کراچی کی تاریخ پر بیشتر کتابوں میں لکھا ہے کہ کراچی ماہی گیروں کی بستی تھی، یہ مکمل سچ نہیں ہے۔ یقیناً کراچی کے ساحلی علاقوں کا ذریعہِ معاش ماہی گیری پر مبنی تھا لیکن ان اوائلی ماہی گیروں کو مچھلی کے ساتھ ساتھ دودھ، گوشت، سبزیوں و پھل کی ضرورت ہوتی تھی جو کہ کراچی کے میدانی علاقوں میں موجود دہقان و گلہ بان میسر کرتے تھے۔
مجھے یاد ہے ملیر میں ہر طرف ہریالی تھی۔ صبح و شام چرواہے بھیڑ بکریوں اور گائے کے ریوڑ ہانکتے ہوئے نظر آتے تھے۔ یہ علاقہ خوبصورت پرندوں کا مسکن تھا۔ 90 کی دہائی تک ہمارے گاؤں میں صبح شام تیتر و طوطوں کی آوازیں سماعتوں کو پُر لطف بناتی تھیں۔ درختوں میں بنے گھونسلوں میں پرندوں کے طرح طرح کے انڈے دیکھنا ہمارا مشغلہ تھا۔ لیکن بڑوں کی نصیحت کے باعث ہم دل کی ہزار بار خواہش کے باوجود بھی پرندوں اور ان کے انڈوں کو چھیڑنے کا تصور نہیں کر سکتے تھے۔ بس دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ آج وہ سب خوشنما مناظر قصہِ پارینہ بن چکے ہیں۔
کراچی کو ماہی گیروں کی چھوٹے بستی کہنے کے پسِ پردہ کراچی کے پرانے نام کُلاچی یا کَلاچی اور اُس سے جُڑی ہوئی چند روایات کا بہت اہم کردار ہے، جو تمام مؤرخین نے اپنی کتب میں تحریر کی ہیں۔
روایت اول کے مطابق کراچی کے ساحل پر بلوچوں کا ایک گاؤں تھا، جس میں رہنے والے اپنے آپ کو کُلانچی یا کولانچی کہلاتے تھے۔ (یاد رہے کہ کُلانچ، بلوچستان کا ایک علاقہ ہے، جس میں رہنے والوں کو کُلانچی یعنی کُلانچ کا رہائشی کہا جاتا ہے۔) ان کی نسبت سے یہ علاقہ بعد میں کُلاچی یا کَلاچی کہلانے لگا۔ جبکہ روایت دوئم کے مطابق کراچی کی ساحل پر مائی کولاچی نامی کوئی خاتون رہتی تھی جو اپنے قبیلے کی سربراہ تھی، اس عورت کے نام کی نسبت سے یہ گاؤں ’کولاچی جو گوٹھ‘ کہلاتا تھا۔
دونوں روایات میں ساحل پر موجود ایک گاؤں کا ذکر کیا گیا ہے، اس لئے بعد کے مؤرخین نے بڑی آسانی سے کراچی کو ماہی گیروں کی بستی قرار دیا اور گلّہ بان و کسانوں کو کراچی کی تاریخ سے بے دخل کر دیا۔
اور اس کے بعد ایم ڈی اے، ڈی ایچ اے، بحریہ ٹاؤن، ایجوکیشن سٹی، ملیر ایکسپریس وے و دیگر رہائشی و نام نہاد ترقیاتی منصوبوں نے قدرتی آبی گذرگاہوں، ندی نالوں و فطری ماحول سے اس قدر بے رحمانہ کھلواڑ کیا کہ کراچی کے دہقان و چرواہے صفحہِ ہستی سے مٹ گئے۔
بحریہ ٹاؤن نے ایک دہقان کی زمین پر قبضہ کر کے ایشیا کی سب سے بڑی مسجد بنائی، چرواہا چیختا چلاتا رہا لیکن یوسف مستی خان کے سوا کوئی سیاستدان اس کی فریاد سننے کو تیار نہیں تھا۔ تمام سیاسی جماعتیں اور عدلیہ و قانون نافذ کرنے والے ادارے قبضہ گیر کے ساتھ کھڑی تھیں۔ حتیٰ کہ مذہبی سیاسی جماعتوں نے بھی قبضے کی زمین پر مسجد کی تعمیر پر خاموشی اختیار کر کے ملک ریاض کا ساتھ دیا!
زراعت و کھلے میدانوں پر سرمائیداروں کے قبضے کے باعث آج کراچی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہو گیا ہے۔ اگر کراچی میں کنکریٹ کے جنگل کو مزید وسعت دی گئی تو عنقریب کراچی کے شہریوں کو پینے کے پانی کے ساتھ ساتھ سانس لینے کے لئے آکسیجن بھی خریدنی پڑے گی۔