مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ جنگ میں اخلاقی قدروں کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس تصور کے تحت جنگ کے بارے میں یہ تقسیم ہوئی کہ وہ جنگیں جو ’حق‘ کے لیے ہوں یعنی (Just Wars) انہیں اپنے مفادات کے لیے لڑنا جائز ہے۔۔ لیکن وہ جنگیں جو مال غنیمت کے لیے یا زمینوں پر قبضے کے لیے اور مفتوح قوموں کو غلام بنانے کے لیے ہوں، ایسی جنگیں جارحانہ اور ناجائز ہوں گی۔
یونان کی شہری ریاستیں آپس میں جنگیں لڑتی رہی تھیں، اس لیے جنگ کے بارے میں ان کے ہاں ایک اخلاقی ضابطہ تشکیل پایا تھا۔ خاص طور سے ایتھنز کے شہریوں کے لیے یہ لازمی تھا کہ وہ جنگ میں شریک ہوں۔ سقراط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے بھی ایک جنگ میں شرکت کرتے ہوئے بہادری کا ثبوت دیا تھا، لیکن وہ جنگ کے خلاف تھا۔ تین صدی قبل مسیح میں اس نے اولمپکس کھیلوں کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے جنگ پر تنقید کی اور یہ مشورہ دیا کہ یونان کی ریاستوں کو متحد ہو جانا چاہیے اور جنگ سے گریز کرتے ہوئے بات چیت کے ذریعے اپنے جھگڑوں کا فیصلہ کریں اور پُرامن رہیں۔ سقراط کے نزدیک جنگیں خونریزی اور سفاکی کاباعث تھیں۔ اگرچہ افلاطون نے بھی جنگ کی مخالفت کی لیکن بعض حالات میں وہ جنگ کو لازمی بھی سمجھتا ہے۔
ارسطو نے ان کے برعکس اس پر زور دیا کہ ریاست کے پاس طاقتور فوج ہونی چاہیے، جو تربیت یافتہ ہو اور لڑائی میں بہادری کا ثبوت دے۔ وہ اس پر بھی زور دیتا ہے کہ ریاست کی حفاظت کے لیے بحری طاقت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ سوفسطائی (Sofists) جو عملی سیاست کے ماہر تھے ان کا کہنا تھا کہ جنگ میں فتح کے لیے ہر قسم کے ذرائع کو استعمال کرنا چاہیے۔ ان کے نزدیک جنگ اور اخلاقی قدروں میں آپس میں کوئی واسطہ نہیں ہے۔
یونان کے مشہور مورخ ہیروڈ وٹس نے یونان اور ایران کے درمیان جنگوں کو بیان کیا ہے۔ اس کے نزدیک یونانی ان جنگوں میں اس لیے کامیاب ہوئے کیونکہ وہ آزاد شہری تھے اور اپنے ملک کے دفاع کے لیے جانیں دینے پر تیار تھے، جبکہ ایرانی بادشاہت کے ماتحت تھے اور ان کی حیثیت غلاموں کی تھی۔ اس لیے یونان اور ایران کے درمیان اس فرق کی وجہ سے یونانیوں نے ایران کے بڑے لشکروں اور بحری جہازوں کوشکست دی۔ کیونکہ غلام لوگ کسی مقصد کے بغیر اپنی جانیں دینے پر تیار نہیں تھے۔
یونان کے دوسرے مورخ تھیوسو ڈیزیز نے جنگ پلوپونز (431BC) کے بارے میں کتاب لکھی ہے۔ وہ اس کا قائل تھا کہ طاقتور کو کمزور پر حکومت کرنا چاہیے۔ کمزور کا یہ حق نہیں کہ طاقتور کی اطاعت سے انکار کرے۔ اس جنگ میں ایتھنز کے جو فوجی مارے گئے تھے، ان کی یاد میں پیریکلس (429BC) نے ایک بڑے میدان میں ایتھنز کے لوگوں سے خطاب کیا۔ اس نے جذباتی لہجے میں جنگ میں مرنے والوں کی تعریف میں انہیں ملک و قوم کا ہیرو قرار دیا کہ جنہوں نے اپنی جانیں دے کر شہر کی عزت و آبرو کا تحفظ کیا۔
اب تک ایتھنز کے فوجیوں کو ملک و قوم کے لیے جانیں دینے والا سمجھا جاتا تھا، لیکن جب ایتھنز کو ایرانیوں پر فتح ہو گئی تو اس کی ریاست نہ صرف جارح بن گئی، بلکہ فوجی اور بحری طاقتوں کی وجہ سے تمام اخلاقی قدروں کو بھی بھلا ڈالا۔ امن کے اس زمانے میں یونانی کرائے کے فوجی بھی بن گئے۔ اب یہ ملک و قوم کی حفاظت کے بجائے دولت کی خاطر جنگوں میں مصروف ہو گئے۔ یونانی ادیب زینوفن نے اپنی کتاب Anabasis میں ان دس ہزار کرائے کے فوجیوں کا ذکر کیا ہے، جن میں وہ خود بھی شامل تھا اور جو ایرانیوں کی خانہ جنگی میں لڑے تھے۔ کرائے کے یہ فوجی بڑے مقبول ہو گئے تھے اور مصر کے حکمرانوں نے بھی انہیں اپنی ملازمت میں رکھا تھا۔ کرائے کے ان فوجیوں کا کوئی ضابطہ اخلاق نہ تھا اور یہ پیسے کی خاطر کسی بھی جانب سے لڑتے تھے۔
