’بچوں کو ہوشیار رہنا چاہیے‘ ٹیکساس حملہ آور راموس انتہائی اقدام اٹھانے تک کیسے پہنچا؟

ویب ڈیسک

امریکی ریاست ٹیکساس کے علاقے وولواڈے کے ایک ایلیمنٹری اسکول میں 24 مئی کو ہونے والے خونریز واقعہ پیش آیا، جس میں ایک اٹھارہ سالہ نوجوان راموس سان انتونیو نے اُنیس بچوں اور دو اساتذہ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا

ریاست کے گورنر گریگ ایبٹ نے راموس کو ’برائی کا چہرہ‘ قرار دیا ہے، جنہیں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے موقعے پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا

راموس سان انتونیو سے اَسی میل دور ایک چھوٹے سے قصبے کے رہائشی اور یووالڈی ہائی اسکول میں زیر تعلیم تھا

ٹیکسس کے سینیٹر رولینڈ گٹیریز نے صحافیوں کو بتایا کہ نوجوان نے حملے سے قبل سوشل میڈیا پر اشارہ دیا تھا کہ وہ حملہ کر سکتا ہے

سینیٹر کے بقول حملہ آور نے سوشل میڈیا پر لکھا تھا ”بچوں کو ہوشیار رہنا چاہیے“

گورنر ایبٹ کے مطابق راموس نے فیسبک پر یہ بھی لکھا: ’میں ایک ایلیمنٹری اسکول میں فائرنگ کرنے جا رہا ہوں۔‘

تاہم فیسبک نے اس دعوے پر اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پیغامات ”نجی ون ٹو ون ٹیکسٹ میسجز تھے، جو خوفناک سانحے کے بعد سامنے آئے تھے“

اٹھارہ سالہ نوجوان نے منگل کی دوپہر اسکول میں فائرنگ سے قبل فیملی ٹرک چوری کرنے اور ایلیمنٹری اسکول جانے سے پہلے اپنی نانی کے چہرے کو بھی گولی سے نشانہ بنایا۔ زخمی خاتون نے خود پولیس کو کال کی، جس کے بعد انہیں تشویش ناک حالت میں ہسپتال لے جایا گیا

کہا جاتا ہے کہ راموس اس کے بعد اسکول کے باہر مذکورہ ٹرک چھوڑ کر اندر داخل ہو گئے

پولیس اپ ڈیٹس کے مطابق اسکول کھلا ہوا تھا اور حملہ آور کو روکنے کے لیے کوئی پولیس افسر موجود نہیں تھا

ٹیکسس ڈپارٹمنٹ آف پبلک سیفٹی کے کرسٹوفر اولیواریز نے بتایا: ’مشتبہ شخص اسکول میں داخل ہوا اور بچوں اور اساتذہ سمیت جو بھی راستے میں آیا، اس نے سب پر فائرنگ کردی۔‘

ایلیٹ بارڈر پیٹرول کمانڈوز، کاؤنٹی ڈپٹیز اور مقامی پولیس افسران پر مشتمل ایک ٹیم بالآخر ایک گھنٹے بعد کمرے میں داخل ہوئی اور بارڈر پٹرولنگ ایجنٹ نے راموس کو گولی مار کر ہلاک کر دیا

ٹیکسس کے حکام نے بدھ کو ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ہلاک ہونے والے اکیس افراد کے علاو راموس کے حملے میں مزید سترہ افراد زخمی بھی ہوئے۔ ان سب کو سنگین زخم نہیں آئے اور ان کی زندگیاں خطرے سے باہر ہیں

راموس نے اپنی اٹھارہویں سالگرہ کے موقع پر دو AR-15 طرز کی رائفلیں قانونی طور پر خریدیں، جن میں سے ایک انہوں نے فائرنگ کے واقعے میں استعمال کی

رولینڈ گٹیریز نے کہا: ’یہ وہ پہلا کام تھا جو انہوں نے اپنی اٹھارہویں سالگرہ پر کیا‘

