قبائلی خونریزی

عرفان علی سموں

بالائی سندھ میں قبائلی دشمنیوں نے پورے علاقے کو میدانِ جنگ بنا دیا ہے، جس کے نتیجے میں سینکڑوں بے گناہ جانیں ضائع ہو چکی ہیں، اور قانون کی عملداری کی تشویشناک غیر موجودگی کھل کر سامنے آ چکی ہے۔

حال ہی میں کشمور اور گھوٹکی میں ساوند اور سندرانی قبائل کے درمیان ہونے والے خونی تصادم میں 29 افراد ہلاک ہوئے، جبکہ اس سے قبل کشمور ہی میں سبزوئی اور سندرانی قبائل کے درمیان ایک خوفناک دشمنی میں 101 افراد موت کے گھاٹ اتر چکے تھے۔

یہ تنازعات اکثر زمین، عزت، پانی کی گزرگاہوں اور دیگر معمولی مسائل سے جنم لیتے ہیں اور بالآخر جرگوں میں جا کر ختم ہوتے ہیں، جہاں انصاف محض مالی لین دین میں بدل کر رہ جاتا ہے۔ ان جرگوں میں خون بہا کی مد میں تقریباً 97 کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا گیا، جس نے انسانی جانوں کے قتل کو محض ایک ریاضیاتی حساب میں تبدیل کر دیا۔

پورا شمالی سندھ ان بے قابو قبائلی جھگڑوں میں پھنسا ہوا ہے، جس نے سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔ مختلف قبائل، جن میں مہر، جتوئی، ناریجو، سولنگی، بھیو، مارفانی، جلبانی، کٹوہر، بروہی، شیخ، کاکے پوتا، جکھرانی، جاگیرانی، ڈومکی اور شر شامل ہیں، طویل عرصے سے ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہیں، جس سے یہ خطہ عدم استحکام کا شکار ہو چکا ہے۔

اعداد و شمار بگڑتی ہوئی صورتحال کی سنگینی ظاہر کرتے ہیں:

شکارپور میں 2024 کے دوران قبائلی جھگڑوں میں 195 افراد ہلاک اور 53 زخمی ہوئے۔

2,569 ملزمان قتل کے مقدمات میں مفرور ہیں۔

لاڑکانہ اور جیکب آباد میں 39 افراد قتل کر دیے گئے۔

سکھر ڈویژن میں حالیہ مہینوں میں 80 ہلاکتیں اور 53 زخمی رپورٹ ہوئے۔

سکھر، خیرپور، اور گھوٹکی میں قبائلی قتل و غارت میں ملوث 1,226 ملزمان قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔

ان خوفناک اعداد و شمار کے باوجود قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس اور غیر مؤثر دکھائی دیتے ہیں، جس سے جاگیرداروں اور مسلحہ قبائلی جتھوں کے حوصلے مزید بلند ہو رہے ہیں۔

ان تنازعات کے مستقل رہنے کی بنیادی وجہ سندھ کے دیہی علاقوں میں گہری جڑیں رکھنے والا جاگیردارانہ نظام ہے۔ قبائلی سردار نہ صرف اپنے قبیلوں پر بلکہ مقامی انتظامیہ اور پولیس پر بھی زبردست اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اکثر اوقات تشدد کا شکار ہونے والے افراد پولیس سے رجوع کرنے کے بجائے اپنے قبائلی سرداروں کے پاس جاتے ہیں، جو یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا معاملہ قانون کے سپرد کیا جائے یا پھر جرگے کے ذریعے حل کیا جائے۔

یہ جاگیردار، جنہیں وڈیرے کہا جاتا ہے، ان دشمنیوں کو برقرار رکھنے میں اپنا مفاد دیکھتے ہیں، تاکہ وہ اپنے علاقوں میں بلا شرکتِ غیرے طاقت کے اصل سرچشمہ بنے رہیں۔

ڈاکٹر طارق ساوند، جن کے بھائی پروفیسر ڈاکٹر اجمل ساوند گزشتہ سال کشمور میں ایک قبائلی تنازعے میں قتل کر دیے گئے تھے، اس ناکامی کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں: ”اگر پولیس ایف آئی آر درج ہونے کے فوراً بعد ذمہ داری کا مظاہرہ کرے، تو یہ دشمنیاں شاذ و نادر ہی شدت اختیار کریں۔ مگر جب متاثرین کو انصاف نہیں ملتا، تو وہ مجبوراً انتقام لینے کے لیے قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔“

نومبر 2024 میں سکھر میں ہونے والا جرگہ اس متوازی عدالتی نظام کی ایک خوفناک مثال ہے، جو پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے غیر آئینی قرار دیے جانے کے باوجود بدستور قائم ہے۔ اس جرگے میں مہر اور جتوئی قبائل کے درمیان جھگڑے کے تصفیے کے لیے 22 کروڑ روپے خون بہا کے طور پر مقرر کیے گئے، جس میں:

مرد کے قتل پر 25 لاکھ روپے

عورت کے قتل پر 50 لاکھ روپے

جھگڑے کے دوران عورت کے اغوا پر 20 لاکھ روپے

یہ صورتحال ایک بنیادی سوال کو جنم دیتی ہے: ملک کے آئین، عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں ایسی جاگیردارانہ عدالتوں کی کیا حیثیت ہے؟ ایسی جاگیردارانہ عدالتوں کے مقابلے میں ریاستی قانون کہاں کھڑا ہے؟ جب ایک غیر رسمی نظام پاکستان کی کسی بھی عدالت سے زیادہ اثر و رسوخ رکھتا ہو، تو یہ ایک آئین، عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں والے ملک کے بارے میں کیا ظاہر کرتا ہے؟

قبائلی دشمنیوں میں اضافے، جرگوں کے آزادانہ آپریشن اور انصاف کی عدم فراہمی نے ایک انتہائی سنگین صورت حال کو جنم دیا ہے۔ معروف تحقیقاتی صحافی نثار کھوکھر نے اس صورتحال کو یوں بیان کیا ہے: ”جب ریاستی اختیار ختم ہو جاتا ہے، تو اس خلا کو ہمیشہ غیر ریاستی عناصر پُر کر لیتے ہیں۔“

یہ خلا اب جدید اسلحے سے لیس قبائلی ملیشیاؤں، جاگیرداروں اور متوازی عدالتی نظام نے پُر کر دیا ہے، جو پاکستان کے قانونی ڈھانچے کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔

سندھ کے عوام کو جاگیرداروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا، جہاں انسانی زندگی کو محض مالی تصفیے تک محدود کر دیا گیا ہے۔ ریاست کو اپنی رِٹ قائم کرتے ہوئے:

جرگوں کے نظام کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزید مضبوط اور غیر جانبدار بنانا ہوگا۔

عدلیہ پر عوامی اعتماد بحال کرنا ہوگا۔

اگر حکومت خاموش رہی، تو سندھ لہو لہو ہوتا رہے گا!

اگر حکومت، پولیس، اور عدلیہ اسی طرح خاموش تماشائی بنی رہیں، تو سندھ اسی طرح قبائلی دشمنیوں میں جلتا رہے گا، اور ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید بے گناہ جانیں ضائع ہوتی رہیں گی—ایک قبائلی جھگڑے کے بعد، دوسرے قبائلی جھگڑے میں!

بشکریہ دی نیوز (انگریزی سے ترجمہ)

نوٹ: مصنف سندھ پولیس میں سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (SSP) ہیں۔ کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close