پاکستانی عدلیہ کا نائن الیون

وسعت اللہ خان

اگر کسی ہائی کورٹ کے آٹھ میں سے چھ جج برسرِ عام تحریری طور پر متفق ہوں کہ انٹیلیجینس ایجنسیوں کی کھلی مداخلت کے سبب عدلیہ انصاف نہیں دے سکتی تو اس واقعے کو پاکستانی عدلیہ کا نائن الیون سمجھنا چاہیے۔

یہ سب اچانک سے نہیں ہوا۔ سب سے پہلے اسی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی نے دو ہزار اٹھارہ میں بالائے عدالت مداخلت سے خبردار کرنے کا بگل بجایا۔ تب ان کے ساتھی ججوں سمیت بہت سوں نے جسٹس صدیقی کو ایک جذباتی انسان جانا اور ان کے عائد کردہ سنگین الزامات کی چھان پھٹک کے لیے عدالتِ عظمٰی نے کوئی ازخود نوٹس لینے یا کمیشن بنانے کا مطالبہ کرنے کے بجائے الٹا جسٹس صدیقی کو فارغ کر دیا۔

اب جبکہ جسٹس صدیقی کو بے قصور قرار دے کے ریٹائرمنٹ کی تمام مراعات بحال کر دی گئی ہیں اور اس فیصلے سے حوصلہ پا کے اِسی اسلام آباد ہائی کورٹ کے اَسّی فیصد ججوں نے کم و بیش وہی الزامات دہرائے ہیں، جو جسٹس صدیقی نے چھ برس پہلے لگائے تھے۔

لہٰذا تازہ الزامی فہرست کے ہوتے قوی امید تھی کہ تمام ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل کوئی ہنگامی ’گرینڈ جرگہ‘ سر جوڑ کے بیٹھے گا اور چھان پھٹک کرے گا کہ آیا انٹیلیجینس ایجنسیوں کا دباؤ محض ایک ہائی کورٹ پر رہا ہے یا اس دباؤ کی جڑیں زیریں سے اعلٰی عدلیہ تک ہر جگہ پھیلی ہوئی ہیں۔۔

مگر شاید یہ فرض کر لیا گیا کہ دباؤ کا نشانہ پوری عدلیہ میں سے محض چھ جج بنے ہیں۔۔ اور پھر اس کا حل یہ نکالا گیا کہ سپریم کورٹ اس اسکینڈل کی تحقیق ازخود کرنے کے بجائے اس حکومت سے کروائے گی، جس کی ساکھ پر آٹھ فروری کی مہر لگی ہوئی ہے اور جو خود اپنی مدتِ اقتدار کے لیے کسی اور کی خوشنودی کی محتاج ہے۔.!!

میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب،
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں۔۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ عدلیہ، جس کا دعویٰ ہے کہ اسے اپنی آزادی و خود مختاری کی حفاظت کرنا خوب آتا ہے، حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرتی اور اپنے میں سے کسی برادر جج یا ججوں کے پینل یا بنچ کو اپنے ہی برادر ججوں کی جانب سے سنگین الزامات کی چھان پھٹک پر ازخود مامور کرتی اور دودھ اور پانی الگ الگ کرتی تاکہ آئندہ کوئی بھی حکومت یا اس کا ادارہ یا ادارے کا کوئی معمولی و غیر معمولی کارندہ ایسی جرات آزمانے سے پہلے دس بار سوچتا۔۔

مگر ایسے انہونے بحران کا درمیانی حل نکالنے کی کوشش کی گئی، جس کا کوئی درمیانی حل نہیں نکل سکتا۔

مجھ کم ظرف کو ماضی میں کسی ریٹائرڈ جج یا ججوں پر مشتمل کسی ایک کمیشن کی مثال درکار ہے، جس کی محنت رنگ لائی ہو اور اس کمیشن کی سفارشات پر کلی چھوڑ جزوی ہی عمل ہو گیا ہو۔ بھلے وہ حمود الرحمان کمیشن ہو، جبری گمشدگی کے معاملے پر کمیشن ہو یا ایبٹ آباد کمیشن ہو یا کوئی اور تحقیقاتی کمیشن۔۔