’دا ڈیلی ڈاٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق راموس کے انسٹاگرام پر ایک دوست نے بتایا کہ انہوں نے اسے اسلحہ بنانے والی کمپنی ’ڈینیئل ڈیفنس‘ سے خریدی گئی اس بندوق کی رسید کی تصویر بھیجی تھی

خبر رساں اداروں کی جانب سے شناخت کردہ راموس کے ایک انسٹاگرام اکاؤنٹ پر موجود اسلحے کی تصویروں سے ایسا لگتا ہے کہ یہ نیم خودکار ہتھیار ہے

ان کے ایک سابق کلاس فیلو نے بتایا کہ راموس نے حملے سے چند دن پہلے انہیں اسلحے اور گولیوں سے بھرے بیگ کی تصاویر بھیجی تھیں

سابق ہم جماعت نے کہا: ’وہ مجھے ادھر ادھر کے میسج کرتا رہا اور چار دن پہلے انہوں نے مجھے اے آر (گن) کی ایک تصویر بھیجی، جسے وہ استعمال کر رہا تھا اور 5.56 راؤنڈز سے بھرا ایک بیگ۔ شاید یہ سات میگزین جتنی گولیاں تھیں‘

انہوں نے مزید کہا ’میرا ردعمل کچھ اس طرح تھا کہ بھائی یہ آپ کے پاس کیوں ہے؟‘ جس پر انہوں نے جواب دیا: ’اس کی فکر نہ کریں۔‘ انہوں نے مجھے بعد میں ٹیکسٹ کیا کہ ’میں اب بہت مختلف نظر آ رہا ہوں۔ تم مجھے نہیں پہچان پاؤ گے‘

گورنر ایبٹ کے مطابق ٹیکسس کے عہدیداروں نے بدھ کو بتایا کہ راموس کا کوئی مجرمانہ یا ذہنی صحت کے مسائل کے حوالے سے کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور یہ کہ حملے سے ٹھیک پہلے بھیجے گئے پیغامات کے علاوہ ان کے جرم کے حوالے سے کوئی واضح وارننگ نہیں تھی

تاہم جو لوگ راموس کو جانتے تھے وہ انہیں شدید پریشانی میں مبتلا شخص کے طور پر پیش کرتے ہیں

دوستوں اور رشتہ داروں نے کہا ہے کہ راموس کو اسکول میں بُلی (Bully) یعنی تنگ کیا جاتا تھا۔ وہ اس غصے میں اپنا چہرہ نوچ لیتا، مختلف لوگوں پر بی بی گن (کھلونا بندوق) سے فائر کرتا اور مہلک حملے سے قبل کئی سالوں تک کاروں پر انڈے پھینکتا رہا

خاندان اور دوستوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کی گھریلو زندگی مشکلات کا شکار تھی۔ بچپن میں بولنے میں ہکلانے پر انہیں تنگ کیا جاتا تھا۔ انہوں نے حال ہی میں اور کئی سالوں کے دوران اپنے دوستوں، اجنبیوں اور اپنی والدہ تک کے ساتھ پرتشدد برتاؤ کا مظاہرہ کیا تھا

اٹھارہ سالہ سینٹوس ویلڈیز جونیئر نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ وہ راموس کو اسکول کے ابتدائی دنوں سے جانتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس وقت تک دوست رہے جب تک کہ راموس کا رویہ انتہائی برا نہیں ہو گیا

راموس کے تبدیل ہونے سے پہلے وہ ایک ساتھ وڈیو گیمز کھیلتے تھے

ویلڈیز نے ایک واقعے کے بارے میں بتایا جب راموس ایک پارک میں پہنچا، جہاں وہ باسکٹ بال کھیلتا تھا، اس وقت اس کے پورے چہرے پر کٹ لگے تھے، جس کے بارے میں راموس نے بتایا کہ اسے بلی نے نوچ لیا ہے

ویلڈیز نے کہا: ’پھر راموس نے مجھے سچ بتایا کہ انہوں نے چھری کے کئی وار کرکے اپنا چہرہ کاٹ لیا۔ میں نے پوچھا کیا تم پاگل ہو؟ تم ایسا کیسے کر سکتے ہو؟‘ راموس نے کہا کہ ’اس نے یہ تفریح کے لیے کیا تھا۔‘

