انیسویں صدی میں مصر کی سیاست تبدیل ہو چکی تھی۔ مصر برطانوی نوآبادی بن چکا تھا۔ دیہاتوں اور چھوٹے شہروں سے بیروزگار لوگ مزدور بن کر پورٹ سعید، اسکندریہ کی بندرگاہ پر کام کرنے آتے تھے۔ اپنے حقوق کے لیے ان کی احتجاجی تحریکیں تاریخ کا حصہ ہیں۔
انیسویں صدی کے مصر میں ایک نیا سیاسی نظام ابھر رہا تھا۔ برطانیہ کی کالونی بننے کے بعد مصر کا تعلق عالمی منڈی سے ہو گیا تھا۔ پورٹ سعید اور اسکندریہ کی بندرگاہوں اور نہرِ سوئز کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں بڑھ گئی تھیں۔
بندرگاہوں پر کام کے لیے مزدوروں کی ضرورت تھی۔ تجارتی کمپنیوں کے افسر دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں جا کر بیروزگار نوجوانوں کو مزدوری کے لیے تیار کرتے تھے، لیکن ان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوتا تھا، کہ ان کی مزدوری کیا ہوگی، اور ان کو ملازمت کا تحفظ دیا جائے گا یا نہیں۔
مثلاً جب یہ مزدور پورٹ سعید پر کام کے لیے آئے تو ناتجربہ کار تھے۔ بندرگاہ کا ماحول ان کے لیے بالکل نیا تھا۔ ابتدا ہی سے انہیں بندرگاہ پر جہازوں سے سامان اتارنا اور سامان لادنا تھا۔ سخت محنت و مشقّت کی زندگی ہوتی تھی۔ محنت کا معاوضہ بہت کم تھا اور مشکل سے گزر اوقات ہوتی تھی۔ رہائش کے لیے مزدوروں نے چھوٹی کوٹھریاں تعمیر کر رکھی تھیں جہاں روزمرّہ کی زندگی کی سہولتیں میسر نہ تھیں۔
اگرچہ یہ مزدور مختلف مقامات سے آئے تھے، مگر ساتھ کام کرنے اور ساتھ رہنے کی وجہ سے یہ باہم متحد ہو گئے تھے۔ آہستہ آہستہ ان میں یہ شعور آ گیا تھا کہ وہ محنت و مشقت کرتے ہیں، مگر ان کی حق تلفی ہوتی ہے۔
چنانچہ مزدوروں کی جماعت نے پورٹ سعید کے گورنر کے نام ایک اپیل لکھی، جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ان کا معاوضہ بڑھایا جائے۔
گورنر نے اس اپیل پر کوئی توجہ نہیں دی، اور حالات اسی طرح سے رہے۔ مزدوروں نے ایک اور اپیل برطانیہ کے کلونیل عہدیدار لارڈ کرومر کو لکھی جس میں تفصیل سے انہوں نے اپنے مطالبات بیان کیے تھے۔
اس اپیل کی کرومر سے وضاحت کرتے ہوئے کمپنی کے ٹھیکیداروں کا کہنا یہ تھا کہ عرب مزدور اور انگریز مزدور میں بہت فرق ہے۔ انگریز مزدور مہذب اور تعلیم یافتہ ہوتا ہے۔ ریاست کو ٹیکس دیتا ہے، اور اپنی آمدنی سے مطمئن رہتا ہے۔ جبکہ عرب مزدور نہ مہذب ہے نہ تعلیم یافتہ اور اس کا طرزِ زندگی بھی انتہائی گِرا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عرب مزدور ایک ہی لباس کو سال بھر استعمال کرتا ہے۔ اس کے جوتے انتہائی کم قیمت اور ناقص ہوتے ہیں۔ یہ چھوٹی کوٹھریوں میں رہتا ہے۔ اس کا کھانا پینا بھی گزارے کے لیے ہوتا ہے، لہٰذا اس کی یہ شکایتیں کہ اس کی حق تلفی ہوتی ہے، بےمعنی ہیں۔ بلکہ یہ الزام دیا کہ یہ اپیل جعلی ہے، مزدوروں کی جانب سے نہیں ہے، اس لیے جنہوں نے یہ گمراہ کن اپیل لکھی ہے، ان کے خلاف تحقیق کر کے سزا دی جائے۔
کرومر نے بھی اپیل پر توجہ نہ دی اور مزدوروں کے حقوق پر کوئی سوال نہیں اٹھایا اور یہ اپیل خارج کر دی۔
اس سے ایک اندازہ ہوتا ہے کہ پورٹ سعید کے مزدوروں کی احتجاجی تحریک پرامن تھی، اور وہ اپیلوں کے ذریعے عہدیداروں اور افسروں کو اپنے حقوق سے آگاہ کر رہے تھے۔
