ’لے مر! ٹھونس لے۔‘

کسی ستم ظریف نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگائی ’آج مورخہ چوبیس دسمبر کاغذاتِ نامزدگی چھیننے کا آخری دن ہے۔‘

اسٹیبلشمنٹ کی ذہنی کیفیت کو پڑھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آٹھ فروری کو (خدانخواستہ) الیکشن ہوا تو اتنا شفاف ہوگا کہ سب اس میں اپنا سا منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔ ہمیں اور آپ کو گذشتہ الیکشنز کی قدر و قیمت بھی تب ہی معلوم ہو گی، جب آٹھ فروری کے بعد بھی زنجیر بکف پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھنے اور وعدوں کے تازہ خربوزے پھوڑنے کے کام کے لیے ایک اور منتخب ’نگراں حکومت‘ حجلہِ عروسی میں داخل ہوگی۔

شیر، مگرمچھ، بھیڑیے اور باز پر مشتمل چار رکنی کمیٹی کی نگرانی میں تیندوے، بکری، طوطے، گرگٹ، ہرن، مینڈک، بارہ سینگے، سانپ، کوّے، اور لگڑبگے پر مشتمل مخلوط سرکار جنگل کا نظام چلائے گی۔ یعنی ایک اور ہزمیجسٹیز لائل گورنمنٹ اور ہز میجسٹیز لائل اپوزیشن۔ شکار آدھا آدھا۔

نظام کی گرفت اس قدر سخت ہے کہ ہمارے مہربان ژوب کے انوار الحق کاکڑ، جو ہم صحافیوں سے ایک برس پہلے تک اس بات پر خفا ہو جاتے تھے کہ یار تم لوگ کوئٹہ آ کے ملے بغیر کیسے چلے جاتے ہو، آج انہی کے صوبے کے کچھ مہمان ان کے سرکاری گھر سے محض دو کلومیٹر پرے پڑے ہیں، مگر کاکڑ صاحب شاید ان سے کبھی بھی نظریں ملا کے گلہ نہ کر سکیں گے کہ تم میرے صوبے سے آئے ہو، میرے لوگ ہو، اس موسم میں یہاں کیوں پڑے ہو؟ اتنا بڑا وزیرِ اعظم ہاؤس اور وہاں کے تمام روپہلے آتش دان حاضر ہیں۔۔ چل کے آرام کرو، بھلے دھرنا دو اور پھر بتاؤ کہ میں تمہاری کیا خدمت کروں۔

کاکڑ صاحب کا مطالعہ خاصا وسیع ہے اور منطق کا سویٹر بُننے کے لیے بھی ہمیشہ اچھی کوالٹی کا اون استعمال کرتے ہیں، لہٰذا یہ گمان بھی ممکن نہیں کہ انھوں نے یہ بلوچی کہاوت سنی ہی نہ ہو کہ ’ایک پیالہ پانی کی قیمت سو برس کی وفاداری ہے‘ جو آدمی گھر آئے مہمانوں کو ایک کٹورا پانی بھی نہ بجھوا سکے، اس کی بے چارگی کا عالم اللہ اللہ۔۔

سوری سوری سوری۔۔۔ شاید میں کچھ غلط کہہ گیا۔ اسلام آباد نے ان مہمانوں کو کٹورا بھر پانی نہیں بھجوایا بلکہ ان پر ٹھنڈے پانی سے بھرا پورا ٹینکر برسا کے والہانہ سواگت کیا، تاکہ کل کوئی یہ طعنہ نہ دے سکے کہ گھر آئے مہمان کو پانی تک نہ پوچھا۔

کچھ حاسدوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ مہمان کوئی مسلح بلوچ سرمچار یا طالبان ہوتے اور ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوتے یا پھر 2014 کے دھرنے کی طرز پر پارلیمنٹ کے جنگلوں پر اپنے کپڑے سکھا رہے ہوتے اور وزیرِ اعظم ہاؤس کے گیٹ پھلانگنے کی کوشش کر رہے ہوتے اور مسلسل الٹی میٹم دے رہے ہوتے اور کچھ نادیدہ سائے ان کے آگے پیچھے متحرک ہوتے تو شاید وزیرِ اعظم ان کا خیرمقدم ذاتی طور پر کرتے۔

مگر وفاق سے آخری امید رکھنے والے یہ مسلسل بے آرام بچے اور بوڑھے ایک دن جب اتمامِ حجت کے بعد خالی ہاتھ گھر لوٹیں گے، تو ہو سکتا ہے کوئی وطن دشمن انہیں ایسی حرکتوں سے اکسانے کی کوشش کرے۔

کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انہیں غور سے

جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے (سلیم کوثر)

اور جنہیں آٹھ فروری کے بعد بلوچستان میں بھی حکمرانی کی اداکاری کرنی ہے، وہ کیا ہوئے؟ کوئی وفاق پرست بلاول یا مریم جو کوئٹہ جا کر بلوچ بچے بچیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کے اور گلے لگا کے فوٹو سیشن کرتے ہیں، اب تک اسلام آباد پریس کلب کے اطراف میں بھی نہیں پھٹکے۔

منافقت اور دنیا دکھاوے میں بھی اس قدر احتیاط پسندی؟ ممکنہ خیرات چھن جانے کا اتنا خوف؟ استغفراللہ۔۔۔

برہنہ ہیں سرِ بازار تو کیا،
بھلا اندھوں سے پردہ کیوں کریں ہم

چبا لیں کیوں نہ خود ہی اپنا ڈھانچہ،
تمہیں راتب مہیا کیوں کریں ہم۔۔

(جون ایلیا)

بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close