دوستوں اور خاندان کے افراد نے بتایا کہ راموس کو مڈل اسکول اور جونیئر ہائی میں ان کے ہکلانے اور تقریر میں الفاظ کی ادائیگی میں درستی نہ ہونے کی وجہ سے تنگ کیا جاتا تھا۔ آٹھویں جماعت میں خود کو راموس کا بہترین دوست سمجھتے والے اسٹیفن گارسیا نے کہا کہ انہیں اسکول میں تلخ تجربے کا سامنا تھا

گارسیا نے ’دی پوسٹ‘ کو بتایا: ’انہیں بہت زیادہ تنگ کیا جاتا۔ جیسے بہت سے لوگ انہیں ہراساں کرتے تھے۔ سوشل میڈیا پر، گیمنگ پر، ہر چیز پر۔ وہ سب سے اچھا لڑکا تھا، سب سے زیادہ شرمیلا بچہ۔ انہیں صرف اپنے خول سے باہر نکلنے کی ضرورت تھی‘

گارسیا نے بتایا کہ راموس نے ایک بار بلیک آئی لائنر کے ساتھ اپنی ایک تصویر پوسٹ کی تھی، جس پر بڑی تعداد میں تبصرے کیے گئے تھے، جن میں ہم جنس پرستوں کے لیے توہین آمیز زبان بھی شامل تھی

گارسیا نے کہا کہ انہوں نے راموس کا دفاع کرنے کی کوشش کی لیکن جب وہ اپنی والدہ کے ٹرانسفر کی وجہ سے ٹیکسس کے کسی دوسرے علاقے میں منتقل ہو گیا تو راموس ایک مختلف انسان بنتا چلا گیا

گارسیا نے کہا: ’وہ بد سے بدتر ہوتا چلا گیا۔ میں اس سے زیادہ نہیں جانتا۔‘

جب گارسیا وہاں سے منتقل ہوئے، تو راموس نے بھی اسکول چھوڑ دیا۔ وہ ہر وقت سیاہ لباس پہننے لگا۔ اس نے اپنے بالوں کو بڑھایا اور فوجی جوتے استعمال کرنے لگا

راموس کے کلاس فیلوز نے بتایا کہ اس نے اپنے کئی تعلیمی سال ضائع کر دیے اور اس لیے وہ دوسرے کلاس فیلوز کے ساتھ گریجویشن نہیں کر پایا

راموس کی کزن میا نے اپنا آخری نام استعمال نہ کرنے کی شرط پر ’دی پوسٹ‘ کو بتایا کہ ’ہکلانے کے باعث اسے بہت زیادہ تنگ کیا جاتا تھا، جس کی وجہ سے وہ دوسروں سے زیادہ گھلتا ملتا نہیں تھا۔‘

میا نے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ وہ اسکول میں خود کو زیادہ آرام دہ محسوس نہیں کرتا تھا۔‘

ویلڈیز نے کہا کہ راموس نے تقریباً ایک سال قبل سوشل میڈیا پر خودکار رائفلوں کی تصاویر پوسٹ کی تھیں، جو شاید اس کی وش لسٹ میں شامل رہی تھیں۔ اس نے چار دن پہلے دو رائفلوں کی تصاویر پوسٹ کیں، جنہیں راموس نے ’میری بندوق کی تصویر‘ کے طور پر بیان کیا

ہائی اسکول میں راموس کی کلاس فیلو نادیہ رئیز نے ’دی پوسٹ‘ کو بتایا کہ راموس نے دو ماہ قبل ایک انسٹاگرام سٹوری پوسٹ کی تھی، جس میں اسے اپنی والدہ پر چیختے ہوئے دکھایا گیا تھا، جو اس کے بقول اسے گھر چھوڑنے کا کہہ رہی تھیں۔“

