کیا ماضی کو بھلایا جا سکتا ہے؟

ڈاکٹر مبارک علی

چلی کے آمر پنوشے نے، جس نے ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تھا، اپنے جابرانہ دورِ اقتدار میں اپنے مخالفوں کو پہلے ایک اسٹیڈیم میں قید کیا اور پھر ان پر علیحدہ علیحدہ مقدمات چلائے۔ انہیں قید خانوں میں رکھا، اذیتیں دیں اور انہیں قتل بھی کروایا۔ اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد پنوشے نے اپنی عمر کے آخری حصے میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماضی میں جو کچھ ہوا، اسے بھلا دینا چاہیے اور قوم کو متحد ہو کر ترقی کرنا چاہیے۔ پنوشے کے اس اعلان نے ان خاندانوں کے زخم ہرے کر دیے تھے، جن کے افراد اس کے آمرانہ دور میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔

براعظم جنوبی امریکہ کی ریاستوں میں جہاں بار بار آمرانہ حکومتیں آئیں، ان کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو قید و بند اور مہلک سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس لیے یہ سوال کیا گیا کہ آیا وقت گزرنے کے بعد ظالم اور مظلوم میں کوئی مصالحت بھی ہو سکتی ہے؟ اس مقصد کے لیے ارجنٹائن اور دوسرے جنوبی امریکی ممالک میں ’سچائی اور مصالحتی کمیشن‘ بھی قائم کیے گئے۔ کمیشن کے اراکین ظالم اور مظلوم دونوں جانب کے لوگوں کے بیانات لیتے، اپنی طرف سے چھان بین کرتے اور پھر رپورٹیں لکھتے۔ ایسے کمشنوں نے کوشش کی کہ آمرانہ حکومتوں نے جو کچھ اپنے عوام کے ساتھ کیا، اسے تاریخ کا حصہ بنا دیا جائے۔ تاہم ظلم کرنے والوں کو کوئی سزائیں نہ دی گئیں۔

سچائی کی تلاش اور مصالحت کو یقینی بنانے کا کام کرنے والا ایسا اہم ترین کمیشن ڈیسمنڈ ٹوٹو (جن کا انتقال 2021ء میں ہوا تھا) کی قیادت میں جنوبی افریقہ میں قائم کیا گیا تھا۔ جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کی بنیاد پر کام کرنے والی حکومت کے دور میں افریقی باشندوں کا کئی بار قتل عام کیا گیا تھا۔ تب افریقی عوام کے رہنماؤں کو سزائیں بھی سنائی جاتی رہی تھیں اور سفید فام اقلیتی آبادی کی نسل پرستی نے تعصب اور نفرت کو جنم دیا تھا۔ 1910ء میں جب جنوبی افریقہ آزاد ہوا، تو مقامی لوگوں کے دلوں میں سفید فام نسل پرستی کے خلاف سخت نفرت تھی۔ مگر نیلسن منڈیلا نے اس نفرت کو انتقام میں نہ بدلنے دیا اور یہ پالیسی اپنائی کہ سیاہ فام اور سفید فام دونوں مل کر حکومت کریں گے۔ نسلی امتیاز کے دور کے خاتمے کے بعد ڈیسمنڈ ٹوٹو کی قیادت میں قائم کمیشن کے ذریعے ظالم اور مظلوم دونوں کو آمنے سامنے کر دیا گیا۔ نسلی امتیاز کے دور کے حکام اور اہلکاروں نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا، جس کی وجہ سے جنوبی افریقہ میں نسلی فسادات نہیں ہوئے تھے۔

اس کے برعکس پاکستان نے جو کچھ 1971ء میں سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں کیا تھا، اسے بھلا دیا گیا۔ اگرچہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ میں، جو مکمل طور پر شائع نہ ہوئی، یہ کہا گیا کہ پاکستانی فوج کے ایکشن کی وجہ سے بنگالی دانشوروں اور طالب علموں کا قتل عام ہوا۔ بنگلہ دیشی حکومت نے اپنے طور پر دستاویزات تیار کی ہیں، جن میں فوجی ایکشن اور اس کے اثرات کو بیان کیا گیا ہے۔ لیکن پاکستان میں بنگلہ دیش کی آزادی کو بھلا دیا گیا ہے۔ چونکہ ان دونوں ملکوں کے مابین کوئی سچائی اور مصالحتی کمیشن نہ بن سکا۔ اس لیے 1971ء کی تاریخ دونوں ممالک کے علیحدہ علیحدہ اور باہم متضاد موقف پیش کرتی ہے۔

