سمندروں کی سطح میں اضافے اور ساحلوں کے قریب بڑھتی ہوئی تعمیرات کے باعث ساحل اور ریت کے ٹیلے سکڑنے کے بارے میں حال ہی میں نیچر سائنس جنرل میں ایک تحقیق شایع ہوئی ہے، جس کی تفصیلات ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں
ماہرین کے مطابق ساحل سمندر اور ریت کے ٹیلے نا صرف ماحول کو متوازن رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ یہ مختلف نوع کی سمندری حیات کا قدرتی مسکن ہیں اور ان انواع کی بقا کے لیے نا گزیر ہیں، لیکن ساحل کے قریب شہروں میں تیزی سے بڑھتی آبادی، تعمیراتی کام اور دوسری جانب سطحِ سمندر میں اضافے کی وجہ سے ساحل اور ریت کے ٹیلے تیزی سے سکڑ رہے ہیں۔
نیچر سائنس جنرل میں رواں ماہ شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ساحل سمندر اور ٹیلے بڑھتے ہوئے انفراسٹرکچر اور تعمیرات کی وجہ سے سکڑ رہے ہیں۔ ’رائل نیدر لینڈ انسٹیٹیوٹ فار سی ریسرچ‘ کے محققین نے دنیا بھر میں ساحلوں کے قریب تعمیرات اور ریت کے ٹیلوں کے تجزیے سے معلوم کیا ہے کہ اوسطاً ساحل کے قریب ترین عمارت یا پکی سڑک صرف 390 میٹر کے فاصلے پر ہے۔
’رائل انسٹیٹیوٹ فار سی ریسرچ‘ سے منسلک سائنسدان اور تحقیق کی مصنف ایوا ایم لانسو کہتی ہیں کہ انسانی زندگی میں سمندر اور ساحلی ماحولیاتی نظام کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے۔ دنیا بھر میں تقریباً 40 فی صد آبادی ساحلوں سے سو کلومیٹر کے اندر رہتی ہے اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ایوا لانسو بتاتی ہیں کہ انسانی ترقی سے سمندری ایکو سسٹم تیزی سے تنزلی کا شکار ہے۔ عالمی سطح پر سطحِ سمندر اور شدید موسمی واقعات میں اضافے، شدید گرمی کی لہریں، خشک سالی، طوفانی بارشوں اور سیلاب سے ساحلی ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔
ایوا لانسو کے مطابق، ان عالمی اثرات کی بنیادی وجوہات مقامی عوامل ہیں، جن میں زمینی و سمندری آلودگی، سمندری کٹاؤ اور سیلینائزیشن شامل ہیں، مگر ان میں سب سے بڑا خطرہ ساحلوں کے قریب تیزی سے ہوتا تعمیراتی کام اور انفراسٹرکچر کی بھرمار ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سمندری ایکو سسٹم متنوع ہے، جس میں ریت کے ٹیلے، مرجان کی چٹانیں یا فائٹو پلانکٹن ہر شے کی اہمیت یکساں ہے، لیکن انسان کا تعمیر کردہ انفراسٹرکچر ساحلی ماحولیاتی نظام کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے دستیاب جگہ کو محدود کر رہا ہے۔ ریتیلے ساحلوں پر سمندری حیات کے قدرتی مسکن جگہ کی کمی کے باعث تیزی سے تباہ ہو رہے ہیں۔ سطح سمندر میں تیزی سے اضافے سے کئی سمندری حیات بقا کے خدشے سے دوچار ہیں۔
اس تحقیق سے سامنے آنے والے نئے انکشافات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اوا لانسو نے کہا کہ ان کی ٹیم نے پہلے سے ریکارڈ شدہ ڈیٹا کو اوپن اسٹریٹ میپ ڈیٹا کے ساتھ ملا کر ساحلی علاقوں کا ایک نیا نقشہ تیار کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ساحلی پٹی کے قریب ترین پکی سڑک یا رہائشی عمارت تک فاصلے کا ڈیٹا حاصل کیا۔ لانسو کی ٹیم نے دنیا بھر میں ریتیلے ساحلوں کے ساتھ ہر ایک کلومیٹر پر اس طرح کی پیمائش کر کے نیا ڈیٹا سیٹ بھی حاصل کیا۔
