خوراک کی پیداوار میں کمی اور ہماری نا اہلی

قدیر احمد مصطفائی

ریسرچ کے مطابق ایک ہیکٹر زرعی زمین پر کسی بھی قسم کی تعمیر کرنے سے 15 ٹن حیات (زندگی) کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جاتا ہے، جو کہ اس زرعی زمین کی مٹی میں موجود ہوتی ہے اور اس کی زرخیزی کا باعث ہوتی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ بیکٹیریا ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ لاروے، مٹی کے کیڑے، مکڑے، جوئیں وغیرہ شامل ہیں ۔ تاہم ہم پھر بھی زرعی زمینوں پر دھڑا دھڑ ہاوسنگ کالونیاں بنا کر اسے برباد کرنے سے نہیں رک رہے۔

براعظم امریکہ کے غریب ترین ممالک نے، جن میں پیرو ارجنٹائن، کولمبیا، پیراگوئے اور یوروگوائے نے بیس سال پہلے تک بہت زیادہ بھوک اور خوراک میں کمی کا سامنا کیا، اس کی ایک وجہ وہی ہے، جو ساری دنیا کی مشترک وجہ ہے، اور وہ ہے: نالائق حکمران اور منصوبہ بندی کا فقدان۔۔ لیکن ان پانچ ملکوں کا ایک اتحاد شروع سے موجود ہے، جس طرح ہمارا ہے سارک کے نام سے

چنانچہ اُس اتحاد کا سالانہ سربراہی اجلاس بیس سال پہلے والا جو تھا، وہ تاریخی ثابت ہوا۔ اس میں جو فیصلے کیے گئے ، وہ مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ زرخیز اور قابل کاشت زمین کا تحفظ مطلب وہاں کوئی تعمیرات نہ ہونے دینا

2۔ قابلِ کاشت اراضی کی باقاعدہ تقسیم اور ملکیت کی حد مطلب ہر ایک کو تقریبا پچاس کنال کا فارم دینا

3۔ بہت (کم زرخیز) اراضی پر جنگلات اگانا

4۔ اور بالکل ہی (بنجر اراضی) پر مکانات اور دیگر تعمیرات کرنا

5۔ جس کے پاس دو یا چار کنال زرعی زمین ہے اور وہ ویسے ہی دبا کر بیٹھا ہے اور زراعت اس نے کرنی نہیں، ایک کھیتی یا دوکھیتیاں اس کے پاس ہیں تو وہ اس سے خرید کر پچاس کنال کے فارم میں شامل کر دی جائے اور کچھ کو ان کھیتیوں کے عوض شہر میں مکان دے دیے جائیں

اب جناب، ان ممالک نے ایسا کرنا شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے خوراک کی، گوشت کی، انڈوں کی اور سبزی پھلوں کی کمی دور ہوتی نظر آئی

مثلاً مقامی کونسل جب کسی بندے کو زرعی فارم دیتی تو ساتھ یہ ہدایت اور ان ہر سختی سے عمل کا کہتی، وگرنہ یہ فارم چھین لینے کی دھمکی بھی ساتھ دیتی کہ

1۔ یہ فارم تمہاری ملکیت ہے لیکن اولاد میں قابلِ تقسیم نہیں۔ بس جس بچے کے پاس زراعت کی کم سے کم درجے کی ڈگری ہوگی، فارم کا مالک وہ کہلائے گا۔۔ باقی بہن بھائیوں کو برابری کی رقم دے کر چلتا کرے گا

2۔ اس فارم کا مالک ہوتے ہوئے تمہارے اوپر لازم ہے کہ دس گائے تیس بکریاں اور سو پرندے یعنی مرغیاں لازمی فارم میں موجود ہونی چاہئیں

3۔ فارم کی حدود یا باؤنڈری بنانے کے لیے اینٹ یا پتھر کی دیوار کے بجائے پھل دار درختوں کی قطار سے بنے گی

4۔ فارم کے مالک ہونے کے ناطے تمہارے اوپر لازم ہے کہ فارم کا ایک چھوٹا حصہ سبزیوں کے لیے مختص ہوگا

5۔ ہر سال کے آخر میں کونسل کے نمائندے تمہارے فارم آ کر ایک ایک چیز کا جائزہ لیں گے کہ مطلوبہ چیزوں کی تعداد پوری ہے کہ نہیں۔ ساتھ ساتھ پیداوار اور جانوروں کی صحت کو بھی چیک کیا جائے گا

6۔ اگر حدف پورا ہے تو ٹھیک، اگر کم ھے تو مدد کی جائے گی اور وارننگ بھی دی جائے گی

7۔ لیکن اگر حدف سے بڑھ کر پیداوار ہے، تو ایک الیکٹرک ٹریکٹر انعام دیا جائے گا، جو ڈیزل وغیرہ پر بھی چلے گا لیکن عموماً بجلی سے چارج ہوگا اور تمام زرعی ضرویات کو پورا کرے گا۔

سال 2020 میں ان ممالک کے سربراہان کا سالانہ اجلاس آن لائن ہوا اور دنیا کے دوسرے کونے سے ایک زرعی چیمپئن ملک آسٹریلیا نے بطور ابزرور مہمان شرکت کی۔ سب ممالک نے اس خودکفالت کو عبور کرنے پر خوشی کا اظہار کیا
جبکہ آسٹریلیا کی تجویز کو بھی انتہائی صحت افزا جان کر پروگرام کا حصہ بنا گیا۔ آسٹریلیا کی تجویز یہ تھی کہ ہر فارم میں جس طرح جانوروں اور مرغیوں کے لیے کمرے بنانے کی اجازت ہے، اسی طرح فارم کے شروع میں مالک کو مکان بنانے کی اجازت دی جائے تاکہ بہتر پرفارم کر سکے

لیکن گھر کی چھت پر سولر پینل لگا کر بجلی خود پیدا کر سکے اور گوبر گیس پلانٹ لگا کر گیس بنانے کا پابند ہوگا، نیز گھر کے استعمال شدہ پانی کو جمع کر کے آبپاشی کے لیے استعمال کرے گا۔

اب آپ اندازہ کریں صرف ایک حکومتی قدم سے سبزیاں، پھل، دالیں، آٹا، چاول، دودھ، گوشت انڈے بھی حاصل ہوئے، روزگار بھی ملے، گیس اور بجلی بھی بنی

یار آپ تو زرخیز مٹی والا، زرخیز موسموں والا ملک ہو۔۔ ذرا غور فرمانا اور اپنی رائے کا بھی اظہار فرمانا اجازت چاہوں گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close