مزدوروں کا احتجاج کسی بھی موقعے پر تشدّد کا شکار نہیں ہوا۔ انہوں نے توڑ پھوڑ کی اور نہ ہی جہاز کے سامان کو جلایا، بلکہ خاموشی کے ساتھ محنت و مشقّت کرتے ہوئے اپنے مطالبات پیش کیے۔ ان پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس لیے تاریخ میں یہ پراَمن تحریک ناکام رہی اور مورخوں نے مزدوروں کے مسائل کو نظرانداز کیا۔
مزدوروں کی تحریک کا دوسرا مرکز اسکندریہ کی بندرگاہ تھی۔ یہاں قلی جہازوں پر سامان اتارنے اور چڑھانے کا کام کرتے تھے۔ ٹھیکیداروں نے مزدوری کا معاوضہ کم کرنے کے لیے مزید نئے مزدوروں کو اسکندریہ میں بلایا، جس کی وجہ سے مزدوری سَستی ہو گئی اور اس کا معاوضہ بھی کم ہو گیا۔
نئے مزدوروں کی آمد سے قلیوں کی بڑی تعداد بیروزگار ہو گئی۔ اس موقعے پر پورٹرز نے ایک نیا تجربہ کیا اور وہ تجربہ یہ تھا جن قلیوں کو معاوضہ مل رہا ہے اسے اکٹھا کر کے وہ سب میں برابر سے تقسیم کریں گے۔ اس سے مزدوروں کی یکجہتی اور اتحاد کا پتہ چلتا ہے، کہ اگر حالات ان کے مواقف نہ ہوں تو اس میں اپنی بقا کے لیے کیا تدابیر اختیار کرنا ہو گی۔
مصر کی حکومت میں سرکاری عہدیداروں کا ایک طبقہ تھا، جو گوداموں اور دکانوں پر جا کر گندم اور دوسری اشیا کو تولتا تھا کہ اس میں کوئی ملاوٹ نہ ہو۔ کپڑے ناپنے کی ذمہ داری ان کی تھی۔ وزن اور ناپنے والے یہ سرکاری لوگ رشوت اور بدعنوانی میں ملوث ہو جاتے تھے۔ اکثر ان پر مقدمے بھی چلتے تھے۔ انہیں ملازمت سے برخاست بھی کیا جاتا تھا، مگر یہ ملاوٹی اشیا کے وزن کو درست قرار دے کر تاجروں کو فائدہ پہنچاتے تھے۔
اگرچہ عام لوگ ان کے کرتوتوں سے واقف تھے، مگر وہ ان کے سامنے بےبس رہے، اور ان کی بدعنوانیوں کو ختم نہیں کر سکے۔
عام طور سے کسانوں کے بارے میں یہ رویہ ہے کہ یہ سیاست سے واقف ہوتے ہیں، نہ ہی انہیں اپنے حقوق کی آگاہی ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سرکاری افسران ان پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالتے رہتے ہیں۔ اگر یہ ادائیگی نہ کر سکیں تو انہیں سخت سزائیں دی جاتیں ہیں۔
انیسویں صدی کے مصر میں ریاست کے خلاف کسانوں کی کئی بغاوتیں ہوئیں، لیکن یہ بغاوتیں پراَمن رہیں اور ان میں تشدّد کو اختیار نہیں کیا گیا۔ اس لیے ان بغاوتوں کے کوئی نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
اسی دوران مصر میں غیرملکی کارکنوں کو لایا گیا۔ ان میں اطالوی، مشرقی یورپ کے باشندے، روسی اور انگریز شامل تھے۔ ان غیرملکی مزدوروں نے مصر میں انقلابی خیالات کو روشناس کرایا، جس میں انارکزم اور سوشل ازم شامل تھے۔
ان کے انقلابی خیالات سے مصر کے مقامی مزدور بھی متاثر ہوئے جس کی وجہ سے احتجاجی تحریکوں کا رخ بدل گیا۔ یہ سیاسی اور انقلابی ہو گئیں۔
جب مزدورں کی تحریکیں نظریاتی بنیادوں پر ڈھلیں تو ان کے اثرات قومی سیاست پر بھی ہوئے۔ سیاسی جماعتوں نے مزدوروں کے حمایت حاصل کرنے کے لیے ان کے مطالبات کا ساتھ دیا جس کی وجہ سے مزدوروں کے حقوق کے مطلق ان کا نظریہ بدلا۔
اگرچہ مزدور تحریکیں انقلابی تبدیلی تو نہیں لا سکیں مگر انہوں نے انارکزم اور مارکسزم کے نظریات کو مصر کی سیاست کا حصّہ بنایا۔ احتجاجی تحریکیں حکمرانوں کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ مزدوروں کی آواز سنیں۔ ان تحریکوں نے مزدوروں کو توانائی دی اور ان کے دباؤ سے ان کے مطالبات پر توجہ دی گئی۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)