حماقت کی فتح

طارق کھوسہ

جب نیک مرد و زن سچ بولنے کی ہمت کھو دیں، جب حقائق ناگوار ہو جائیں، جب دیانت اور کردار کی کوئی وقعت نہ رہے، اور جب انا اور خودغرضی قومی سالمیت سے زیادہ اہم ہو جائیں، تو پھر جبر کی فتح کو کوئی نہیں روک سکتا۔

میں خود کو غصے اور کرب کے سمندر میں غرق محسوس کرتا ہوں۔ اس اندرونی کشمکش سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ قلم اٹھا کر ان لوگوں کے لیے لکھوں، جو ہماری قوم کے مستقبل کے بارے میں گہری تشویش محسوس کرتے ہیں۔

ہمارے بدنصیب وطن میں کیا داؤ پر لگا ہے؟ سادہ الفاظ میں، اجتماعی خودکشی کا عمل جاری ہے، اور حکمران اشرافیہ شعوری طور پر انکار، تحریف اور دھوکہ دہی کے ذریعے اسے بڑھا رہی ہے۔ یہ تباہی کا نسخہ ہماری ریاست اور معاشرے کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔

ایراسمس نے اپنی کتاب ’دی پریز آف فولی‘ (1509) میں لکھا: ”جتنا کم ہنر ہو، اتنا ہی زیادہ غرور، تکبر اور خودپسندی ہوتی ہے۔ تاہم، ان تمام احمقوں کو ایسے دوسرے احمق مل جاتے ہیں جو ان کی تعریف کرتے ہیں۔“

اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں کا ایک ناجائز اتحاد ایک جمہوری نقاب کے ذریعے ریاست کی سازشوں کو چھپاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس سال 8 فروری کے قومی انتخابات کے نتائج ان لوگوں کے حق میں بدل دیے گئے جو اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتے اور جنہوں نے مینڈیٹ سے انکار کیا۔ کچھ لوگ اس دھاندلی کو یہ کہہ کر جائز قرار دیتے ہیں کہ تقریباً تمام سابقہ انتخابات بھی اصل طاقت کے مالکوں نے اپنے فائدے کے لیے انجینئر کیے۔ اس بات میں صداقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی انجینئرنگ کی، لیکن حالیہ انتخابات میں ریاستی اداروں کی طرف سے اختیار اور استحصال کی واضح زیادتی نے تمام حدود پار کر دی ہیں۔

انتخابات کے انعقاد کے لیے غیرجانبدار، غیرسیاسی نگران انتظامیہ کے تجربے نے بری طرح ناکامی کا منہ دیکھا ہے۔ کابینہ، بشمول چیف ایگزیکٹو، کو ریاست کے خفیہ اداروں نے منتخب کیا جن کا ایجنڈا سابقہ وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر نے آگے بڑھایا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان سب سے بڑی مایوسی ثابت ہوا ہے۔ انتخابی نگران ادارے کے سربراہ نے سول سروسز کو بدنام کیا اور اپنے ساتھیوں کے سخت الفاظ سنے جو ان کے غیرمہذب اور غیر اصولی رویے کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے عوامی اعتماد کے حامل آئینی ادارے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور سپریم کورٹ کے احکامات کو نظرانداز کرتے ہوئے موجودہ سیاسی تماشے کے سیاسی انجینئروں کی حمایت کی۔

عدلیہ، جو قومی اداروں میں سب سے نمایاں تھی، سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے درمیان کھلے جھگڑوں اور اختلافات نے ادارے کی انتظامی اور عملی خودمختاری کو تباہ کر دیا ہے، جو آئین کے تحفظ اور عوام کو انصاف کی منصفانہ فراہمی کے لیے ضروری تھی۔

بیوروکریسی اور پولیس خدمات نے بے ضمیری کی نئی انتہاؤں کو چھو لیا ہے، جو حکمران اشرافیہ کے ہاتھوں کے کھلونے بن گئے ہیں۔ سینئر افسران اپنے ماتحتوں کو ایسی صورتحال میں گھسیٹ رہے ہیں، جہاں انسانی حقوق کی پامالی معمول بن چکی ہے۔

بلوچستان جل رہا ہے، اور خیبر پختونخوا میں پھیلی ہوئی بدامنی سے تشدد کی لہر مزید بڑھ رہی ہے۔ ہماری سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کو ان مسائل سے نمٹنے پر مکمل توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ فوج اور انٹیلی جنس اداروں کو ریاست کی رٹ بحال کرنے کی ضمانت دینی چاہیے۔

آخر میں، اسلام آباد میں حالیہ مظاہرین پر ہونے والے ظلم و جبر پر سنجیدہ غور و فکر کرنا چاہیے۔ تاریخ ان لوگوں کو ان کے اقدامات سے پرکھے گی کہ انہوں نے ایک سیاسی بحران کو کیسے سنبھالا۔ اب وقت ہے کہ پاکستان کے عوام کی جمہوری امنگوں کو پورا کرنے کے لیے راہ بدلی جائے۔

لکھاری سابق انسپکٹر جنرل پولیس ہیں۔

بشکریہ روزنامہ ڈان
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close