نادیہ رئیز نے کہا ’اس نے اپنے انسٹاگرام پر وڈیوز پوسٹ کیں جس میں پولیس اہلکار موجود تھے اور وہ اپنی ماں کو گالی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ انہیں گھر سے باہر نکالنا چاہتی ہیں۔ وہ چیخ رہا تھا اور اپنی والدہ سے واقعی جارحانہ انداز میں بات کر رہا تھا۔‘

اس کے پڑوسی اکتالیس سالہ روبن فلورس نے اخبار کو بتایا کہ راموس کے اپنی والدہ کے ساتھ بہت مشکل تعلقات تھے

فلورس نے کہا کہ ان کے درمیان مسائل برسوں کے دوران مزید گہرے ہوگئے کیونکہ پڑوسیوں نے ماں اور بیٹے کے درمیان لڑائیاں اور پولیس کو ان کے دروازے پر دیکھا تھا

فلورس نے کہا کہ راموس چند ماہ قبل اپنی ماں کا گھر چھوڑ کر اپنی نانی کے ساتھ رہنے لگا تھا۔ وہ گھر بھی ان کی نانی کی ملکیت تھا، جہاں راموس کی والدہ رہتی تھیں

نادیہ رئیز نے کہا کہ انہیں مڈل سکول اور جونیئر ہائی اسکول میں راموس کی لگ بھگ پانچ لوگوں سے ہاتھا پائی یاد ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کی اپنے دوستوں کے ساتھ زیادہ دیر تک دوستی قائم نہیں رہتی تھی

اس نے ایک بار ایک دوست سے کہا کہ وہ میرینز میں اس لیے شامل ہونا چاہتا ہے کیوں کہ اس سے وہ لوگوں کو ہلاک کرنے کے قابل بن سکتا تھا، جس پر اس لڑکے نے اس سے دوستی ختم کر دی

نادیہ رئیز نے دی پوسٹ کو بتایا: ’وہ چیزوں کو بہت آگے لے جاتا تھا۔ کچھ ایسا کہہ جاتا جو نہیں کہنا چاہیے اور پھر وہ اس کے بارے میں دفاعی انداز اختیار کر لیتا۔‘

ویلڈیز نے بتایا کہ راموس کے ساتھ ان کی آخری بات چیت شوٹنگ سے تقریباً دو گھنٹے قبل ہوئی تھی۔ اس نے انسٹاگرام اسٹوریز کے ذریعے میسج کیا، جب ویلڈیز نے ایک میم شیئر کی، جس میں کہا گیا تھا کہ ’اسکول ابھی تک کیوں کھلا ہے‘

ایک اسکرین شاٹ میں راموس کا جواب ’فیکٹس‘ اور ’یہ اچھی بات ہے، ٹھیک ہے؟‘ تحریر ہے

ویلڈیز نے اس کا جواب لکھا: ’میں اسکول نہیں گیا ہوں،‘ لیکن انہوں نے اخبار کو بتایا کہ راموس نے اس پیغام کو کبھی نہیں دیکھا

گارسیا نے اخبار کو اس لمحے کے بارے میں بتایا جب انہیں شوٹنگ کے بارے میں پتہ چلا: ’میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ میں کسی سے اس بارے میں بات بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میں کلاس سے باہر نکلا۔ میں واقعی پریشان تھا۔ میری آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ مجھے کبھی توقع نہیں تھی کہ وہ لوگوں کو تکلیف پہنچا سکتا ہے۔‘

’مجھے لگتا ہے کہ اسے ذہنی مدد کی ضرورت تھی اور اپنے خاندان کے ساتھ مزید قربت اور محبت کی بھی۔‘

حکام کا کہنا ہے کہ بندوق بردار کو ایلیٹ بارڈر پیٹرول ٹیکٹیکل ٹیم کے ارکان نے ہلاک کیا

راموس نے خود کو یووالڈی کے روب ایلیمنٹری سکول کے دو کمروں کے کلاس روم میں بند کر لیا تھا، جہاں اس نے متاثرین کو قتل کیا اور پھر کھڑکیوں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر فائرنگ کی

