پاکستان ایک ایسے بھنور میں پھنسا ہوا ہے جہاں ملٹری اسٹیبلشمنٹ وزیراعظم کے انتخاب میں مداخلت کرتی ہے، پھر اسی منتخب وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے سہولت کاری کرتی ہے اور پھر ایسے شخص کو دوبارہ وزیراعظم بنانے کے لیے انجینئرنگ کرتی ہے، جسے پہلے اس کی کرسی سے برطرف کیا ہوتا ہے۔
اس سیاسی بھنور یا چکر کی مذمت وہ لوگ کرتے ہیں، جو خود کو حقیقی جمہوریت پسند کہتے ہیں۔ اس کے باوجود کچھ قراردادوں کے علاوہ ان میں سے کوئی بھی ملک کی سیاست کو اس بھنور سے نکالنے کے لیے کوئی واضح حل پیش نہیں کرتا۔ مختصر یہ کہ بار بار اس دائرے کی نشاندہی کرنے کے بعد وہ اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور سیاستدانوں کو ان کے ہاتھوں کھلونا بننے سے خود کو روکنا ہوگا۔ یہ بہت آسان اور واضح منظرنامہ ہے۔
کچھ لوگوں کے نزدیک تو یہ چکر اتنا ہی پرانا ہے کہ جتنا ہمارا ملک۔ مرحوم ماہرِ عمرانیات حمزہ علوی کے مطابق 1947ء میں قیامِ پاکستان کے وقت فوج واحد منظم ادارہ تھا۔ اسی لیے یہ فطری امر تھا کہ وہ ایسے اداروں پر غلبہ حاصل کرگیا جوکہ اس کی نسبت نئے اور کمزور تھے۔
لیکن قیامِ پاکستان کے ایک دہائی بعد فوج نے ملک میں پہلی بار مارشل لا نافذ کیا حالانکہ اس وقت پاکستان میں مکمل طور پر جمہوریت نہیں تھی۔ 1958ء میں شروع ہونے والی ایوب خان کی آمریت مارچ 1969ء تک چلی۔ 1962ء میں انہوں نے ایک پیچیدہ اور یک طرفہ جمہوری نظام متعارف کروایا تھا۔ 1969ء میں ایوب خان کو عہدہ چھوڑنا پڑا لیکن انہوں نے اس وقت بھی ملک کی باگ ڈور ایک جنرل کو سونپ دی۔
جنرل یحیٰی خان نے ملک میں دوسرا مارشل لا لگایا، لیکن یہ پہلی دفعہ تھا جب ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے سنجیدہ انداز میں بالواسطہ طور پر اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے پر غور کیا۔ اس کے لیے یحیٰی خان کو 1970ء میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں ایک خاص طرح کے نتائج درکار تھے۔ ان کے ساتھ جو ’رپورٹس‘ شیئر کی گئیں، وہ کافی حوصلہ افزا تھیں۔ 1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں ایک ایسی پارلیمنٹ کی پیش گوئی ہوئی تھی، جہاں کسی کی اکثریت نہیں تھی، ایسی پارلیمنٹ باآسانی اسٹیبلشمنٹ کے قابو میں آ سکتی تھی۔
لیکن بنگالی قوم پرستوں نے مشرقی پاکستان میں کلین سویپ کیا جبکہ مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے بڑی کامیابی حاصل کی۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور مغربی پاکستان کی اشرافیہ کے لیے بنگالی سربراہ کی حکومت ناقابلِ قبول تھی، جو مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کی وجہ بنا۔
جب چیئرمین پی پی پی ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے تو وہ ایک ایسے ملک کے سربراہ تھے، جس کا دایاں بازو کٹ چکا تھا اور اس کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ جو کافی مضبوط تھی، وہ بھی کافی حد تک کمزور پڑ چکی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو ملک میں منتخب ہونے والے بااثر رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ یہاں تک کہ جب انہوں نے بلوچ شورش کے دوران بلوچستان میں فوج کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تو فوج نے بڑی حد تک ان کا ساتھ دیا۔
1977ء کی بھٹو مخالف تحریکوں کے دوران پی پی پی مخالف اتحاد کے ایک رکن نے خط لکھ کر آرمی چیف جنرل ضیاءالحق کو مداخلت کرنے کی اپیل کی تھی۔ ابتدائی طور پر ضیاءالحق ہچکچائے۔ لیکن ضیاءالحق کے قریبی ساتھیوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ملک میں مارشل لا لگائیں۔ جولائی 1977ء سے اگست 1988ء تک کا عرصہ ملک نے ضیاءالحق کی آمریت میں گزارا حالانکہ ایوب خان کی طرح انہوں نے بھی ایک سیاسی جماعت کی تشکیل میں سہولت فراہم کی تھی۔
یہ سیاسی بھنور جس کی آج کل لوگ مذمت کر رہے ہیں، اس کی جڑیں ضیاءالحق کے بعد ’جمہوریت کی دہائی‘ میں مضمر ہیں۔ ضیاءالحق کی آمریت میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ ایک مضبوط ادارے کی حیثیت اختیار کر گئی تھی۔ اس کے باوجود 1988ء سے 1999ء تک یہ فیصلہ ہوا کہ خاموشی سے کام کیا جائے گا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ اسے ہمیشہ اس قسم کی پارلیمنٹ ملے، جس کی اسے ضرورت تھی تاکہ 1970ء کے انتخابات کے بعد یحییٰ خان کو جس مسئلے کا سامنا کرنا پڑا، اس کا سامنا دوبارہ نہ ہو۔
