موت کے منہ میں جاتے انڈس ڈیلٹا کی ہولناک صورتحال

ڈاکٹر انیلا حمیم میمن | ڈاکٹر عبدالغنی سومرو

دریائے سندھ کا ڈیلٹا، جو دنیا کے سب سے بڑے ڈیلٹائی ماحولیاتی نظاموں میں سے ایک ہے، سمندری پانی کے حملے کے باعث شدید زوال کا شکار ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں لاکھوں ایکڑ زمین سمندر برد ہو چکی ہے، زیرِ زمین پانی کی مٹھاس ختم ہو رہی ہے، اور میٹھے پانی کے وسائل کم ہوتے جا رہے ہیں، جس سے پاکستان کے ساحلی علاقوں میں زراعت اور پینے کے پانی کی دستیابی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ سمندری پانی کے حملے کے سبب انڈس ڈیلٹا کی تباہی لاکھوں افراد کو بے گھر اور پانی کے بحران سے دوچار کر رہی ہے۔

سمندری پانی کے آگے بڑھنے سے دریائے سندھ کے ڈیلٹا کے وسیع علاقے زیرِ آب آ چکے ہیں۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (PCRWR) کی 2019 کی ایک تحقیق کے مطابق، تقریباً 22 لاکھ ایکڑ زرخیز زمین سمندری پانی کی دراندازی کے باعث غیر پیداواری ہو چکی ہے۔

تاریخی سیٹلائٹ تصاویر اور زمینی مشاہدات ظاہر کرتے ہیں کہ سمندری پانی بتدریج اندرونِ زمین بڑھ رہا ہے، خاص طور پر ٹھٹہ، بدین اور سجاول جیسے اضلاع میں، جو کبھی زرخیز زرعی علاقے تھے۔ مزید برآں، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی (NIO) کی تحقیق کے مطابق، تازہ پانی کے بہاؤ میں کمی کے باعث ساحلی کٹاؤ میں اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں 10,000 ہیکٹر سے زائد مینگروو جنگلات تباہ ہو چکے ہیں۔ یہ جنگلات سمندری پانی کے حملے کے خلاف ایک قدرتی رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں۔

ساحلی علاقوں میں زیرِ زمین پانی شدید طور پر کھارا ہو چکا ہے، جو نہ صرف پینے کے لیے بلکہ زرعی آبپاشی کے لیے بھی ناقابلِ استعمال ہو گیا ہے۔ NIO کی تحقیق کے مطابق، انڈس ڈیلٹا کے تقریباً 80 فیصد کم گہرائی والے زیرِ زمین پانی کے ذرائع میں 500 mg/L سے زیادہ نمکیات موجود ہیں، جو عالمی ادارہ صحت (WHO) کی مقرر کردہ محفوظ حد سے تجاوز کر چکے ہیں۔

مزید برآں، ڈیلٹائی علاقوں میں ہونے والے مٹی کے تجزیے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ 1950 کی دہائی میں زمین کی نمکیات کی سطح 4dS/m سے کم تھی، جو حالیہ برسوں میں 15dS/m سے تجاوز کر چکی ہے، جس کے نتیجے میں روایتی فصلوں کی کاشت تقریباً ناممکن ہو چکی ہے۔ سندھ ایگریکلچر ایکسٹینشن ڈیپارٹمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق، ساحلی علاقوں کے 90 فیصد کھیت، جہاں کبھی گندم، چاول اور سبزیاں اگائی جاتی تھیں، اب یا تو ویران ہو چکے ہیں یا وہاں کم پیداوار والی نمک برداشت کرنے والی فصلیں اگائی جا رہی ہیں۔

تاریخی طور پر، انڈس ڈیلٹا دریائے سندھ کے وافر میٹھے پانی کے باعث زرخیز تھا۔ برطانوی دور کی 19ویں صدی کے آخر کی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت دریائے سندھ سالانہ 150 ملین ایکڑ فٹ (MAF) میٹھا پانی ڈیلٹا تک پہنچاتا تھا۔ تاہم، 1955 میں مکمل ہونے والے کوٹری بیراج اور دیگر بڑے ڈیموں اور بیراجوں کی تعمیر کے بعد، ڈیلٹا تک پہنچنے والا پانی انتہائی کم ہو چکا ہے۔

بین الاقوامی یونین برائے تحفظِ قدرت (IUCN) کی ایک تحقیق کے مطابق، کوٹری بیراج کے نیچے تازہ پانی کا بہاؤ 1960 کی دہائی میں 84 ملین ایکڑ فٹ (MAF) تھا، جو 2000 کی دہائی کے اوائل تک کم ہو کر سالانہ 10 MAF سے بھی کم رہ گیا۔ مزید برآں، انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، بعض برسوں میں ڈیلٹا تک پہنچنے والا میٹھا پانی محض 0.75 MAF تک گر گیا، جو سمندری پانی کے حملے کو روکنے اور ڈیلٹائی ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے ناکافی ہے۔