اسی ضمن میں ہم یورپی امپیریلزم اور اس کے یورپی نوآبادیوں میں کیے گئے ظلم و ستم اور لوٹ مار کے بارے میں خاموشی بھی دیکھتے ہیں۔ پچھلی دہائیوں میں یہ ضرور ہوا ہے کہ آسٹریلیا کی حکومت نے قدیم مقامی باشندوں سے معافی مانگی۔ لیکن معافی کا یہ سلسلہ آگے نہیں بڑھا۔ امریکہ نے قدیم مقامی ریڈ انڈین آبادی اور افریقی نژاد باشندوں کے ساتھ جو سلوک کیا، اس پر کوئی معافی نہیں مانگی گئی۔ انگلستان، فرانس، نیدرلینڈز، جرمنی اور بلیجیم نے اپنی نوآبادیوں میں جن مظالم اور جس بربریت کو اپنایا تھا، اس پر بھی کوئی معافی مانگی گئی اور نہ ہی ایسی کسی معافی کا اعلان کیا گیا۔

یورپی امپیریل ممالک نے اپنی نوآبادیوں کی تاریخ کو بھی مسخ کیا اور ان سے متعلق تمام دستاویزات بھی ان کالونیز کے آزاد ہونے کے بعد اپنے ہاں لے آئے۔ لندن میں برطانوی نوآبادیوں سے متعلق ان دستاویزات کو، جو انگریز سامراج کے مظالم کو ظاہر کرتی ہیں، مؤرخین کی پہنچ سے دور کر کے محفوظ کر دیا گیا۔ شاید کبھی یہ دستاویزات شائع ہوں، تو سامراجی طاقتوں کے جرائم سامنے آ سکیں۔

ہندوستان میں برطانوی حکومت مقامی والیان ریاست کا ریکارڈ بھی رکھتی تھی، جس میں ان کی عیاشیوں کے تذکرے بھی ہوتے تھے اور ان کی نااہلیوں اور بدعنوانیوں کا ذکر بھی۔ آزادی کے بعد والیان ریاست کی وفاداری کے پیش نظر ان کے خلاف یہ ساری دستاویزات جلا دیں گئی تھیں۔ اس کا ذکر ’فریڈم ایٹ مڈنائٹ‘ کے مصنفین ڈومینیک لاپیئیر اور لیری کولنز نے کیا ہے۔ اس پر ہندوستانی حکومت نے برطانیہ سے احتجاج بھی کیا تھا کہ اس نے ایک اہم پہلو کو ضائع کر کے تاریخ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آیا ماضی کو بھلا کر ہم تاریخ سے کچھ سیکھ بھی سکیں گے یا پھر ماضی کی غلطیوں کو بار بار دہراتے ہی رہیں گے؟ جواب یہ ہے کہ ماضی کو بھلایا نہیں جا سکتا کیونکہ اس میں ان لوگوں کی یادیں بھی شامل ہوتی ہیں، جنہوں نے ماضی میں ظلم و ستم برداشت کیے تھے۔ ماضی کی یہ تاریخ ان کو حوصلہ دیتی ہے کہ وہ آمروں، ریاستی جبر اور تعصبات کے خلاف مسلسل جدوجہد کرتے رہیں۔ کیونکہ تاریخ انہی کے ساتھ ہے، چاہیے اسے کتنا بھی مسخ کر دیا جائے یا اس میں کتنا بھی جھوٹ اور تعصب شامل کر دیا جائے۔ تاریخ اپنی حقیقتوں کو ہمیشہ سامنے لے ہی آتی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخ نویسی کسی ایک ملک میں باقی نہیں رہتی۔ عالمگیریت نے تاریخ نویسی کو بھی عالمگیر بنا دیا ہے۔ اگر کوئی ایک ملک مخصوص واقعات کو چھپاتا ہے، تو دوسرے ممالک کے مؤرخیں ا‍ور ماہرین تاریخی اصلیت کو سامنے لے آتے ہیں۔ اسی لیے آج جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے دور کے واقعات کی پوری تفصیلات عالمی تاریخ میں موجود ہیں۔ تاریخ کی گرفت مضبوط ہو رہی ہے۔ تاریخ کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close