حقِ رسائی برائے معلومات کا قانون کتنا سودمند ہے؟

فیصل سلیم

جس دورِ جدید میں ہم رہ رہے ہیں، اس میں سوشل میڈیا پر معلومات تک رسائی آسان ہے۔ لیکن اس دستیاب مواد میں کون سی معلومات درست اور مصدقہ ہیں، یہ کہنا مشکل لیکن ناممکن نہیں ہے

جھوٹی خبروں کے بڑھتے رجحان کو ختم کرنا ’رائٹ ٹو انفارمیشن‘ (معلومات تک رسائی) کے قانون کو استعمال کرتے ہوئے تحقیقاتی صحافت سے ممکن ہے۔ مصدقہ معلومات کے حصول اور صحافتی معیار کو یقینی بنانے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر یہ قوانین موجود ہیں

اس قانون کا مسلسل استعمال ہی اس کو سودمند بنا سکتا ہے، عمومی طور پر صحافی اس قانون کو بہت کم استعمال کرتے ہیں جبکہ یہ اتنا عمدہ اور آسان طریقہ کار ہے جس سے آپ اپنی دسترس سے باہر اداروں میں ذرائع مرتب کیے بغیر ایک درخواست کی مدد سے اپنے شہر اپنے گھر پر معلومات حاصل کر سکتے ہیں

دی رپورٹرز ڈاٹ پی کے نیوز ویب سائٹ کے بانی شہزاد یوسف زئی بتاتے ہیں کہ ان کی ویب سائٹ پر آر ٹی آئی کی مدد سے رپورٹنگ کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ وہ معلومات کے حصول اور اس پر اداروں کی جانب سے کارروائی کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ وہ سرکاری محکموں میں عوامی فنڈز کے ضیاع کی نااہلی اور بدانتظامی کے بارے میں حقائق اور اعداد و شمار کے ساتھ سامنے لانے میں کامیاب رہے ہیں

اس میں صوبائی و وفاقی حکومتوں کے سربراہان کی جانب سے ہیلی کاپٹر کے استعمال کے اخراجات کی معلومات کا حصول تھا جو انفارمیشن کیمشن کی ہدایات پر حاصل ہوئیں، جن کو بعد میں اخبارات اور نیوز چینلز پر زیر بحث لایا گیا۔ تاہم اس حوالے سے کسی بھی حکومت یا ادارے کے اخراجات میں کمی محض دعووں تک محدود ہے

1766 میں سویڈن نے فریڈم پریس ایکٹ کے نام سے یہ قانون ترتیب دیا جو کہ 120 ممالک میں اب انسانی حقوق کا حصہ اور عوام کو یہ حق فراہم کرتا ہے۔ جبکہ جنوبی ایشیا میں پاکستان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ سب سے پہلے پاکستان نے 2002 میں فریڈم آف انفارمیشن آرڈینینس پاس کیا جس کو 2013 تک تمام صوبوں نے بھی اپنا لیا

پاکستان میں اس ایکٹ کی اہمیت تب اور زیادہ بڑھ گئی، جب 2010 میں اٹھارہویں ترمیم کے پاس ہونے کے بعد اس میں حق رسائی برائے معلومات کی شق نمبر 19-اے شامل کی گئی۔ یہ شق ہر شہری کو عوامی اہمیت کے تمام معاملات کی معلومات تک رسائی حاصل کرنے کا حق دیتی ہے۔ 19-اے کا بنیادی مقصد تمام سرکاری کارروائیوں کی معلومات عام کرتے ہوئے شفافیت کو یقینی بنانا ہے، جس سے مجموعی طور پر عوامی فلاح اور اداروں کی بہتری عمل میں آسکتی ہے

رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) کے بہتر نفاذ کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا ذکر کیا جائے تو انفارمیشن کمیشن کی سالانہ رپورٹ 2021 کے مطابق اس قانون کے بہتر عمل درآمد میں اداروں کی عدم دلچسپی، مستقل پبلک انفارمیشن آفیسر بھرتی نہ کرنا، قانون کی اہمیت و افادیت سے انکار کرتے ہوئے موصول ہونے والی درخواستوں کو سرکاری کام میں مداخلت قرار دینا، ریکارڈ کو مرتب نہ کرنا اور ازخود معلومات عام نہ کرنے جیسے مسائل سرفہرست ہیں

ان مسائل کے حل کے لیے سرکاری اداروں اور عوامی سطح پر اس قانون کی افادیت سے آگاہی اور اس کا استعمال ہونا لازمی ہے۔ وفاقی اداروں کو اس قانون کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنی سرگرمیوں اور معلومات کو ازخود پبلک کرنے کی ضرورت ہے، بروقت معلومات کی فراہمی کے لیے محکمانہ سطح پر ہر ضلع میں پبلک انفارمیشن آفیسر کی تعیناتی، انفارمیشن کمیشن کو بجٹ اور اسٹاف کی فراہمی اور قوانین کے مابین تصادم کا خاتمہ درکار ہے

