کیا فوسل فیول کا استعمال مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے؟

ویب ڈیسک

کیا آپ جانتے ہیں کہ آرام کرتے ہوئے نیٹ فلیکس پر فلمیں دیکھنے، ملازمت کے لیے روزانہ گاڑی میں سفر کرنے اور فولادی فریم سے تیار کردہ کسی بلند عمارت میں بیٹھنے میں آخر کیا چیز مشترک ہے؟ فوسل فیول سے حاصل ہونے والی توانائی۔

زمین پر پائی جانے والی توانائی کو ہم بنیادی طور پر دو اقسام میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک ’ناقابلِ تجدید‘ یعنی ’نان ری نیوایبل‘ اور دوسری ’قابل تجدید‘ یعنی ’ری نیوایبل سورسز آف انرجی‘۔

ہم جو توانائی استعمال کرتے ہیں اس کا زیادہ تر حصہ ہمیں فوسل فیولز کی صورت میں ملتا ہے۔ فوسل فیولز میں کوئلہ، پیٹرولیم اور قدرتی گیسں شامل ہے۔ یہ سب زمین سے حاصل ہوتے ہیں لیکن ایک مرتبہ یہ استعمال ہو گئے تو پھر ہمیشہ کے لئے گئے۔ اسی بنا پر انہیں توانائی کے ناقابلِ تجدید ذرائع کہا جاتا ہے۔

یورینیم کا شمار بھی توانائی کے ناقابلِ تجدید ذرائع میں ہوتا ہے لیکن یہ فوسل فیول نہیں ہے۔ یورینیم کو ایک ایندھن میں بدلا جاتا ہے اور نیو کلیئر پاور پلانٹس میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں بھی یورینیم استعمال ہونے پر ختم ہو جاتا ہے اور جو کچھ باقی بچتا ہے، وہ جوہری فضلہ ہے۔

توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع سے مراد ایسے ذرائع ہیں، جو استعمال کے ساتھ کم نہیں ہوتے بلکہ انہیں بار بار استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ ان ذرائع میں شمسی توانائی، ہوا، جیو تھرمل انرجی، بائیو ماس اور ہائیڈرو پاور شامل ہیں۔ ان ذرائع کے استعمال سے آلودگی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ انہیں جمع کرنے اور تیار کرنے میں بھی ناقابلِ تجدید ذرائع کی نسبت نقصان کا احتمال نہ ہونے کے برابر ہے۔

شمسی توانائی یعنی سولر انرجی سورج سے حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح جن ممالک میں تیز ہوائیں چلتی ہیں، وہاں جہازی سائز کی پون چکیاں یعنی ونڈ ملز لگائی جا رہی ہیں اور ان کی مدد سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ جیو تھرمل انرجی زمین کی تہہ سے آتی ہے۔ انجینئر زمین کی تہہ سے بھاپ یا انتہائی گرم پانی نکالتے ہیں اور اس سے پیدا ہونے والی بھاپ سے بجلی پیدا کرتے ہیں۔ بائیو ماس میں قدرتی پروڈکٹس شامل ہیں، جیسے لکڑی یا خشک کر کے جلائے جانے والے دیگر پودے۔ انہیں جلا کر حرارت حاصل کی جاتی ہے۔ ڈیموں اور دریائوں سے ہائیڈرو پاور پیدا کی جاتی ہے جب پانی ڈیم میں سے گزرتا ہے تو اس سے ٹربائن ایکٹویٹ ہوتی ہے جو بجلی کے جنریٹرز کو چلاتی ہے۔

اسٹیل اور سیمنٹ بنانے کے صعنتی عمل سے لے کر گھروں کو بجلی فراہم کرنے تک ہر کام میں تیل، کوئلہ اور گیس استعمال ہوتا ہے اور یہ دنیا کی 80 فیصد توانائی کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ فوسل فیول کے جلنے سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسیں، کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کے علاوہ شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ بھی ہیں

سائنسدانوں کے مطابق اگر معاہدہ پیرس پر عمل درآمد پر دنیا سنجیدہ ہے، تو اسے سن 2030 تک فوسل فیول کے استعمال کو تقریباً 43 فیصد تک کم کرنا ہوگا۔ اس معاہدے میں کرہِ ارض کے درجہِ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود رکھنے کے لیے اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

فوسل فیول کو ترک کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کی موجودگی

’انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سسٹیین ایبل ڈیویلپمنٹ‘ نامی تھنک ٹینک سے تعلق رکھنے والے انرجی پالیسی کی مشیر نتالی جونز کے مطابق، ”فوسل فیولز کے استعمال کو عالمی اور ملکی سطح پر ترک کرنا مکمل طور پر ممکن ہے۔‘‘

امریکہ میں قائم ایک این جی او یونین آف کنسنرنڈ سائنٹسٹس کی ماحولیات اور توانائی سے متعلق پالیسی ڈائریکٹر رچل کلیسٹس کہتی ہیں، ”ہم اس دہائی میں فوسل فیول کو مکمل طور پر ترک کرنے کا آغاز اسے بتدریج ترک کرنے سے کرسکتے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا ہے، ”ہم قابل تجدید توانائی کے استعمال میں تیزی سے اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں الیکٹرک گاڑیاں نظر آرہی ہیں اور توانائی ذخیرہ کرنے کی لاگت سال بہ سال دوہرے ہندسوں میں کم ہوتی جارہی ہے۔‘‘

اگرچہ فوسل فیول سے اب بھی دنیا میں توانائی کی 80 فیصد ضروریات پوری ہوتی ہیں، قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور قیمتیں تیزی سے نیچے آرہی ہیں۔گزشتہ دہائی کے دوران شمسی توانائی کی قیمتیں 90 فیصد جبکہ پون چکی سے حاصل کردہ توانائی کی قیمت 69 فیصد کم ہوئی ہیں اور اب ان کی قیمتیں سستے ترین فوسل فیول کی قیمت سے بھی نصف ہیں۔

لندن اسکول آف اکنامکس میں اسسٹنٹ پروفیسر برائے ماحولیاتی اکنامکس، آؤریلین سواسے کا کہنا ہے، ”اسے حاصل کرنے کے لیے ہمارے پاس بنیادی اور ضروری ٹیکنالوجی بھلے ہی ابھی تیار ہو یا اس کی تیاری 25 برسوں میں ہونے کی توقع رکھیں، مسئلہ یہ ہے کہ اس کے لیے سیاسی عزم اور سرمایہ کاری ابھی تک موجود نہیں۔‘‘

امیر ممالک کو جلدی اور پہل کرنا ہوگی

سن 2023 میں دنیا کی 63 بڑی معیشتوں کے کیے جانے والے تجزیے کے مطابق یہ عالمی سطح پر ہونے والی مضر گیسوں کے 90 فیصد اخراج کی ذمہ دار ہیں اور ان میں سے کوئی بھی ملک شدید موسمیاتی اثرات میں کمی کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر رہا۔

یونیورسٹی کالج لندن میں انرجی سسٹم کے پروفیسر، اسٹیو پائی کے مطابق فوسل فیول سے بتدریج چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے یہ اہم ہے کہ تبدیلی کو یقینی بنایا جائے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ”منصفانہ مرحلہ کس طرح نظر آتا ہے؟ یہ امیر ممالک پر منحصر ہے جن کا فوسل فیول پر انحصار کم ہے اور وہ بڑی معیشتوں کے حامل ہیں۔ انہیں رہنما کا کردار ادا کرنا چاہیے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے لیے معیشت کا سیاسی پہلو نہایت مشکل ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close