قانون نافذ کرنے والے ذرائع نے وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا کہ بارڈر پیٹرول کی بورٹیک ٹیم کے ارکان نے سان انتونیو سے 80 میل مغرب میں واقع قصبے میں واقع اسکول میں جوابی کارروائی کی لیکن اسٹیل کے دروازے اور عمارت کے کنکریٹ کے بلاک کی وجہ سے وہ کلاس روم میں داخل نہیں ہوسکے

ٹیم نے حملہ آور پر گولی چلائی جو دروازے اور کلاس روم کی دیواروں سے ان پر گولیاں برسا رہا تھا

بورٹیک ٹیم اسکول کے پرنسپل سے ماسٹر کی (متبادل چابی) ملنے کے بعد کلاس روم میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئی

ٹیم کے کلاس روم میں داخل ہوتے ہی بورٹیک کے ایک ایجنٹ نے اپنی شیلڈ سے گولیاں کو روکا، دوسرا ایجنٹ حملہ آور کی گولی سے زخمی ہوگیا جبکہ تیسرے ایجنٹ نے راموس کو گولی مار کر ہلاک کر دیا

حکام نے اخبار کو بتایا کہ کلاس رومز کے اندر ایجنٹوں کو متعدد مردہ بچے ڈھیر کی شکل میں ملے

اے ٹی ایف کا کہنا ہے کہ راموس نے 17 مئی اور 20 مئی کو قانونی طور پر دو رائفلز خریدی۔ ایک رائفل اس کے ٹرک میں رہ گئی تھی جب کہ ’ڈینیل ڈیفنس‘ کمپنی کی دوسری رائفل اسکول سے ملی

راموس نے 18 مئی کو 5.56 بور کے 375 راؤنڈ خریدے

گورنر گریگ ایبٹ نے انکشاف کیا کہ راموس نے اپنے مہلک حملے سے پندرہ منٹ پہلے فیسبک پر پوسٹ میں لکھا کہ وہ ’ایک پرائمری اسکول میں فائرنگ کرنے والا ہے۔‘

حکام کے مطابق حملے سے پہلے اس کا ماضی میں کوئی مجرمانہ ریکارڈ یا دماغی صحت کی معلومات نہیں تھیں

گورنر ایبٹ نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ راموس نے حملے سے پہلے براہ راست تیس منٹ میں تین بار سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کیا تھا

پہلی پوسٹ میں اس نے لکھا: ’میں اپنی نانی کو گولی مارنے جا رہا ہوں۔‘ دوسرا پیغام تھا: ’میں نے اپنی نانی کو گولی مار دی ہے۔‘ اور تیسرا، جو حملہ شروع ہونے سے ٹھیک پہلے کیا گیا: ’میں ایک پرائمری اسکول میں فائرنگ کرنے جا رہا ہوں۔‘

عہدیداروں نے نشاندہی کی کہ راموس نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ سولہ ہزار آبادی والے شہر میں کون سے ایلیمنٹری اسکول پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ شہر سان انتونیو سے 80 میل مغرب میں واقع ہے

دوسری جانب فیسبک کی ملکیتی کمپنی میٹا کے ترجمان اینڈی اسٹون نے گورنر کے دعوؤں کو مسترد کیا ہے

انہوں نے کہا: ’گورنر ایبٹ نے جن پیغامات کو بیان کیا وہ ون ٹو ون ذاتی ٹیکسٹ پیغامات تھے جو خوفناک سانحے کے رونما ہونے کے بعد سامنے آئے تھے۔ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ان کی جاری تحقیقات میں قریبی تعاون کر رہے ہیں۔‘

جرمنی سے تعلق رکھنے والی ایک پندرہ سالہ لڑکی نے نیویارک ٹائمز کو بتایا ہے کہ راموس نے شوٹنگ سے ٹھیک پہلے انہیں ٹیکسٹ میسج کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ’میں ابھی ایک پرائمری اسکول میں فائرنگ کے لیے جا رہا ہوں۔‘