عمومی طور پر بعض محکمے معلومات تک رسائی نہ دینے کے لیے آفیشل سیکریٹس ایکٹ 1923 کا سہارا لیتے ہیں۔ اس حوالے سے قوانین کی حدود اور باریک بینیوں کو واضح کرنے کی ضرورت موجود ہے

ہائی کورٹ کے وکیل ساجد محمود اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ انہی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) ایکٹ 2017 میں آر ٹی آئی رولز 2021 کی شکل میں وضاحتیں کی گئی جو اس قانون کے بہتر نفاذ میں رکاوٹ تھیں

اب کسی بھی شہری کو معلومات حاصل کرنے کے لیے پیشگی فیس ادا نہیں کرنی ہوگی اور اسے معلومات کے حصول کی وجہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہوگی جس کے باعث یہ ایکٹ مزید مؤثر ہوگیا ہے۔ اسی طرح جس ادارے سے معلومات درکار ہیں وہ عمومی درخواست میں درکار معلومات دس دن جبکہ حساس معاملے کی معلومات تین دن میں فراہم کرنے کا پابند ہے۔ یہی ایکٹ ہر محکمے کو اپنا ریکارڈ ہمہ وقت مرتب رکھنے کا پابند بھی کرتا ہے

ڈان نیوز ضلع خانیوال کے نمائندے سجاد اکبر شاہ کہتے ہیں کہ بطور صحافی یہ ان کا تجربہ رہا ہے کہ آر ٹی آئی کے ذریعے معلومات حاصل کرنا مشکل ہے، کیونکہ اداروں میں موجود لوگ باقاعدہ طریقے کار سے معلومات فراہم کرنے سے ہچکچاتے ہیں، جبکہ صحافت کی برق رفتاری اور آر ٹی آئی کی سست روی آپس میں میل نہیں کھاتے ہیں جس کے باعث اداروں میں موجود ذرائع سے معلومات نکالنی پڑتی ہے اور اپنی خبر میں ذرائع کا لفظ استعمال کرنا پڑتا ہے

سجاد شاہ نے اس امر کو تسلیم کیا کہ ’اگر ذرائع کو واضح کر دیں تو اگلی مرتبہ معلومات حاصل نہیں ہوں گی جس سے ہمارا کام متاثر ہوگا۔ اگر معلومات باقاعدہ دستاویز کی شکل میں حاصل کی جائیں تو کوئی بھی محکمہ یا متعلقہ ذمہ داران اس معاملے کو جھٹلا نہیں سکتے ہیں۔ جس سے محکمہ جاتی معاملات میں احتساب اور شفافیت اجاگر ہوگی‘

بظاہر آر ٹی آئی کی مدد سے صحافت سست روی کا شکار دکھائی دیتی ہے لیکن وہیں پر ایسے صحافی بھی موجود ہیں جو باقاعدہ آر ٹی آئی کی مدد سے معتبر صحافت کر رہے ہیں۔ ایسا ہی ایک نام شازیہ محبوب کا ہے جو کہ پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی تحقیقاتی فیلوشپ کا حصہ رہ چکی ہیں اور انہیں سینٹر آف پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیئیٹو کی جانب سے 2021 میں صحافتی کیٹگری میں آر ٹی آئی چیمپیئن کا ایوارڈ بھی دیا گیا

ڈان اور ایکسپریس ٹریبیون کے لیے فری لانس صحافت کرنے والی شازیہ بتاتی ہیں کہ کسی بھی حساس نوعیت یا ایسے رپورٹ پر کام کرتے ہوئے جس میں کسی ادارے کی ساکھ یا کارکردگی پر سوال اٹھتے ہوں اس صورت حال میں آر ٹی آئی کی مدد سے صحافت ہی سب سے محفوظ طریقہ کار ہے

اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ایف آئی اے کی چار سالہ کارکردگی اور سائبر کرائم کے حل شدہ کیسز پر اسٹوری فائل کی جس میں ادارے سے آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل کردہ دستاویز بھی شائع کی گئی جس پر ادارے کی جانب سے ناراضگی کا اظہار کیا گیا اور انہیں وہ ڈاکیومنٹ ہٹانے اور اس کے خلاف عدالت میں جانے کی دھمکی بھی دی گئی

