نقصان جاننے کے باوجود سچ کیوں منہ سے نکل جاتا ہے؟

حسنین جمال

سوال آیا کہ جب پتہ ہو سچ بولنا تکلیف دہ ہوگا، اذیت ہوگی، تب بھی انسان بعض اوقات کیوں حقیقت کا ٹھیکیدار بن کے کھڑا ہو جاتا ہے؟

کیوں نہیں رہتا وہ خوابوں کے محل میں اور کیوں تسلیوں کے جھرمٹ سے ننگے پاؤں نکل کے تپتے صحرا میں دوڑنا شروع کر دیتا ہے؟

اس کا واحد جواب یہ ہے کہ آپ کبھی کبھی خود سے جھوٹ نہیں بول سکتے۔

جھوٹ ایک بہت بڑی طاقت ہے، سہارا ہے، امید ہے، لیکن اس وقت تک کہ اگر جھوٹ کے پار آپ کو ایک عدد روشن کھڑکی نظر آتی رہے۔

کھڑکی بند ہوگی، روشنی غائب ہوگی تو کس آسرے پہ جھوٹ بولیں گے؟

اس وقت آپ سچائی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کھڑے ہو جاتے ہیں۔۔ کتنی بھی تکلیف دہ ہو، اس کا سامنا کرتے ہیں اور خود کو یقین دلاتے ہیں کہ اب کوئی اور چارہ نہیں تھا۔

تب آپ دل سے چاہتے ہیں کہ ایک بہانہ، ایک آسرا، ایک امید، کچھ بھی۔۔۔ کچھ بھی مل جائے کہ جس پہ آپ جھوٹ کا پہاڑ کھڑا کر سکیں لیکن بنیاد ہی نہ ہو تو پہاڑ کیا، چھوٹی سی دیوار تک ڈھے جاتی ہے۔

کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ سچ بولنے کے بعد آپ سوچتے ہیں۔۔۔ اگر میں یہ عُذر کر لیتا، اگر میں فلاں بہانہ بنا لیتا، میں تھوڑا جھوٹ سچ ملا لیتا، کسی طرح سچ کا سامنا کرنے میں تھوڑا وقت مل جاتا، کچھ بھی ہوتا لیکن سچ کے بعد یہ جو سناٹا ہے، یہ کھا جانے والا ہے، یہ نہ ہوتا۔۔۔ مگر وہ ہوتا ہے۔

جھوٹ اپنی ذات میں کوئی غلط چیز نہیں ہے۔ جھوٹ وقت سے مہلت لینے کا ایک طریقہ ہے لیکن وہی مہلت اگر خود کے لیے، کسی پیارے کے لیے تکلیف دہ نظر آ رہی ہو تو انسان ہار جاتا ہے۔

سچ شاید لمبی دوڑوں سے پہلے ہار جانے، ہانپ جانے کا نام ہے۔ جھوٹ مصلحت ہے، تازہ دم رہنے کی گنجائش ہے۔

جھوٹ آسان تب نظر آتا ہے، جب کسی دوسرے سے بولنا ہو اور اسے آپ پر یقین ہو اور آپ اس یقین کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوں۔

اگر یقین کا پاس ہے تو جھوٹ نہیں بولا جا سکتا۔ تب سچ ہی نکلتا ہے منہ سے، کائنات کا جابر ترین سچ!

اور شاید ایسے ہی کسی سچ سے گھبرا کے جون ایلیا نے کہا ہو گا؛

ہم نادرہ جویاں کو وہ راہ خوش آئی ہے
جو آبلہ پرور ہے، بے مرہم منزلہا۔۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close