سیس نامی لڑکی نے اخبار کو بتایا کہ انہیں صبح 11 بج کر 21 منٹ پر یہ پیغام موصول ہونے کے فوری بعد ایک پیغام موصول ہوا، جس میں راموس نے لکھا تھا: ’میں نے ابھی اپنی نانی کے سر میں گولی ماری ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ راموس سے کئی ہفتے قبل لائیو اسٹریمنگ ایپ یوبو پر ملی تھیں اور انہوں نے رواں ماہ کے آغاز پر انہیں بندوق کی دکان سے وڈیو میسج کیا تھا، جہاں اس نے بتایا تھا کہ وہ ایک AR-15 رائفل خرید رہا ہے

سیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے کسی کو خبردار نہیں کیا لیکن جب قتل عام کی خبر بریک ہوئی تو امریکہ میں ایک دوست نے ان کی طرف سے حکام سے رابطہ کیا

راموس کے نانا کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ راموس کے گھر میں اتنی طاقتور رائفلیں موجود ہیں

رولینڈو رئیز نے اے بی سی نیوز کو بتایا: ’میں نہیں جانتا تھا کہ ان کے پاس ہتھیار ہیں۔ اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں حکام کو اس کی اطلاع دیتا۔‘

راموس نے خاندان کی کار چوری کرنے اور روب ایلیمنٹری اسکول جانے سے پہلے اپنی چھیاسٹھ سالہ نانی کے سر میں گولی مار دی تھی

ان کے بقول: ’میں یہ ابھی تک قبول نہیں کر پایا۔‘

راموس کی نانی، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ چھیاسٹھ سالہ سیلیا مارٹینیز گونزالیز ہیں، کی حالت تشویش ناک ہے لیکن وہ زندہ ہیں

خاندان کے مطابق راموس اپنی والدہ کے ساتھ علیحدگی کے بعد اپنے نانا نانی کے ساتھ رہ رہا تھا۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں اکیلے گزارتا اور وڈیو گیمز کھیلتا تھا

انہوں نے کہا: ’وہ بہت خاموش طبعیت تھا اور زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔‘

نانا نے کہا کہ وہ کبھی کبھی راموس کو اپنے ساتھ کام کے لیے لے جاتے تھے کیونکہ وہ اکثر اسکول سے غیر حاضر رہتا تھا اور وہ گریجویشن کے لیے تیار نہیں تھا۔‘

حملہ آور راموس کی والدہ نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا بیٹا ’تشدد پسند نہیں تھا‘

ایڈریانا رئیز نے ڈیلی میل کو بتایا کہ وہ اس واقعے پر ’حیران‘ تھیں کہ ان کے اٹھارہ سالہ بیٹے نے یووالڈی کے روب ایلیمنٹری سکول پر دھاوا بول کر اکیس افراد کا قتل عام کیا

اس وقت انتالیس سالہ ایڈریانا اپنی والدہ سیلیا مارٹینیز گونزالیز کے ہسپتال کے کمرے میں موجود تھیں، جنہیں ان کے پوتے نے امریکی تاریخ کی سب سے مہلک ترین اسکول فائرنگ سے پہلے چہرے پر گولی مار دی تھی

انہوں نے سان انتونیو ہسپتال سے ڈیلی میل کو بتایا: ’میرا بیٹا پُرتشدد شخص نہیں تھا۔ میں حیران ہوں کہ اس نے یہ کیا کیا۔‘

’میں متاثرین کے خاندانوں کے لیے دعاگو ہوں۔ میں ان تمام معصوم بچوں کے لیے دعاگو ہوں۔ ہاں میں دعاگو ہوں۔ ان (بچوں) کا اس میں کوئی قصور نہیں تھا۔‘

ایڈریانا رئیز کہتی ہیں کہ انہوں نے آخری بار اپنے بیٹے کو گذشتہ پیر کو ان کی سالگرہ کے موقع پر دیکھا تھا، جہاں انہوں نے انہیں ایک سنوپی ٹوائے اور ایک کارڈ تحفے میں دیا تھا

انہوں نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ ان کے درمیان خراب تعلقات تھے حالانکہ وہ ان کو چھوڑ کر اپنی نانی کے پاس رہنے چلا گیا تھا