ایوا لانسو بتاتی ہیں کہ اس نئے اور پرانے ڈیٹا سیٹ کے تجزیئے سے معلوم ہوا کہ انفرا سٹرکچر ساحل سمندر کے اتنا قریب ہے، کہ سیاح اوسطاً صرف 390 میٹر کے فاصلے پر کوئی ہوٹل یا سڑک تلاش کر سکتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ بظاہر یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ آپ ساحلوں کی سیر پر جائیں اور قریب ہی رہائش یا ٹرانسپورٹ مل جائے، لیکن اس کا بھیانک ترین پہلو یہ ہے عالمی ریتیلے ساحلوں کے تقریباً 30 فی صد سے زیادہ حصے پر اب انفراسٹرکچر ہے اور محض سو میٹر حصہ خالی رہ گیا ہے، آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ نئی تعمیرات براہ راست ساحلوں ہو رہی ہیں
ایوا لانسو کے مطابق جاپان، جنوبی کوریا، لبنان، مصر، ترکی، اٹلی، اسپین اور امریکہ کے ساحل تیزی سے بڑھتے انفرا سٹرکچر سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان ممالک میں سنہ 2100ع تک سطح سمندر میں اضافے سے ساحلوں کے قریب عمارتوں اور ریت کے ٹیلوں کے درمیان فاصلہ 23 سے 30 فی صد مزید گھٹ جانے کا امکان ہے
ایوا لانسو کہتی ہیں ”دنیا بھر میں ایک تہائی ساحلی پٹی ریتیلے ساحلوں پر مشتمل ہے۔ ان ساحلی علاقوں میں زمین مختلف قسم کی ہے۔ جن میں ریت کے ٹیلے، پتھریلی چٹانیں، تلچھٹ والی زمین وغیرہ شامل ہیں۔“
ریت کے ٹیلوں کی اہمیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایوا لانسو نے کہا ”انسانی زندگی میں ساحل سمندر اور ریت کے ٹیلوں کی اہمیت بنیادی ہے۔ یہ سیلاب کو روکنے کے علاوہ پینے کے پانی کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ سمندری پودوں اور جانوروں کی کئی انواع کا قدرتی مسکن بھی ہیں۔ لیکن ساحلوں کے قریب بڑھتی ہوئی تعمیرات اور سطح سمندر میں اضافے سے ریت کے ٹیلے سکڑ رہے ہیں۔
پاکستانی ساحلوں کی صورتحال
انسٹیٹیوٹ آف اوشیانوگرافی کراچی کی ایک تحقیق کے مطابق گذشتہ چار دہائیوں میں کراچی کی ساحلی پٹی پر تیزی سے تعمیرات ہوئی ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ گزری کریک کا سمندری راستہ جو 1986ع تک چودہ مربع کلومیٹر پر محیط تھا اب سکڑ کر محض گیارہ مربع کلومیٹر رہ گیا ہے۔ واضح رہے کہ گزری کریک کراچی اور گرد و نواح میں واقع مینگروز کے جنگلات اور سمندری ماحولیاتی نظام کا ایک اہم حصہ ہے۔
اس تحقیق کے مطابق ساحل کے قریب تعمیرات کے جنون سے سمندری ایکو سسٹم اور مقامی افراد کا ذریعہ معاش شدید متاثر ہوا ہے۔ یہاں زیادہ تر افراد ماہی گیری کے پیشے سے وابسطہ تھے۔ مگر ساحلی پٹی پر مینگروز کے جنگلات متاثر ہونے سے مچھلیوں کی افزائش گاہیں تباہ ہو گئی ہیں۔
گزری کریک اور ملحقہ علاقے جو کبھی مچھلیوں سے بھرے ہوتے تھے، اب وہاں جیلی فش کا راج ہے اور ماہیگیر دیگر پیشے اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کراچی کی ساحلی پٹی پر بڑے پیمانے پر رہائشی سکیموں کی تعمیر سے مون سون سیزن میں سیلاب کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔
حل کیا ہے؟
رائل نیدر لینڈ انسٹیٹیوٹ آف سی ریسرچ کے محققین کا کہنا ہے کہ ریتیلے ساحلوں کے قریب وہ علاقے جہاں ساحل تیزی سے سکڑ رہے ہیں انھیں "پروٹیکٹڈ ایریا” قرار دے کر وہاں ہر طرح کی تعمیرات پر پابندی لگانا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی دیگر علاقوں کے لیے تعمیرات کی حد مقرر کی جائے۔ یہ فاصلہ پروٹیکٹڈ ایریاز سے چار گنا زیادہ ہونا چاہئے تاکہ سطح سمندر میں اضافے سے مستقبل میں ان علاقوں میں ساحل بلکل غائب نہ ہو جائیں۔
ایوا لانسو کہتی ہیں ”دنیا بھر میں اب تک ریتیلے ساحلوں کے قریب صرف 16 فی صد علاقوں کو پروٹیکٹڈ ایریا قرار دیا گیا ہے۔ اس شرح کو تیزی سے بڑھانے کے علاوہ ساحلی علاقوں میں تعمیرات اور آبادکاری سے متعلق قوانین نافذ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔“