لاطینی امریکہ میں آبائی باشندوں کا استحصال

ڈاکٹر مبارک علی

لاطینی امریکہ کی تاریخ کو دو ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا دور ہسپانوی کلونیل ازم کا ہے، جس میں اقتدار سفید فام نسل کے پاس تھا اور ان کی مدد کے لیے اسپین سے نوآباد کار آتے رہتے تھے۔ فوجی طاقت کی بنیاد پر ان کا اقتدار قائم تھا۔

تاریخ کے دوسرے دور میں جب انیسویں صدی میں لاطینی امریکہ اسپین سے آزاد ہوا اور نئی قومی ریاستیں بنیں تو نسل پرستی کا نظریہ ایک اور شکل میں وجود میں آیا۔

کلونیل دور میں ہسپانوی قوم نسلی طور پر خود کو برتر سمجھتی تھی، اس کے نزدیک یہ برتری فطرت نے انہیں بخشی تھی، کیونکہ اس میں وہ اوصاف اور توانائی تھی، جو مقامی باشندوں میں نہیں تھی۔

ثقافتی طور پر بھی وہ خود کو اعلیٰ و افضل گردانتے تھے، جبکہ مقامی باشندوں کی ثقافت کو وہ پسماندہ اور کمتر سمجھتے تھے۔ اپنے اقتدار کی بنیاد وہ اس نظریے پر رکھتے تھے کہ مقامی باشندے زوال کا شکار ہو چکے ہیں، اس لیے ان پر حکومت کرنا جائز ہے۔

اس لیے ابتدا ہی سے یہ سوال تھا کہ مقامی باشندوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ کیا انہیں نسلی بنیادوں پر علیحدہ رکھا جائے یا ان کے ساتھ اشتراک کیا جائے۔ ابتدائی دور میں مقامی باشندوں کی علیحدہ رکھ کر ان سے کھیتوں اور معدنیات کی کانوں میں مشقت کرائی گئی۔ دوسرے دور میں انہیں مہذب بنانے کے لیے کچھ شرائط نافذ کیں گئیں، مثلاً وہ ہسپانوی زبان بولیں گے، ان کا کلچر اختیار کریں گے، اور اپنی تاریخ اور کلچر کو بھول جائیں گے۔

کچھ ملکوں میں جیسے گوٹٹے مالا اور میکسکو میں ملٹی کلچرل معاشرے کی ابتدا ہوئی۔ خاص طور سے چونکہ میکسیکو کی سرحدیں امریکہ سے ملتیں ہیں، اس لیے وہاں کے مقامی باشندے سیاسی طور پر جمہوری روایات سے آگاہ ہوئے اور انقلابی تحریکوں کے ذریعے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کی۔

بولیویا کی تاریخ مختلف رہی ہے۔ کلونیل دور میں بولیویا نے مردم شماری کے ذریعے سفید فام اور مقامی باشندوں کے نسلی بنیادوں پر تشکیل دی۔ دوسرے دور میں جو فرق آیا، وہ یہ کہ سفید فام گروہ، جو کریئول کہلاتے تھے، وہ تعلیم یافتہ تھے اور شہروں میں رہتے تھے، جبکہ مقامی باشندے ناخواندہ تھے اور دیہاتوں میں رہتے تھے۔

اس فرق کو چند مقامی باشندوں کے راہنماؤں نے سمجھا کہ جب تک ہم تعلیم یافتہ نہیں ہوں گے، جدید خیالات سے روشناس نہیں ہوں گے، اس وقت تک سفید فام نسل کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔

چنانچہ ایک مقامی راہنما، جس کا نام مینا کرسپی (Mina Crispy) تھا، انہوں نے 1920 میں بولیویا میں اسکول کھولنا شروع کر دیے تھے، جہاں انہیں جدید تعلیم دی جاتی تھی۔ یہ اسکول آہستہ آہستہ پورے بولیویا میں پھیل گئے، جنہوں نے نوجوان تعلیمی طبقہ پیدا کیا۔

تعلیم کی وجہ سے ان میں نہ صرف سیاسی شعور آیا بلکہ اپنی آزادی اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد بھی کی اور اسے کامیاب بنانے کے لیے جمہوری اداروں اور روایات کو استعمال کیا۔ اگرچہ حکومت نے ان کی تحریکوں کو کچلنے کی کوشش کی مگر خاموشی کے بجائے یہ اور زیادہ انقلابی ہو گئے۔

نوآبادیاتی دور میں آبائی باشندوں کی تین بڑی تہذیبیں، مایا، ایزٹک اور انکا کو فراموش کر دیا گیا، ان کی تاریخی عمارتیں کھنڈر بن گئیں اور ان کے عالیشان شہر جنگلوں تلے روپوش ہو گئے۔

ان کی کوششوں کا ثمرہ ملا، جب 2005 میں ایوو موریلس (Evo Morales) بولیوا کا صدر منتخب ہوا۔ یہ پہلے مقامی باشندے تھے، جو اس عہدے تک پہنچے۔ اس سے لاطینی امریکہ کی تاریخ کو ایک نیا موڑ ملا۔

ان دونوں ادوار میں مقامی باشندوں کی کئی انقلابی تحریکیں اٹھیں، جن کی بنیاد سوشل ازم، نرجیت (Anarchism) اور جمہوریت تھیں۔ ان انقلابی تحریکوں نے ان کی نسلی کمتری کا خاتمہ کر کے انہیں عزت اور وقار دیا۔

دوسری بڑی تبدیلی یہ آئی کہ کلونیل دور میں آبائی باشندوں کی تاریخ اور ماضی کی یادگاروں کو نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ مقامی باشندوں کی کوئی تاریخی اور ثقافتی شناخت باقی نہ رہے۔

ان کی تین بڑی تہذیبیں، مایا، ایزٹک اور اِنکا کو فراموش کر دیا گیا تھا۔ ان کی تاریخی عمارتیں کھنڈر بن گئیں اور ان کے عالیشان شہر جنگلوں تلے روپوش ہو گئے۔

جب مقامی باشندوں میں تاریخی شعور آیا تو لاطینی امریکہ کے ملکوں نے ماضی کی تہذیب کو محفوظ کرنا شروع کیا۔ اس سلسلے میں امریکہ سے مورخ ماہرین آثارِ قدیمہ اور علم بشریات کے عالم لاطینی امریکہ آئے اور انہوں نے مقامی ماہرین کے ساتھ مل کر گمشدہ ماضی کو تلاش کیا۔ ماضی کی تاریخ اور اس کی یادگاروں نے مقامی باشندوں کو نئی شناخت دی، جس کی وجہ سے ان کی نسلی کمتری کے احساس کا خاتمہ ہوا۔

لاطینی امریکہ کی تاریخ نہ صرف سیاسی ہے، بلکہ اس نے اَدب، آرٹ، موسیقی اور سماجی علوم میں بھی ترقی کی ہے۔ اس کا معاشرہ کئی نشیب و فراز سے گزرا ہے۔ ان ملکوں میں کئی انقلابات آئے ہیں۔ ان سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کی وجہ سے معاشرے میں ایک نئی تبدیلی آئی ہے۔ کلچرل اشتراک نے نئے خیالات اور افکار کو پیدا کیا ہے۔ سیاست میں بھی نئے تجربات ہوئے ہیں۔ آمرانہ حکومتیں بھی آئی ہیں، مگر ان کے خلاف لوگوں کی جدوجہد بھی جاری رہی ہے۔

ارجنٹائن، گوٹٹے مالا اور پیرو میں فوجی حکومتوں کے خاتمے کے بعد ’سچائی کمیشن‘ یعنی Truth Commission بنائے گئے، جن میں تینوں ملکوں میں فوجی آمریتوں نے جو مظالم کئے تھے، ان کی رپورٹیں تیار کیں گئی۔

اگرچہ کسی کو سزا تو نہ دی گئی، مگر یہ رپورٹیں تاریخ کا حصہ بن گئی ہیں جو اَمروں کے لیے ایک چیلنج ہے۔

لاطینی امریکہ کی انقلابی تحریکوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے مارکسزم کو اپنے ماحول کے مطابق تبدیل کیا اور عوامی جدوجہد کی بنیادی حقوق کے اصول کی بنیاد بنایا۔ موجودہ دور میں بھی لاطینی امریکہ کے مورخ، ادیب، شاعر، موسیقار، آرٹسٹ اپنے جدید افکار اور خیالات کی وجہ سے دنیا کو متاثر کر رہے ہیں۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close