شازیہ محبوب آر ٹی آئی کی مدد سے 2018 سے صحافت کر رہی ہیں ان کا کہنا ہے کہ متعدد اداروں سے معلومات انفارمیشن کمیشن میں درخواست دے کر ہی حاصل کرنا پڑتی ہے۔ ان کے مطابق ادارے اس قانون پر مجبوراً عمل پیرا ہوتے ہوئے معلومات فراہم کرتے ہیں اسے اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کرتے

مقبول چینلز و اخبارات میں چونکہ 90 فیصد خبریں سیاست سے جڑی ہوتی ہیں تو عوامی فلاح سے جڑے بیشتر معاملات جن میں بڑھتی ہوئی آبادی سرفہرست ہے زیرو ریٹنگ ہونے کے باعث نظرانداز ہو جاتے ہیں۔ اس لیے شازیہ محبوب سمجھتی ہیں کہ میڈیا کی یہ روش اور عوامی رجحان بھی آر ٹی آئی کی مدد سے بدلا جاسکتا ہے کہ عوامی فلاح کے حوالے سے اداروں کی کارکردگی و حالیہ سرگرمیوں پر مبنی معلومات حاصل کی جائیں اور اس کی خبریں شائع یا نشر ہوں

اسی طرح ملتان سے جیو نیوز رپورٹر میمونہ سعید بتاتی ہیں کہ دسمبر 2018 میں وہ خواتین کی دوران حمل موت اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کے حوالے سے سٹوری کر رہی تھیں جس کے لیے انہیں آر ٹی آئی کے جواب میں غیر تحریری معلومات فراہم کی گئی اور چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیلتھ نے اپنا مؤقف دینے سے یکسر انکار کر دیا۔ تاہم معلومات ملنے کے بعد ان کی رپورٹ شائع ہوگئی

مصدقہ معلومات کے حصول اور اس کے فوائد کے حوالے سے دی نیشن کے خانیوال سے نمائندے انجم بشیر بتاتے ہیں کہ ’جہاں ہماری ریاست ہمیں آزادی اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کا حق دیتی ہے وہاں ہمیں خبر دیتے وقت سامنے والے کی ساکھ کا بھی خیال رکھنا چاہیے جو معمولی سی لغزش سے برباد ہوسکتی ہے۔ اس لیے جس بھی ادارے سے معلومات حاصل کی جائے وہ ڈاکیومنٹ کی شکل میں ہو تاکہ کوئی بھی ان معلومات کی صحت سے انکار نہ کرسکے۔‘

پنجاب لوک سجاگ کی سابق ریجنل کوآرڈینیٹر و فری لانس صحافی الوایر راشد بتاتی ہیں کہ آر ٹی آئی ایکٹ کے ابتدائی عمل درآمد میں سماجی تنظیموں کا بہت اہم کردار رہا ہے اور آر ٹی آئی کے استعمال کے حوالے سے عوام و صحافیوں کی تربیت کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن سرکاری محکمے اس ایکٹ کے زیر اثر معلومات دینے میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہے

رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن کی سال 2021 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ادارے کو 1734 درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں سے 695 کو مکمل معلومات کی فراہمی یقینی بنوائی گئی جبکہ 395 درخواستوں کو معمولی کمی و بیشی کے ساتھ معلومات فراہم کروائی گئی جبکہ دیگر درخواستیں زیر عمل ہیں

یہاں پر قابل غور امر یہ ہے کہ 713 درخواستیں فیڈرل منسٹریز، 72 پاور سپلائی کمپنیز، 85 تعلیمی اداروں کے حوالے سے موصول ہوئیں۔ فیڈرل منسٹریز میں 141 درخواستیں محکمہ دفاع کے حوالے سے موصول ہوئیں جبکہ مجموعی طور پر موصول ہونے والی درخواستوں میں لیبر کے حقوق، ترقیاتی منصوبوں اور بھرتیوں کی شفافیت جانچنے کے حوالے سے معلومات حاصل کی گئی

قانون برائے حق رسائی معلومات سرکاری اداروں و حکومت کی گورننس کا بہترین طریقہ کار ہے جس کی افادیت سے ہماری ریاست کا چوتھا ستون بےخبر ہے۔ اس قانون پر مسلسل عمل درآمد ہی اداروں کو بروقت جواب دینے کے حوالے سے آمادہ کرے گا اور مجموعی طور پر اداروں کی کارکردگی میں شفافیت اور تیزی آئے گی جبکہ بطور صحافی معتبر صحافت کا اس سے شاید بہتر کوئی دوسرا طریقہ کار نہیں ہے

نوٹ: مضمون نگار فیصل سلیم میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور مختلف نیوز ویب سائٹس کے لیے لکھتے ہیں۔ ان کی یہ تحریر انڈپینڈنٹ کے شکریے کے ساتھ شائع کی گئی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close