سندھ، خاص طور پر ساحلی علاقوں میں، پانی کی قلت کو نئی نہروں کی تعمیر نے مزید سنگین کر دیا ہے۔ متنازعہ گریٹر تھل کینال اور چشمہ-جہلم لنک کینال، جو پنجاب میں زرعی آبپاشی کے لیے پانی کے بہاؤ کو موڑنے کے لیے بنائی گئی تھیں، نے دریائے سندھ کے زیریں علاقوں میں پانی کی دستیابی کو نمایاں طور پر کم کر دیا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، گریٹر تھل کینال سالانہ 1.873 MAF پانی نکالنے کے لیے ڈیزائن کی گئی تھی، جبکہ چشمہ-جہلم لنک کینال کا متعین بہاؤ 21,700 کیوسک ہے۔ ان نہروں کے سبب پانی کے کم بہاؤ نے ٹھٹہ، بدین، اور سجاول کے زرعی علاقوں کو شدید نقصان پہنچایا، جس کے نتیجے میں فصلوں کی پیداوار میں نمایاں کمی آئی۔ سندھ آبادگار بورڈ کے مطابق، گزشتہ دو دہائیوں میں زیریں سندھ میں گندم کی پیداوار میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، جس کی بنیادی وجہ پانی کی قلت ہے۔

سمندری پانی کی دراندازی نے اس علاقے کی زرعی پیداوار کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ کبھی اپنی زرخیز چاول اور گندم کی کاشت کے لیے مشہور ٹھٹہ اور بدین کی زمینیں، اب شدید مٹی کی نمکیات کے باعث بنجر ہو چکی ہیں۔ اس ماحولیاتی بحران کے نتیجے میں، 12 لاکھ سے زائد افراد، جن میں زیادہ تر چھوٹے کاشتکار اور ماہی گیر شامل ہیں، بے گھر ہو چکے ہیں، کیونکہ ان کے لیے روزگار کے مواقع ناپید ہو گئے ہیں۔

سندھ ڈیولپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کی ایک تحقیق کے مطابق، ڈیلٹا کا 70 فیصد زرعی رقبہ اب روایتی زراعت کے لیے ناقابلِ استعمال ہو چکا ہے، جس سے پورے خطے کی معیشت اور خوراک کی پیداوار پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

مزید برآں، پاکستان فشر فوک فورم کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں میں ڈیلٹا میں مچھلی کی پیداوار 80 فیصد تک کم ہو چکی ہے، جس سے ساحلی علاقوں میں غربت اور خوراک کی عدم دستیابی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

دریائے سندھ کے میٹھے پانی کے بہاؤ میں کمی نے ساحلی آبادی کے لیے پینے کے پانی کی شدید قلت پیدا کر دی ہے۔ سندھ آبپاشی محکمہ کی رپورٹس کے مطابق، نمکین پانی کی دراندازی نے کئی کمیونٹیز کو مہنگے داموں ٹینکرز کے ذریعے فراہم کیے جانے والے پانی پر انحصار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ-پاکستان (WWF-Pakistan) کے 2021 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق، ڈیلٹا کے 75 فیصد سے زائد گھرانے اپنے مقامی کنوؤں کے آلودہ ہونے کی وجہ سے بیرونی ذرائع سے پانی حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ مزید برآں، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (PIDE) کی 2022 کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ اس علاقے میں 65 فیصد سے زیادہ آبی بیماریاں براہ راست نمکین یا آلودہ پانی کے استعمال سے جڑی ہوئی ہیں، جس سے پہلے ہی پسماندہ آبادی پر صحت کے مسائل کا بوجھ مزید بڑھ گیا ہے۔

پینے کے پانی کا بحران صرف ساحلی علاقوں تک محدود نہیں بلکہ کراچی، حیدرآباد، اور ٹھٹہ جیسے بڑے شہروں کو بھی متاثر کر رہا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی 90 فیصد پانی کی ضروریات دریائے سندھ سے پوری ہوتی ہیں، جس کا بنیادی ذریعہ کینجھر جھیل ہے، جو خود دریائے سندھ پر انحصار کرتی ہے۔

کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے تاریخی ریکارڈ کے مطابق، 1990 کی دہائی میں کراچی کو روزانہ 650 ملین گیلن (MGD) پانی فراہم کیا جاتا تھا، لیکن دریائے سندھ کے بالائی علاقوں میں پانی کے بہاؤ کو موڑنے اور کم ہونے کی وجہ سے یہ مقدار حالیہ برسوں میں 500 MGD سے بھی کم ہو چکی ہے، جبکہ شہر کی پانی کی طلب مسلسل بڑھ رہی ہے۔

اسی طرح، حیدرآباد اور ٹھٹہ، جو دریائے سندھ پر انحصار کرتے ہیں، بھی اسی طرح کی پانی کی قلت کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے لوگ آلودہ مقامی ذرائع پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں، اور یوں عوامی صحت کا بحران مزید شدت اختیار کر رہا ہے۔

سمندری پانی کی دراندازی کی وجہ سے سندھ ڈیلٹا کی بگڑتی ہوئی حالت ایک سنگین ماحولیاتی بحران بن چکی ہے۔ تازہ پانی کی کمی، بڑھتی ہوئی مٹی اور پانی کی نمکیات، اور اس کے نتیجے میں زرعی شعبے کا زوال لاکھوں لوگوں کو بے گھر ہونے اور پانی کی عدم دستیابی کے خطرے سے دوچار کر رہا ہے۔

فوری اقدامات جیسے کہ:

کوٹری بیراج سے نیچے تازہ پانی کے بہاؤ میں اضافہ

سمندری پانی کی روک تھام کے لیے حفاظتی بند باندھنا

پائیدار زرعی طریقے اپنانا

یہ تمام اقدامات مزید تباہی کو روکنے اور کبھی سرسبز و شاداب رہنے والے اس ماحولیاتی نظام کو بچانے کے لیے ناگزیر ہیں۔

اس کے علاوہ، پالیسی سازی میں مقامی کمیونٹیز کی شمولیت کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے تاکہ پائیدار حل تلاش کیے جا سکیں۔

بشکریہ ڈان نیوز۔
ترجمہ: امر گل

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close