چلیے آنر ایبل ریٹائرڈ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا یک رکنی کمیشن بن گیا۔ چلیے اس کمیشن نے اپنی رپورٹ بھی اگلے چند ماہ میں مرتب کر دی۔۔ تو کیا سپریم کورٹ نے حکومت کو پابند کیا ہے کہ وہ جیلانی کمیشن کی رپورٹ من و عن نہ صرف شائع کرے گی بلکہ اس کی جو بھی سفارشات ہوں، ان پر حرف بہ حرف عمل کرے گی اور اس رپورٹ میں اگر کسی ادارے کے اہلکار یا اہلکاروں کو عدلیہ کی سنگین توہین کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تو ان کے خلاف فوری مقدمات قائم ہوں گے؟

کیا اعلٰی عدلیہ نے حکومت کو پابند کیا ہے کہ وہ حساس اداروں سمیت ہر انتظامی ادارے کا دائرہ کار طے کرنے کے لیے ایک ماہ، تین ماہ یا چھ ماہ کے اندر ٹھوس قانون سازی کرے اور اس قانون کو توڑنے والوں کے لئے واضح حروف میں سزائیں بھی قانون کا حصہ بنائے؟

حال ہی میں عدالت عظمیٰ نے بھٹو قتل کیس میں یہ رائے دے کر تاریخی ریکارڈ درست کرنے کی کوشش کی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ شفاف نہیں تھا، مگر وہ کون سے جج یا ان پر دباؤ ڈالنے والے عمل دار تھے، جن کے سبب یہ مقدمہ انصاف کے مروجہ تقاضوں کو پورا نہ کر پایا اور ہمارے نظامِ انصاف پر ایک اور دھبہ بن گیا۔۔ اس بابت ہر جانب مکمل خاموشی ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی غلط تھی۔ یہ عدالتی فیصلہ بھی قابلِ تحسین ہے۔۔ مگر ریکارڈ کی درستی کے لیے کم ازکم یہ بھی تو بتا دیا جاتا کہ اس غلط فیصلے کے محرکات کیا تھے اور کردار کون تھے؟

اچھی بات ہے کہ عدلیہ کے کام میں دیگر اداروں کی مداخلت روکنے اور تازہ اسکینڈل کی شفاف چھان بین کے لیے چیف جسٹس نے وزیرِ اعظم سے ٹھوس یقین دہانی حاصل کی۔۔ مگر یہ تو بتا دیں کہ یہ سلسلہ کب سے جاری ہے اور کون کون اس دباؤ کا اب تک نشانہ بنا اور کس کس نے کس حیثیت میں یہ دباؤ ڈالا؟

کیا جیلانی کمیشن ان سوالات کے جوابات تلاش کر پائے گا۔ نہ کر سکا تو پھر عدالتِ عظمٰی کا اگلا قدم کیا ہوگا۔ جوابات سامنے آ گئے تو اگلا قدم کیا ہوگا؟

یہ قوم مویشیوں کا گَلہ تو نہیں کہ اسے گڈرئیے سے بنیادی سوالات کے جوابات مانگنے کا کوئی حق نہیں۔ کیا مقدر میں صرف ہنکالے جانا ہی لکھا ہے؟

(آج بی بی سی اردو کے لیے ہفتہ وار کالم لکھتے لکھتے چھبیس برس ایک ماہ کی مدت مکمل ہو گئی۔ یہ سفر فروری انیس سو اٹھانوے میں ’مکتوبِ پاکستان‘ سے شروع ہوا اور دو ہزار دو میں ’بات سے بات‘ میں تبدیل ہو کر آج اپنے اختتام پر پہنچا۔ میں بی بی سی اردو اور لاکھوں قارئین و سابق سامعین کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے چوتھائی صدی سے زائد مدت تک مجھے اپنے صفحات، صوتی لہروں اور دل میں مسلسل جگہ دی۔ آپ سب سلامت رہیں۔)

بشکریہ بی بی سی اردو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close