ڈارن آسیموگلو اور سائمن جانسن نے ٹیکنالوجی کی طاقت اور ترقی پر اپنی کتاب ’پاور اینڈ پراگریس‘ میں اُن تبدیلیوں کا ذکر کیا ہے جو پتھر کے زمانے سے آج تک دنیا کو بدلتی رہیں ہیں۔
انسان کبھی بھی اپنے ماحول سے مطمئن نہیں رہتا ہے۔ اُس کی برابر کوشش ہوتی ہے کہ اپنے اردگرد کی دنیا کو تبدیل کرتا رہے۔ تبدیلی کے اس عمل میں ٹیکنالوجی اُس کا ساتھ دیتی ہے۔ کبھی وہ دریاؤں کے رُخ کو بدلتا ہے، کبھی پہاڑوں سے راستے نکالتا ہے اور کبھی سیاست اور تجارت کی غرض سے نہریں کھود کر زمینی رکاوٹوں کو دور کرتا ہے۔
اس کے لیے مصنفوں نے دو نہروں کی مثال دی ہے، جن میں سے ایک کا نام ’سوئیز کینال‘ ہے اور اِسے فرڈیناں ڈے لیسپس نے 1859ء میں مکمل کیا۔ کھدائی کے اخراجات پورا کرنے کے لیے اس کے شیئرز یا حصص بیچے گئے۔ اس وقت انگلستان کے وزیر اعظم بینجمن ڈِزرائیلی نے یہودی سرمایہ دار روتھ چائلڈ سے پیسے لے کر اس کے حصِص خریدے۔ سوئیز کینال کی کھدائی کے بعد مشرقی مُلکوں کا سفر آسان ہو گیا۔
نہر کی کھدائی کو ایک کارنامہ سمجھا جاتا ہے لیکن تاریخ اس پر توجہ نہیں دیتی ہے کہ کھدائی میں مصری مزدوروں سے جبری مشقت کرائی گئی، جس کا معاوضہ بھی نہیں دیا گیا۔ مصری مزدوروں کے رہنے اور کھانے پینے کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ ریگستان کی گرم ہوائیں اور تپش، اِن سب نے مل کر 15 سے 20 ہزار مزدوروں کی جان لی۔ مزدوروں کے اس اَلمیے کو فراموش کیا گیا۔
لیسپس کو اس کامیابی کے بعد لاطینی امریکہ میں ’پانامہ کنال‘ کھودنے کا کام دیا گیا۔ اس منصوبے کو پورا کرنے کے لیے اس نے یورپ، امریکہ اور لاطینی امریکہ کے ملکوں میں اس کے (Shares) شیئرز فرخت کیے۔ کھُدائی کے لیے مزدوروں کو اکٹھا کیا گیا اور ان کی تنخواہیں مقرر کی گئی، لیکن آب و ہوا کی خرابی کی وجہ سے رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ ہیضے کی وباء پھیلی، اور مچھروں کی وجہ سے ملیریا مزدوروں میں پھیل گیا۔ علاج معالجے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں موت کا شکار ہوئے۔ لیسپس اس منصوبے کو پورا نہ کر سکا اور وہ خود بھی اسی دوران وفات پا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاستیں اور افراد اپنے مُفادات پورا کرنے کے لیے ہزاروں لوگوں کو قربان کر دیتے ہیں۔
اس کے بعد مصنفین ایک اور ٹیکنالوجی کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ یہ پانی سے چلنے والی چکی یا پن چکی تھی اور جس نے آٹا پیسنے کی سہولت دی۔ اَنالز اسکول کے مؤرخ مارک بلوخ نے پن چکی پر ایک تحقیقاتی کتاب لکھی ہے۔ اس سے پہلے عورتیں چکی پر گندم پیسا کرتی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی اپنی مشقت کو کم کرنے کے لیے گانا گاتی جاتی تھیں۔ اِنڈ و پاک میں ان گانوں کو جمع کر کے چکی نامہ کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے۔
پَن چکی کی وجہ سے چرچ اور زمیندار کے درمیان جھگڑا بھی ہوا، کیونکہ دونوں چاہتے تھے کہ لوگ اُن کی چکی سے گندم پسوائیں۔ چرچ کے بشپ نے گھروں سے چکیاں اُٹھوا کر چرچ کی عمارت میں رکھوا دیں اور لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ اس کی چکی میں گندم پسوائیں۔
مصنفین نے اس جانب بھی توجہ دی ہے کہ صنعتی انقلاب سے پہلے کوئلے کی کانوں میں بچوں سے مزدوری کرائی گئی۔ یہ بچے جن میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں ہی ہوتے تھے، چھ سال کی عمر سے اِنہیں کوئلے کی کانوں میں بھیج دیا جاتا تھا، جہاں یہ پورا دن مشقت کرتے تھے۔ کانوں کی زہریلی گیس ان کو سانس اور تپ دق کی بیماریوں میں مُبتلا کر دیتی تھی۔ علاج کی سہولت نہ ہونے پر یہ بچے جلد ہی مَر جاتے تھے۔ فیکٹریوں میں بھی بچوں سےکام کروایا جاتا تھا۔ ان کا معاوضہ کم سے کم ہوتا تھا۔ فیکٹریوں کے مالکان کی یہ پالیسی تھی کہ اگر فیکٹری میں نئی ایجاد شدہ مشینوں کو استعمال کیا جائے تو اس کی وجہ سے مزدور کو کم محنت کرنی پڑے گی۔ اس بنیاد پر یہ مزدوروں کی تنخواہوں میں کٹوتی کرتے تھے۔
ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ غلامی کے ادارے نے بھی امریکہ اور کیریبئن جزائر کی زندگی کو بدل ڈالا۔ گنے کی کاشت اور شکر بنانے کا کام انتہائی مشقت چاہتا تھا۔ یہ کام افریقہ سے لائے ہوئے غلاموں سے لیا جاتا تھا۔ ابتداء میں گنے کا رَس نکالنے کے لیے اسے دو بڑے پاٹوں کے درمیان رکھ کر اس کا جوس نکالتے تھے۔ پھر وقت کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی آئی اور گنے سے رَس نکالنے کا کام مشینوں کے ذریعے ہونے لگا۔ یہ اس کا نتیجہ تھا کہ غلامی سرمایہ داران کے لیے بوجھ ہو گئی۔ غلامی کا خاتمہ اس وجہ سے ہوا کہ اُس کی جگہ مشینوں نے لے لی۔
ٹیکنالوجی نے اگر دنیا کو پسماندگی سے نکالا ہے تو غریب لوگوں نے اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ٹیکنالوجی اشرافیہ کے لیے خوشحالی اور مالی وسائل لے کر آئی، لیکن نچلے طبقے کے عوام اس کی قیمت ادا کرتے رہے۔ مگر اُن کی اپنی زندگی غربت اور مایوسی سے بسر ہوتی رہی۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ اگر ٹیکنالوجی نے صرف اشرافیہ کو فائدہ پہنچایا اور عام لوگ زندگی کی خوشی اور مُسرت سے محروم رہے تو کیا اس ٹیکنالوجی کو اور سائنسی ایجادات کو انسانیت کے لیے نعمت کہیں گے یا عذاب؟
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)