انہوں نے اس بارے میں بتایا: ’میرے راموس کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ وہ تنہا پسند تھے۔ ان کے زیادہ دوست نہیں تھے۔‘

اطلاعات کے مطابق راموس اور اس کی نانی کے درمیان یووالڈی ہائی اسکول سے گریجویشن کے بارے میں لڑائی ہوئی، جس کے بعد راموس نے اپنی نانی کو چہرے میں گولی مار دی۔ل

میڈیا ادارے ’نیوزی‘ سے منسلک جون مون کی رپورٹنگ کے مطابق، ایڈورڈو ٹریڈیڈ نامی ہمسائے نے بتایا کہ راموس اس بات پر غصے میں تھا کہ وہ ہائی اسکول سے گریجویٹ نہیں ہو رہا اور شوٹنگ کی صبح اس کی اپنی نانی سے تلخ کلامی ہوئی

بدھ کی صبح تک اس کی نانی کی حالت نازک تھی اور وہ سان انتونیو میں ایک ہسپتال میں زیرعلاج تھیں

راموس یووالڈی ہائی اسکول میں زیر تعلیم تھا مگر وہ اپنے باقی ساتھیوں کے ساتھ اس سال گریجویٹ ہونے کی راہ پر نہیں تھا

حکام کا کہنا ہے کہ پولیس کے ہاتھوں مارے جانے سے قبل شوٹر ایک گھنٹے تک اسکول کے اندر رہا تھا

عینی شاہدین نے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا تھا کہ انہوں نے حملے کے دوران پولیس افسران پر زور دیا تھا کہ وہ روب ایلیمنٹری سکول میں داخل ہوں

قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر تنقید بھی کی جا رہی ہے اور ان پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے فوری ایکشن نہیں لیا

پولیس نے دیر سے ایکشن لینے اور کسی بھی ’ہچکچاہٹ‘ کی تردید کی ہے

چوبیس سالہ عینی شاہد ہوان کرانزا نے کہا کہ راموس نے اپنا ٹرک اسکول کے باہر ایک کھائی میں کریش کیا تھا اور اپنی اے آر 15 سٹائل نیم خود کار رائفل سے ایک قریبی مردہ خانے کے باہر کھڑے دو لوگوں پر گولیاں چلائیں جو زخمی ہوئے بغیر وہاں سے بچ نکلے

انہوں نے بتایا کہ ایک خاتون نے پاس کھڑے پولیس اہلکاروں سے چلا کر کہا: ’اندر جاؤ، اندر جاؤ‘، مگر وہ نہیں گئے

امریکی ایوان نمائندگان کے رکن ٹونی گوزالیز، جن کے حلقے میں یووالڈی آتا ہے، نے سی این این کو بتایا کہ طلبہ اور اساتذہ پر فائرنگ کے بعد راموس اور پولیس اہلکاروں کے درمیان ایک گھنٹے تک اسٹینڈ آف رہا

انہوں نے بتایا کہ تیس منٹ کے لیے اس کی کارروائی میں تعطل آیا جس میں پولیس اہلکاروں کو لگا کہ راموس نے خود کو رکاوٹوں کے پیچھے چھپا لیا ہے

گونزالیز نے کہا: ’پھر فائرنگ رک گئی اور وہ اندر چھپ گیا۔ تب کچھ دیر کے لیے اس کی کارروائی میں وقفہ آیا۔ میری سمجھ کے مطابق یہ سب ایک گھنٹے تک چلا، مگر یہاں تیس منٹ کا تعطل تھا۔ انہیں لگا کہ انہوں نے اسے اندر گھیر لیا ہے اور باقی طلبہ اب جا رہے ہیں۔‘

ڈپارٹمنٹ آف پبلک سیفٹی کے کرسٹوفر اولیوریزن نے بتایا کہ راموس نے ’اپنے آپ کو ایک کلاس روم میں تالا لگا کر بند کر لیا اور اندر موجود طلبہ اور اساتذہ پر فائرنگ کی۔‘