رومی سلطنت اپنی ابتداء سے لے کر زوال تک مسلسل جنگوں میں مبتلا رہی۔ اس کی جنگوں کا مقصد سلطنت کو وسعت دینا، اپنی شان و شوکت کو بڑھانا اور مال غنیمت کے ذریعے فوج کا طبقہ اعلیٰ تھا۔ ساتھ ہی یہ طبقہ عیش و عشرت کی زندگی گزار تا تھا۔ روم میں ان جرنیلوں کی عزت کی جاتی تھی، جنہوں نے فتوحات کی ہوں مفتوحوں کا قتل عام کیا ہو۔ ان کی فتح کا جلوس نکالا جاتا تھا، جہاں سڑکوں کی دونوں جانب لوگ کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے تھے۔ مرنے کے بعد انہیں دیوتا کا درجہ دے دیا جاتا تھا۔ رومیوں کا یہ دستور تھا کہ باغیوں اور اپنے ملک کا دفاع کرنے والوں کا قتل عام کیا جائے تاکہ دوسرے لوگ اس سے سبق سیکھ کر ان کی مزاحمت نہ کریں۔
مسلسل جنگوں کی وجہ سے رومی معاشرے میں غلاموں کی تعداد بڑھ گئی۔ یہ نہ صرف گھریلو کام کرتے بلکہ ان سے کھیتی باڑی بھی کرائی جاتی تھی، جس کی وجہ سے رومی کسان بیروزگار ہو گئے تھے۔ اگرچہ رومیوں کا جنگ کے سلسلے میں کوئی مکمل ضابطہ اخلاق تو نہیں تھا لیکن کچھ مفکرین جنگ کے بارے میں اخلاقی قدروں کی بات کرتے تھے۔ مثلاً سسرو نے اپنی کتاب ’ریپبلک‘ میں لکھا ہے کہ جنگ سے پہلے دُشمن کو وارننگ دینی چاہیے۔ معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے اور شکست خوردہ لوگوں کے قتل عام سے گریز کرنا چاہیے، جو جنگ سے پہلے اطاعت کا وعدہ کریں۔ ان کے خلاف جنگ کرنا جائز نہیں ہے، لیکن سسرو کے اس ضابطہ اخلاق پر بہت کم عمل کیا گیا۔
جولیس سیزر نے فرانس اور انگلستان میں جو فتوحات کی تھیں، ان پر اس نے اپنے تاثرات قلم بند کیے تھے۔ اس کا مقصد پروپیگنڈا تھا، جس کے ذریعے وہ اپنے سیاسی عزائم کو پورا کرنا چاہتا تھا۔ اس کے بعد آنے والے رومی شہنشاہوں نے بھی اپنی فتوحات کا خوب پروپیگنڈا کیا اور ستونوں پر فتوحات کی تصویریں نقش کرا کر لوگوں میں مقبولیت حاصل کی۔ جنگ کی خونریزی اور قتل عام کا نتیجہ تھا کہ روم کے شہری گلیڈیئیٹرز یا جنگجوؤں کے مقابلوں اور خونخوار جانوروں کے سامنے کھڑے مجرموں اور باغیوں کا شکار ہوتے دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔
لیکن اس ماحول میں بھی کچھ آوازیں ایسی تھیں جو جنگ کی مذمت کرتے تھے اورامن کے خواہاں تھے۔ ایک مورخ نے اسکندر کو عفریت یا بلا کہا ہے، جس نے لالچ کی خاطر مشرقی ملکوں پر حملے کیے، ان کے مال و دولت کو لوٹا اور جنگوں کے ذریعے تباہی اوربربادی کی۔ لیکن جنگوں ہی نے رومی سلطنت کو زوال پذیر کیا۔ جب رومی سلطنت کے خلاف جگہ جگہ بغاوتیں ہوئیں تو ان کو ختم کرنے کے لیے رومی سلطنت کی طاقت وتوانائی نہیں رہی تھی۔ انہی جرمن قبائل نے جنہیں رومی شکستیں دے چکے تھے، انہوں نے 410ء میں روم پر قبضہ کر کے رومی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔
اس موضوع پر اگر آپ مزید تفصیلات جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو Doyne Dawson کی کتابThe Origins of Western Warfare کا مطالعہ ضرور کریں۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)