1999ء میں جنرل پرویز مشرف کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کی تمام کوششوں کا دائرہ ٹوٹ گیا اور ایک بار پھر ملک اسی بھنور کی لپیٹ میں آگیا جس میں ایوب خان اور ضیاءالحق ملک کو لے کر گئے تھے یعنی ہر ایک دہائی بعد آمریت۔ تاہم 2008ء میں پرویز مشرف کی حکومت ختم ہوتے ہی ملک ایک بار پھر 1990ء کی دہائی کے دور میں واپس آ گیا، جہاں سیاست میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ’ہائبرڈ نظام‘ کی واپسی ہوئی۔
گزشتہ 16 سالوں سے ملک میں فوجی حکومت نہیں آئی۔ اسٹیبلشمنٹ اس وقت پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہے اور سیاسی طور پر 1980ء کی دہائی سے زیادہ متحرک ہے لیکن یہ الگ بات ہے کہ اس کے بعد ملک میں 4 بار عام انتخابات کا انعقاد ہوا ہے، جن میں سے 3 بار عوام کے منتخب کردہ وزرائےاعظم کو اپنی حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تناؤ کی وجہ سے اپنی کرسی سے ہاتھ دھونا پڑا۔
ایک دوست نے حال ہی میں مجھے اس بھنور کی وضاحت دی کہ اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں آنے والے وزیراعظم کی سہولت کاری کرتی ہے لیکن دو یا تین سالوں بعد جب حکمران خودمختار ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں ہٹا کر ان کی جگہ کسی اور کو وزیراعظم کی کرسی پر بٹھا دیا جاتا ہے اور یوں اسی طرح ہمارا ملک دائرے میں گھومتا رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی کسی سیاسی جماعت سے زیادہ واضح سیاسی حقیقت ہے۔ یہ ملکی سیاست میں برابر کی اسٹیک ہولڈر ہے۔
تو کیوں اقتدار میں آنے کے ایک یا دو سالوں بعد اچانک وزرائے اعظم ایک وجودی بحران کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ’مقبولیت‘ انہیں اسٹیبلشمنٹ سے الگ کرنے کے لیے کافی ہے؟
سچ یہ ہے کہ ایسا ہونے کے لیے متعدد ہائبرڈ سیٹ اپ سے گزرنے کی ضرورت ہوگی، لیکن ایسا ممکن ہے۔ اس حوالے سے ترکیہ کی مثال لے لیں۔ ترکیہ نے تین فوجی بغاوتوں (1980ء، 1971ء، 1960ء) کا سامنا کیا۔ 1960ء میں ہٹائے گئے وزیراعظم کو تو پھانسی تک دے دی گئی تھی۔ 2002ء تک ترکیہ کی اسٹیبلشمنٹ مسلسل ملکی سیاست میں مداخلت کرتی تھی۔
2003ء میں رجب طیب اردوان وزیراعظم منتخب ہوئے، وہ اس حقیقت سے واقف تھے کہ ترکیہ کی اسٹیبلشمنٹ ایک بااثر قوت ہے لیکن اردوان نے عملی طور پر معاملے کو حل کرنے کا سوچا۔ انہوں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا سامنا کرنے سے اجتناب کیا اور ملکی معیشت کو بہتر بنانے پر توجہ دی۔ وہ جتنا زیادہ اس کام میں کامیاب ہو رہے تھے، اتنا زیادہ ان کی حمایت میں اضافہ ہوتا گیا اور یوں وہ اپنی معاشی پالیسیوں کو وسعت دے پائے اور پھر ان پالیسیوں کو انہوں نے بتدریج ان اصلاحات سے جوڑا، جن کی وجہ سے ترکیہ کی سیاست میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا اثرورسوخ کمزور ہوتا چلا گیا۔
2011ء میں جب وہ تیسری دفعہ منتخب ہوئے، تب تک وہ ترکیہ کی سیاست کو کافی حد تک ’سِولیئنائز‘ کر چکے تھے۔ ان کی معاشی پالیسیوں نے کافی حد تک ان کی عوامی حمایت میں اضافہ کیا، اتنا زیادہ اضافہ کہ 2016ء میں جب فوج نے ان کا تخت الٹنے کی کوشش کی تو ہزاروں ترک شہریوں نے بغاوت کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ یقینی طور پر اس کے بعد رجب طیب اردوان کافی حد تک آمریت پسند ہو گئے لیکن ترکیہ کی سیاست میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا عنصر ختم ہو گیا۔
پاکستان میں آنے والے وزرائےاعظم کو بھی یہ کھیل اسی طریقے سے کھیلنا ہوگا۔ اقتدار میں آئیں، معیشت پر توجہ دیں، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ایک اہم اسٹیک ہولڈر سمجھیں، معاشی کامیابی کی بنیاد پر اپنی حمایت بنائیں اور یہ سب کرنے کے بعد ہی ہائبرڈ نظام کے حوالے سے اصلاحات لانے پر کام کرنا شروع کریں۔
درحقیقت معاشی کامیابی اور کچھ ضروری سماجی اصلاحات، جس سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا کوئی سروکار نہ ہو، ایسی اصلاحات ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو پاکستانی سیاست میں سِولیئنائزیشن کو قبول کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں۔
بشکریہ ڈان نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)