انہوں نے کہا: ’اس سے شوٹر کی مکمل برائی ظاہر ہوتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ راموس کا خود کو اندر بند کر لینا پولیس اہلکاروں کے لیے نقصان دہ ہوا اور انہوں نے اعتراف کیا کہ موقعے پر موجود اہلکار ناکافی تھے

انہوں نے سی این این کو بتایا: ’اس وقت عملہ ناکافی تھا اور ان کا مرکزی مقصد مزید جانوں کے نقصان کو روکنا تھا۔ اس سب کے دوران انہوں نے سکول کی کھڑکیاں توڑنا شروع کیں اور بچوں اور اساتذہ کو وہاں سے نکالنا شروع کیا۔‘

یو ایس بارڈر پیٹرول کے سربراہ راول آورٹز نے کہا کہ ادارے کے ایجنٹ تب جائے وقوعہ پر پہنچے جب پولیس اور حملہ آور کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہو رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بارڈر پیٹرول کی ٹیکٹیکل ٹیم اور مقامی افسران کی مشترکہ ٹیمیں شوٹر کے پیچھے گئیں

اس کا کہنا تھا: ’وہ ہچکچائے نہیں۔ انہوں نے منصوبہ بنایا۔ وہ کلاس روم میں داخل ہوئے اور انہوں نے جتنی جلدی ہو سکتا تھا صورت حال کو قابو میں کیا۔‘

دوسری جانب تحقیقات سے واقف ایک قانون نافذ کرنے والے اہلکار نے بتایا کہ بارڈر پیٹرول ایجنٹس کو کلاس روم کا دروازہ کھولنے میں مشکل ہوئی اور اسکول کے عملے کے ایک رکن کو اپنی چابی سے دروازہ کھول کر دینا پڑا

یہ رپورٹ کیا گیا ہے کہ راموس کو آخر کار گولی مارنے والے ایک بارڈر پیٹرول ایجنٹ ہی تھے

واضح رہے کہ اُنیس طالب علموں اور دو اساتذہ کی ہلاکت 2012ع میں کنیکٹیکٹ ریاست کے نیو ٹاؤن کے سینڈی ہک ایلیمنٹری اسکول میں بڑے پیمانے پر فائرنگ کے بعد کسی بھی ایلیمنٹری اسکول پر سب سے مہلک حملہ ہے۔ نیو ٹاؤن حملے میں بیس طلبہ اور چھ اساتذہ کی جانیں گئی تھیں

امریکی صدر جو بائیڈن نے قوم کو بتایا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ’اس درد کو عملی اقدام میں بدل دیا جائے‘ اور فائرنگ سے قتل عام کے بعد گن قوانین کو تبدیل کیا جائے

انہوں نے وائٹ ہاؤس میں کہا: ’ہم اس قتل عام کے ساتھ رہنے کو کیوں تیار ہیں؟ کیا ہم میں اس سے نمٹنے اور گن لابی کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت ہے؟‘

ٹیکسس کے رہنماؤں کے ساتھ بدھ کی نیوز کانفرنس میں اس وقت ایک تنازع کھڑا ہو گیا جب گورنر کے امیدوار بیٹو او رورک نے آڈیٹوریم سے باہر جانے سے پہلے چیخ کر کہا: ’اگلی شوٹنگ کو روکنے کا وقت ابھی ہے اور آپ کچھ نہیں کر رہے ہیں۔‘

گورنر نے جواب میں کہا کہ ’ہم اس وقت بات کر رہے ہیں جب متاثرہ خاندانوں کے لوگ یہاں رو رہے ہیں۔ یہاں متاثرہ خاندانوں کے ایسے لوگ ہیں جن کے دل ٹوٹے ہوئے ہیں۔ ایسے کوئی الفاظ نہیں ہیں کہ کوئی چیخنے والا یہاں آ کر ان ٹوٹے ہوئے دلوں کو ٹھیک کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ٹیکسس کے ہر شہری، ہر امریکی کی ایک ذمہ داری ہے جہاں ہمیں اپنی اور اپنے ایجنڈے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close